لاہور ہائی کورٹ کے ایک چیف جسٹس کے دماغ میں یہ سودا سمایا کہ ہائی کورٹ کی موجودہ خوبصورت عمارت کو گرا کر نئی عمارت تعمیر کی جائے۔ یہ 2007ء کی جولائی کا مہینہ تھا اور جج صاحب جسٹس افتخار حسین تھے، جو جہلم کے اس مشہور سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جن سے سابق گورنر پنجاب الطاف حسین اور موجودہ وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کا تعلق ہے۔ انہوں نے رجسٹرار ہائی کورٹ سے اپنی "عدالتِ عالیہ" میں ایک درخواست جمع کروائی جس میں یہ استدعا کی گئی تھی کہ ہائی کورٹ کی موجودہ عمارت کو گرا کر نئی عمارت تعمیر کی جائے۔
چیف جسٹس صاحب نے اس درخواست پر "کھلی عدالت" میں سماعت کرنے کی بجائے اپنے چیمبر میں یہ فیصلہ لکھا کہ، "چونکہ ہائی کورٹ کی موجودہ عمارت ججوں کے لئے دفاتر فراہم کرنے کے لئے بنائی گئی تھی اور اب یہ ناکافی ہو گئی ہے، اس لئے اسے گرا کر نئی عمارت تعمیر کی جائے"۔ مشرف دَور میں مجھے زبردستی بلوچستان سے نکال کر پنجاب بھیجا گیا تھا اور ایک کھڈے لائن محکمے "آثارِ قدیمہ" کا ڈائریکٹر جنرل لگا دیا گیا تھا، جس کا دفتر ہائی کورٹ کے پڑوس میں واقع اوقاف بلڈنگ میں تھا، جس میں اسّی فیصد سے زیادہ کمروں میں وکلاء کے دفاتر تھے۔ فیصلہ بہت خاموشی سے ہوا تھا، لیکن اس کی خبر مجھے میرے پڑوسی الیاس کو مل ایڈووکیٹ صاحب نے فوراً دے دی۔
مروّجہ قانون "Special Premises Act 1985" کے تحت ہائی کورٹ کی عمارت ایک قومی ورثے کی حیثیت رکھتی تھی اور ڈائریکٹر جنرل آثارِ قدیمہ اس کے تحفظ کا ذمہ دار تھا، اس کی اجازت کے بغیر اس میں ایک کیل بھی نہیں ٹھونکی جا سکتی تھی۔ میں نے فوراً رجسٹرار ہائی کورٹ کو خط لکھا، جس میں قانون کا حوالہ دے کر تحریر کیا کہ "یہ سب کچھ عالی مرتبت چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا جائے"۔ جس پر مجھے یہ جواب پہنچایا گیا کہ "نوٹس تو ہم لیا کرتے ہیں، آپ کون ہوتے ہو!"۔ اور اگلے دن سیکرٹری محکمہ تعمیرات و شاہرات (C & W) کو چیمبر میں بلا کر فوراً اپنے آرڈر کی تکمیل کے لئے کہا گیا اور ملبے کی نیلامی کا اشتہار بھی دے دیا گیا۔
لاہور کے وہ لوگ جو اس کے ورثے سے محبت رکھتے تھے ان میں پریشانی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اِدھر ملبے کا ٹھیکہ منظور ہوا اور اُدھر سیکرٹری تعمیرات نے توہینِ عدالت کے خوف سے کانپتے ہوئے عمارت گرانے کی مشینری راتوں رات وہاں پہنچا دی۔ میں نے ورثے سے محبت کرنے والے معززین کے ہمراہ بڑے بڑے وکلاء سے رابطہ کیا کہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کے لئے وکیل بنیں، لیکن کوئی راضی نہیں ہو رہا تھا۔
میں "نیشنل کالج آف آرٹس" کی پرنسپل فوزیہ قریشی کے ہمراہ مین بلیوارڈ گلبرگ میں واقع مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے دفتر بھی یہی درخواست لے کر گیا، انہوں نے ججوں کو تو بے نقط سنائیں، مگر مسکرا کر ٹال دیا۔ ایسے میں موجودہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب جناب احمد اویس صاحب نے جرأت دکھائی اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ جسٹس بھگوان داس اور جسٹس خلیل الرحمان رمدے کے بینچ کے سامنے صرف ایک دلیل نے مقدمہ جیت لیا۔
احمد اویس صاحب نے کہا کہ "پاکستان کا آئین اور اس کے قوانین، ہر عدالت کو ایک کھلی عدالت (Open Court) قرار دیتے ہیں اور یہ فیصلہ ایک بند کمرے "Chamber" میں کیا گیا ہے، اس لئے اسے کالعدم قرار دیا جائے"، سپریم کورٹ نے اس کے خلاف فصیلہ دے دیا مگر اس دوران اتنی دیر ہو چکی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ کی ایک عمارت آدھی سے زیادہ گرائی جا چکی تھی۔ اس گری ہوئی عمارت کو ہم نے، شاعر آرکیٹکٹ غافر شہزاد کی نگرانی میں ملبے سے اینٹیں لے کر از سرِنو تعمیر کروایا۔
پاکستان کی تمام عدالتیں، کھلی عدالتیں ہیں اور ان کی کارروائی سننا ہر پاکستانی کا حق ہے۔ کسی بھی فرد کو بغیر کسی وجہ، کمرۂ عدالت میں جانے سے قانوناً نہیں روکا جا سکتا۔ وجوہات میں جگہ کی کمی، اس شخص کا روّیہ یا کسی حملے وغیرہ کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت ایک کیمرے کے ذریعے پورے پاکستان بلکہ پوری دُنیا کو ایک بہت بڑے کمرۂ عدالت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس میں ہر پاکستانی جسے قانونی طور پر کارروائی دیکھنے کا حق حاصل ہے وہ با آسانی اپنے گھر میں بیٹھے عدالتی کارروائی دیکھ سکتا ہے۔
دُنیا میں کئی ممالک اس پر عملدرآمد کر رہے ہیں اور اس کی وجہ سے عوام کو فوری طور پر یہ جاننے کی سہولت میسر آتی ہے کہ آج کیا دلائل دیئے گئے، ریمارکس کیسے تھے اور انہیں دیتے وقت جج کے چہرے پر کیسے تاثرات تھے یا کس وکیل نے بہانے بازی سے تاریخیں لینے کی کوشش کی۔ لوگ بغیر کسی کورٹ رپورٹر کی مدد یا اس کے ذاتی تعصب والی رپورٹنگ سے بالاتر ہو کر عدالت کی کارروائی دیکھ سکتے ہیں اور اپنی دانست میں ایک اچھا یا بُرا تاثر بھی قائم کر سکتے ہیں۔
کمرۂ عدالت میں کیمرہ سب سے پہلے 1979ء میں امریکی ریاست، فلوریڈا کی عدالت میں لے جایا گیا جہاں مشہور سیریل کلر ٹیڈ بنڈی (Ted Bundy) کا کیس چل رہا تھا، جس نے تیس عورتوں کو جنسی تشدد کر کے قتل کیا تھا۔ اس کا مقدمہ پورے امریکہ میں مسلسل ٹیلی ویژن پر دکھایا جاتا رہا۔ اس کے بعد تقریباً 12 سال بعد 1991ء میں کینیڈی خاندان کے ایک خوبصورت نوجوان ولیم کینیڈی پر ایک خاتون نے الزام لگایا کہ اسے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے، جب کہ ولیم کینیڈی کا موقف یہ تھا کہ سب کچھ رضا مندی سے ہوا ہے۔
امریکی عوام کینیڈی خاندان کی خوبصورتی سے بہت محبت کرتی تھی، اس لئے اس مقدمے کو براہِ راست دیکھنا چاہتی تھی۔ عوامی مطالبے پر اسے براہِ راست ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا۔ خاتون والا واقعہ فلوریڈا کے ساحلوں پر ہوا تھا، جس کے بے شمار گواہ تھے۔ انہوں نے گواہی دی کہ دراصل خاتون ہی ولیم کو گھیر رہی تھی اور ان کی شہادتوں کی بنیاد پر ولیم کینیڈی کو باعزت بری قرار دیا گیا۔ امریکی تاریخ کا اہم ترین کیس مشہور فٹ بالر "اوجے سیمپسن" (O.J.Simpson) کا مقدمہ تھا، جو 1995ء میں براہِ راست ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا۔ ان دنوں میں امریکہ میں تھا اور محسوس ہوتا تھا کہ لوگوں کا اس مقدمے کو دیکھنے کا شوق اس قدر شدید ہے کہ نشریات کے دوران سڑکیں ویران ہو جاتی تھیں۔
ایک اندازے کے مطابق روزانہ تقریباً دس کروڑ لوگوں نے اس مقدمے کو دیکھا۔ برطانیہ کی عدالتیں جو1925ء سے یہ موقف رکھتی تھیں کہ عدالت میں تصویر کشی یہاں تک کہ ججوں کی پنسل کے ساتھ تصویریں بنانا بھی کمرۂ عدالت میں غلط ہے، انہوں نے عوامی مطالبے پر 2009ء میں کیمرے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد سکاٹ لینڈ کی عدالتوں نے 2012ء میں کیمرے اندر لے جا کر ریکارڈنگ کرنے کی بھی اجازت دی لیکن اسے براہِ راست نشر کرنے کی بجائے تھوڑے وقفے سے ایسا کرنے کے لئے کہا گیا تاکہ کسی وقت ایسے ناخوشگوار فقرے یا نازیبا حرکت نہ ہو جائے جسے لوگوں سے چُھپانا مقصود ہو تو پھر اُسے کاٹ کر نشر کیا جائے۔ اس عمل کو ٹیلی ویژن کی زبان میں "براہِ راست جیسا ریکارڈ" کیا گیا پروگرام (Recorded as Live) کہتے ہیں، جس میں چند منٹ کا بامقصد وقفہ (Purposeful delay) رکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں بے شمار ایسے مقدمے ہیں، جنہیں عوام براہِ راست سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ مقدمے عوام کی اجتماعی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم مقدمے کرپشن کے مقدمے ہیں، جنہوں نے پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اگر آج یہ مقدمے براہِ راست دکھائے جانے لگیں تو پھر کوئی سیاست دان عدالت کے حوالے سے عوام کو دھوکہ نہیں دے سکے گا، عوام خود فیصلہ کر سکیں گے کہ کس کے وکیل نے مجرمانہ طور پر تاریخیں لیں، کون بودے قسم کے دلائل دیتا رہا اور جج کے ریمارکس کس لب و لہجہ کے تھے۔
پاکستانی سیاست کو سیاست دانوں، کورٹ رپورٹروں اور تبصرہ نگاروں کی غلط بیانیوں سے نکالنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ بڑے مقدمات براہِ راست دکھائے جائیں۔ پھر دیکھئے کیسے ان کو دیکھنے کے لئے سڑکیں سُنسان ہوتی ہیں اور لوگوں تک کیسے سچ پہنچتا ہے۔
نوٹ: ایک صاحب نے اپنی عزیزہ کو جگر کا عطیہ دیا تھا لیکن محنت مزدوری کی وجہ سے خود بیمار پڑ گئے۔ کوئی صاحبِ خیر اس نمبر پر رابطہ کر کے ان کا علاج کروا سکتا ہے۔ 03254304675