آیاء صوفیا کبیر جسے ترک جامع شریف کہتے ہیں، وہاں نماز جمعہ یا کسی بھی نماز کی ادائیگی میرے لئے ایسا ہی خواب تھا جیسا علامہ اقبال کا خواب جو انہوں نے مسجد قرطبہ میں نماز ادا کر کے پورا کیا۔ صدیوں اس عمارت میں اذانیں گونجتی رہیں، اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی رہیں اور اس کی زمین مسلمانوں کے سجدوں سے سرفراز ہوتی رہی۔ دوغیہ ایسے یہودیوں کو کہتے ہیں جو مسلمان یا عیسائی خوف سے بنے ہوتے ہیں مگر گھروں میں مکمل یہودی ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک گھرانے میں پیدا ہونے والے اتاترک نے اسے مسجد سے عجائب گھر بنا دیا۔
تقریباً 85سال کے بعد یکم جولائی 2016ء کو وہاں نماز ادا کی گئی تو ترکی میں قائم ایک این جی او جو تاریخی مقامات کے تحفظ کے لئے کام کرتی تھی، اس اقدام کے خلاف عدالت میں چلی گئی، 13مئی 2017ء کو فجر کی نماز کے وقت عوام کا ایک جم غفیر وہاں جمع ہوا اور انہوں نے پھر نماز ادا کی۔ عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا لیکن 31مارچ 2018ء کو ترکی کے صدر طیب اردگان نے بھی اپنی خوبصورت قرأت کے ساتھ وہاں قرآن پاک کی آیات تلاوت کیں۔
دو سال بعد 2020ء میں ترک قوم نے قسطنطنیہ کی 567ویں فتح کی سالگرہ منائی اور اسی آیاء صوفیا میں سورہ فتح کی تلاوت کی گئیں۔ دنیا بھر کا ضمیر ایسے تمام معاملات میں فوراً جاگتا ہے۔ کہا جانے لگا کہ یہ ایک عالمی ورثہ ہے اس لئے اس کے استعمال کے لئے یونیسکو کی اجازت ضروری ہے۔ دنیا بھر کے عالمی ورثے جو دراصل اب سیاحتی مقام بن چکے ہیں، وہاں شراب بک سکتی ہے، بار کھل سکتے ہیں، قحبہ گری اور جسم فروشی کا کاروبار ہو سکتا ہے مگر ان سب کے لئے کسی "یونیسکو" کی اجازت نہیں لینا پڑتی لیکن اذان دینے اور نماز پڑھنے کے لئے اجازت چاہیے۔
آپ دنیا بھر کے سابقہ مذہبی مقامات یا شاہانہ تہذیب کے کھنڈرات ملاحظہ کرتے چلے جائیں آپ کو ایسے بے شمار مناظر نظر آئیں گے، بانہوں میں بانہیں ڈالے جوڑے تصویریں بھی بنا رہے ہوں گے اور بوس و کنار بھی کر رہے ہوں گے لیکن کسی ایسے سابقہ چرچ، بدھ ٹمپل یا ہندو مندر کے ورثے میں بدلے ہوئے مقامات پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ البتہ نماز پڑھنے پر قرطبہ کی مسجد میں بھی اعتراض ہے اور آیاء صوفیا پر بھی جو 567سال تک اذانوں سے گونجتی رہی۔
یہ عمارت جسے سیدالانبیائﷺ کی پیدائش سے 34سال قبل 537عیسوی میں روم سے علیحدہ ہونے والے مشرقی رومن یا باز نظینی حکمرانوں نے مشرقی آرتھوڈوکس عیسائیت کے سب سے بڑے مرکز کے طور پر تعمیر کیا، یہاں پر مسیحی عبادت ہوتی رہی۔ لیکن 1204ء میں جب لاطینی سلطنت کے عیسائی جنہیں چوتھے صلیبی کہا جاتا ہے، انہوں نے اس عمارت پر قبضہ کیا تو پھر عیسائی عبادت کا رنگ ڈھنگ بھی بدل دیا گیا۔ لیکن 1264ء میں ایک بار پھر بازنطینی قابض ہوئے تو انہوں نے لاطینی عیسائی حکمران جو وینس شہر کا دوج dodgeکہلاتا تھا۔
اینریکو ڈونلڈولو Enrico Dandoloکو پہلے اندھا کیا اور پھر اسے اس عمارت میں گڑھا کھود کر دفن کر دیا۔ سلطان محمد فاتح نے جب قسنطنیہ فتح کیا تو تھوڑے ہی عرصے میں تمام آبادی جن کی اکثریت ترکوں کی تھی وہ مسلمان ہو گئی یہ آرتھو ڈوکس چرچ ان کی ملکیت تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یہاں نماز ادا کی جائے۔ لیکن سلطان نے پھر بھی اس جگہ اور عمارت کی قیمت ادا کی اور اسے مسجد میں تبدیل کر دیا۔
بالکل ویسے ہی جیسے آج کے جدید دور میں انگلینڈ، فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک میں مسلمان چرچ خرید کر اسے مساجد میں تبدیل کر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ میں سیکولر حکمرانوں کی بدولت تمام ممالک کے چرچ اتنے غریب ہو چکے ہیں کہ وہ اپنی عمارتوں کی دیکھ بھال کے لئے بھی سرمایہ نہیں رکھتے، اس لئے وہ اسے فروخت کرتے رہے ہیں، خواہ کوئی مسجد بنائے یا شراب خانہ، انہیں کوئی غرض نہیں۔
1453ء سے 1931ء تک آیا صوفیہ ٹھیک 522سال اذانوں سے گونجتی رہی اور سجدوں سے مزین ہوتی رہی۔ اتاترک نے جب یہ حکم نافذ کیا کہ اذان ترکی زبان میں دی جائے تو ساتھ ہی آیاء صوفیہ پر بھی تالا لگا دیا گیا۔ ترک پارلیمنٹ وہ مسلمان جو توکّل کی دولت سے مالا مال تھے انہوں نے عربی میں اذان دینے کی ٹھانی، پہلے رکن نے اللہ اکبر کہا تو اسے گولی مار کر شہید کر دیا گیا، دوسرا، پھر تیسرا، اس طرح سات ارکان پارلیمنٹ نے جام شہادت نوش کر کے اذان مکمل کی چار سال بعد اس مسجد کو ایک میوزم میں بدل دیا گیا۔
میں اس سے پہلے دو دفعہ ترکی آیا لیکن اس میوزیم میں داخلے کا حوصلہ نہ ہوا۔ غرناطہ کی مسجد تو غیروں نے ویران کی تھی لیکن آیاء صوفیا کو بے آباد تو اس شخص نے کیا جو خود کو مسلمان کہتا تھا اور جو آج بھی لاتعداد سیکولر اور لبرل افراد کا ہیرو ہے۔ مسجد میں اب ہر اذان کے ساتھ ایک اور اذان دی جاتی ہے جو ان پچاسی سالوں کا کفارہ ہے جن سالوں میں یہاں نماز نہ ہو سکی۔ اگلے پچاسی سال تک آیاء صوفیاء میں دو اذانیں دی جاتی رہیں گی۔ مسجد کے فرش پر سجدہ ریز ہوا تو آنسو خود بخود بہنے لگے۔ کون تھے وہ لوگ جو سیدالانبیائﷺ کی بشارت کی وجہ سے سات سو سال تک مسلسل اس شہر کو فتح کرتے آتے رہے۔ عرب جہتوں نے کبھی ایسے سرد موسم دیکھے ہی نہ تھے، مہینوں ان موسموں میں قسطنطنیہ کی فصیل کے پاس پڑے رہتے۔ اقبال یاد آتے ہیں:
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں میں
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پائوں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
سجدے سے سر اٹھایا تو ایک عالم سرخوشی تھا، سپاس گزاری کا لمحہ، اللہ کے سامنے ایک بار پھر شکر کی ادائیگی میں سربسجود ہونے کا موسم تھا۔