ژاں پال سارتر کو گذشتہ صدی کا سب سے بڑا فلسفی اور ناول نگار خیال کیا جاتا ہے۔ یہ ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جسے متنازعہ ترین نوبل انعام ملا تو اس نے اسے وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ باغی ایسا کہ اس کے ملک فرانس کے الجزائر پر غاصبانہ قبضے کے خلاف جب وہاں کے عوام نے علمِ بغاوت بلند کیا تو سارتر الجزائر کے لوگوں کے حق میں اور اپنے ہی ملک کے خلاف وہاں جا کر لڑنے لگا۔ مقبول اتنا کہ جب الجزائر کے عوام کے حق میں وہاں جا کر لڑنے پر فرانس کی اسٹیبلشمنٹ نے صدر سے اس کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تو فرانس کے صدر نے جواب دیا کہ میں اسے کیسے گرفتار کر سکتا ہوں، "سارتر تو فرانس ہے"۔
یہ عظیم فلسفی اور ناول نگار پچھہتر سال کی عمر میں 15 اپریل 1980ء کو پیرس میں انتقال کر گیا۔ اپنے مرنے سے پہلے اس نے اپنی زندگی کا طویل ترین انٹرویو دیا، جو فرانس کے مشہور ہفت روزہ "لی نول ابزویٹر (Le Nouvel Observateur) میں تین اقساط، 10، 17 اور 24 مارچ 1980ء کو اس کی زندگی میں ہی شائع ہوا۔ سارتر نے اس انٹرویو میں اپنی زندگی کے بے شمار نظریات، خیالات اور طرزِ زندگی کے بارے میں کھل کر گفتگو کی۔ لیکن اس طویل انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں سارتر کا فقرہ آج کے دَور کے مسائل کی بنیادی جڑ کی بہترین نشاندہی کرتا ہے۔
سوال کرنے والے نے سارتر سے پوچھا، "بیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ کونسا ہے؟ "، سارتر نے جواب دیا، "بیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ بھوک ہے نہ افلاس، بیماری ہے نہ جہالت، بلکہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ منافقت ہے۔" آج سارتر کو مرے انتالیس سال ہو چکے ہیں، لیکن اس کا یہ فقرہ دُنیا کے تمام ممالک کے صاحبانِ اقتدار اور خصوصاً اہلِ علم و دانش اور وارثانِ مذہب پر صادق آتا ہے۔ یہ صرف ایک فقرہ نہیں ہے بلکہ مجھے تو یہ قول موجودہ دَور کے بارے میں سیدالانبیاء ﷺ کی اس پیش گوئی کی تصدیق کرتا ہوا نظر آتا ہے، جس میں آپؐ نے فرمایا تھا، "دجال کے خروج سے پہلے چند سال دھوکہ و فریب کے ہوں گے۔
سچے کو جھوٹا بنایا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنایا جائے گا۔ خیانت کرنے والے کو امانتدار بنا دیا جائے گا اور امانت دار کو خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا۔ اور ان میں رویبضہ بات کریں گے۔ پوچھا گیا رویبضہ کون ہیں؟ فرمایا گھٹیا لوگ۔ وہ لوگوں کے اہم معاملات میں بولا کریں گے (مسند احمد: 1332، مسند ابی یعلی: 3715، السنن الواردۃ فی الفتن)۔ جب کبھی اپنے ملک میں غیر معمولی حالات و واقعات اور پھر اچانک رونما ہونے والے سانحات پر حکمرانوں، دانشوروں، مذہبی سکالروں، صحافیوں اور کالم نگاروں کو دہرے معیار کے ساتھ بولتے اور لکھتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سیدالانبیاء ﷺ کی یہ حدیث اور سارتر کا قول بار بار میرے ذہن سے ٹکراتے ہیں۔
منافقت اور دوغلے پَن کی جتنی بہتات میرے ملک میں آپ کو ملے گی شاید ہی کسی اور ملک میں آپ کو نظر آئے۔ گذشتہ بیس سالوں میں یوں لگتا ہے پاکستان میں منافقت اور دوغلا پَن ایک ایسا تناور درخت بن چکا ہے، جس کے زہر آلود پھل نے پورے ملک کے ماحول کو زہرخند کر دیا ہے۔
سانحہ سیالکوٹ اس کی بدترین مثال ہے جس میں سیدالانبیاء ﷺ کی حرمت کا نام ان نوجوانوں نے استعمال کیا جن کی اپنی زندگیوں میں رسول اکرم ﷺ کے کردار و افکار کی ننھی سی جھلک بھی نظر نہیں آتی تھی۔ کہا جاتا ہے انہیں اس حال پر ان لوگوں نے پہنچایا ہے جنہوں نے ان میں یہ تصور کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا کہ اب اس ملک میں تمہیں حرمتِ رسول ﷺ کی حفاظت خود ہی کرنا ہے۔ اس تصور کے پیچھے دلیل یہ دی جاتی تھی کہ اس ملک میں حکمران ہوں یا انتظامیہ، کوئی بھی اس مقدس فریضے کو انجام دینے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
یہ سادہ لوح عام آدمی اس دلیل کو اس وقت مزید سچ سمجھنے لگتا ہے، جب وہ گذشتہ بیس سالوں سے شام کو ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھے ہوئے عظیم دانشور، اینکر پرسنوں کو صرف اور صرف توہینِ رسالت کے ہی قانون کے خلاف زور شور سے دلائل دیتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اسے نظر آتا ہے کہ ان دانشوروں اور انسانی حقوق کے ترجمانوں کے نزدیک پاکستان میں صرف یہی ایک قانون ہے جو سارے بگاڑ کی اصل وجہ ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ٹیلی ویژن پر اسے یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ دیکھو قانون ہاتھ میں لینا بہت بڑا جُرم ہے۔ ماورائے عدالت قتل تو معاشرے میں بدامنی کا آغاز ہے۔
وہ اس تصور پر کامل یقین کرنے ہی لگتا ہے، مگر اس کے سامنے ایک ضلع کی پولیس کا سربراہ ایک ملزم کو جس پر اغوا برائے تاوان کا الزام ہوتا ہے، ماورائے عدالت قتل کرواتا ہے تو جی ٹی روڈ پر اس پولیس آفیسر کی تصاویر والے بینر آویزاں ہوتے ہیں۔ اسے ٹاک شوز میں بلایا جاتا ہے، اسے ایک کامیاب آفیسر قرار دیا جاتا ہے۔ اسے مزید حیرت اسوقت ہوتی ہے جب امن و امان کے قیام کے بہترین تصور کے طور پر ایوب دَور کے ایک گورنر اور نواز شریف دَور کے چہیتے وزیر اعلیٰ کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ انہوں نے کیسے پولیس مقابلوں کے ذریعے ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ افراد کو قتل کروا کر ملک میں امن و امان قائم کیا تھا۔
عام آدمی کے نزدیک ابھی تک بات اتنی بگڑی نہیں ہوتی۔ وہ اپنے دل کو تسلی دے لیتا ہے کہ، چلو یہ تو حکومت کے لوگ ہیں، یہ جانیں اور عدالتیں جانیں۔ لیکن اس کی آنکھیں اس وقت حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں جب پاکستان کے چند بڑے شہروں میں ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ لوگوں کے ہاتھ کوئی ڈاکو یا موبائل چھیننے والا ملزم آ جاتا ہے تو لوگ مار مار کر اسے سرِعام قتل کر دیتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، جب پولیس والے آتے ہیں تو لاش ان کے حوالے کر دی جاتی ہے۔
وہ جیسے ہی شام کو ٹیلی ویژن کھولتا ہے تو وہی دانشور، اینکر پرسن جو ماورائے عدالت قتل پر لیکچر دیتے تھے، وہ ان کو بالکل مختلف انداز میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ کوئی کہتا ہے، جب حکومت امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہو جائے گی تو پھر ایسا ہی ہو گا۔ کوئی اسے ملک میں انقلاب کا آغاز قرار دیتا ہے، کوئی حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کہتا ہے لیکن سب کے سب دانشور یا اینکر پرسنوں کے نزدیک ہجوم کسی بھی صورت قصور وار نہیں ہوتا بلکہ وہ تو اسے "عوامی انصاف" سے تعبیر کرتے ہیں۔
آج سے بتیس سال قبل 1989ء میں میَں سرحدی شہر پشین میں اسسٹنٹ کمشنر تھا۔ وہاں سے ایک اہم شاہراہ گزرتی ہے جو زیارت، لورالائی اور ژوب کو ملاتی ہے۔ ایک رات شاہراہ پر واقع ایک گائوں میں ڈاکو آئے، سامان لوٹ کر فرار ہوتے ہوئے انہوں نے ایک لیویز کے سپاہی کو مار دیا۔ پوری رات پہاڑوں میں ان کا محاصرہ کیا گیا، صبح بارہ بجے کے قریب جب ان کا اسلحہ ختم ہوا تو انہوں نے گرفتاری دے دی۔ میں انہیں گرفتار کر کے خانوزئی لے آیا اور انہیں وہاں تھانے میں بند کر دیا۔
اچانک عوام کا بہت بڑا ہجوم غصے میں بپھرا ہوا تھانے میں داخل ہوا۔ پہلے انہوں نے سامنے حوالات میں بند ان دونوں ملزموں پر تھوکا اور پھر کلاشنکوف کے برسٹ مار کر انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس قدر بڑے ہجوم کے سامنے چند سپاہی اتنے بے بس تھے کہ چُپ چاپ دیکھتے رہ گئے۔ ہجوم میں چند افراد واپس جاتے ہوئے میری طرف اشارہ کر کے کہتے رہے، جب آپ نے جان ہتھیلی پر رکھ کر پیچھا کر کے تحصیلدار پنجپائی کے قاتل پکڑے تھے تو دو سال بعد وہ عدالت سے بری نہیں ہو گئے تھے، کل یہ بھی بری ہو جائینگے۔
آج سے بتیس سال پہلے بھی میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اور آج تو میں حیرت میں گم، اس بگڑتے ہوئے معاشرے کو دیکھتا ہوں، جہاں دوغلے پَن اور منافقت کے اندھیرے میں سچائی کی کرن تک نظر نہیں آتی۔