آج سے دو سال پہلے جب دنیا بھر میں کورونا کا خوف پھیلا تھا تو دیگر تمام ملکوں کی طرح ترکی بھی اسی عالم خوف میں تھا۔ ظاہر بات ہے اموات کی شرح زیادہ تھی اور علاج کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا۔ لیکن گزشتہ دو دنوں سے میں استنبول کے شہر میں گھوم رہا ہوں۔ وہ شہر جہاں کبھی سیاحوں کی آمدورفت بند ہو گئی تھی۔ بازار اور ریسٹورنٹ ویران ہو گئے تھے۔ وہاں لگتا ہے، ایک بار پھر زندگی معمول پر آتی جا رہی ہے۔ آیۂ صوفیہ، توپی کاپی اوربلیو، مسجد کے آس پاس کے بازاروں ایک بار پھر کھوے سے کھواچھل رہا ہے۔
چہرے پر ماسک بھی لگتا ہے اب حسب منشاء اور حسب عادت سا بن چکا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے جو عورت حجاب لینا چاہے وہ لیتی رہے اور جو نہیں لینا چاہتی اسے کوئی روکتا نہیں ہے۔ کورونا کا یہ خوف کیسے ختم ہوا اور لوگوں نے کیسے اس وائرس کو آنکھیں دکھانا شروع کیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہزاروں مضامین اور وہ بھی سائنسی نوعیت کے چھپ چکے ہیں اور اتنی ہی تحقیقات منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جنہوں نے کورونا کی اس خوفناک حیثیت کو چیلنج کر دیا ہے۔ یہاں سازشی کہانیوں کا ذکر نہیں، پرانی فلموں میں ادا ہونے والے کسی ایک جملے یا سائنسی فکشن میں بنائی گئی کسی ایک صورت حال کا بھی تذکرہ نہیں جس میں کسی بڑے وائرس کے پھیلائے جانے کی پیش گوئی کی گئی ہو۔ خالصتاً سائنسی بحث کی بات ہے۔
دنیا میں کوئی اس وائرس کے وجود سے انکار نہیں کرتا۔ لیکن اس وائرس سے ایک خوف پھیلا کر دنیا بھر میں مخصوص کاروباری مقاصد کے حصول پر سوالات ضرور اٹھائے جا رہے ہیں۔ وہ لوگ جو مغربی دنیا میں رہتے ہیں، جانتے ہیں کہ کسی بھی پراڈکٹ (Product)کو بیچنا سب سے پہلے ایک خوف کی فضا پیدا کی جاتی ہے۔ مثلاً جب منرل واٹر یا بوتل کا پانی بیچنے کا اور اسے عالمی سطح پر مارکیٹ کرنے کا ارادہ کیا گیا تو سب سے پہلے دنیا بھر کے ممالک میں یہ خوف پیدا کیا گیا کہ تمہارے ہاں کے پانی کے زیر زمین ذخائر آلودہ(Contaminated)ہو چکے ہیں اور اگر آپ یہی پانی استعمال کرتے رہے تو جگر اور معدے کی ایسی لاعلاج بیماریوں کا شکار ہو جائو گے کہ موت تمہارے دروازوں پر دستخط دینے لگے گی۔
سب سے پہلے اس کا تجربہ دنیا کے میڈیا کی علامت شہر لاس اینجلس میں کیا گیا جہاں ہالی ووڈ واقع ہے۔ وہاں کا پانی ایری زونا کی ریاست کے مشہور دریا کولوریڈو(Colorado)سے آتا ہے۔ ہیپاٹائٹس کے خوف سے جب بڑے بڑے اداکارائوں نے پانی کی بوتل ہاتھ میں پکڑی تو یہ انداز صحت کی حفاظت کا ضامن بھی ٹھہرا اور ایک لائف سٹائل اور فیشن بھی۔ اسی طرح اسیّ نوّے کی دہائی میں ایڈز کے خوف نے کنڈوم کی صنعت کو بامّ عروج پر پہنچا دیا۔
کورونا کا خوف بہت شدید تھا اور اس سے منسلک لاتعداد صنعتیں وابستہ ہوتی چلی گئیں۔ جن میں سے سب سے اہم صنعت وہ ٹیسٹ تھا جسے پی سی آر(PCR)کہتے ہیں۔ اس ٹیسٹ کی طبی تاریخی(Medical History)بتاتی ہے کہ اس کا نتیجہ زیادہ سے زیادہ ساٹھ سے ستر فیصد تک درست ہو سکتا ہے۔ لیکن باقی تیس سے چالیس فیصد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے صحیح بتایا ہے یا غلط۔
ضروری نہیں جو اس نے کورونا کے شکار نہیں بتائے وہ سب ٹھیک تھے یا جوس نے کورونا کے شکار بتائے تھے وہ سب مریض تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے تقریباً تمام ممالک میں سائنسی کانفرنسیں ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا کام جرمنی میں ہوا جس کی سربراہی ڈاکٹر رائینو فومیج (Renien Foullmich)نے کی۔ یہ ایک وکیل ہے جو گزشتہ 25سالوں سے چھوٹی کمپنیوں کا بڑی کمپنیوں کے ہاتھوں استحصال کے مقدمات لڑتا چلا آ رہا ہے۔ اس کے نزدیک کورونا کا معاملہ بھی اسے کچھ اسی طرح کا لگا تو اس نے برلن میں ایک کورونا تحقیقاتی کمیٹی قائم کر کے دنیا بھر سے 150بڑے بڑے سائنس دانوں کے انٹرویو کئے۔
جن کے سامنے تین سوال رکھے گئے۔ 1۔ کورونا کتنا خطرناک ہے۔ 2۔ پی سی آر ٹسٹ کس قدر قابل بھروسہ ہے اور 3۔ کورونا روکنے کے اقدامات نے انسانی معیشت اور صحت پر کتنے اثرات مرتب کئے ہیں۔ ان سب کا پہلا جواب یہ تھا کہ وائرس تو موجود ہے لیکن اس کا خطرہ عام فلو سے کچھ تھوڑا سا زیادہ ہے۔ کیونکہ فلو بھی سالانہ لاکھوں جانیں لے جاتا ہے جبکہ پی سی آر ٹسٹ کسی بھی قسم کی انفیکشن (infection)کو بتانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ چونکہ پی سی آر ہی واحد ذریعہ اس وبا کو ناپنے کا ہے۔ اس لئے یہ اتنی بڑی وبا نہیں ہے بلکہ ی صرف پی سی آر کی دکھائی جانے والی وبا ہے۔ دنیا میں واحد ملک پولینڈ ہے جس کی پارلیمنٹ نے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی ہے کہ کورونا کے خوف اور اس کے پھیلائو کا سائنسی جائزہ لیا جائے۔ گزشتہ دنوں اس کانفرنس میں یہ رپورٹ ڈاکٹر رائینو فوفیج (Reiner Fuellmich)نے پیش کی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں امراض کی تشخیص پہلے علامات اور پھر ٹیسٹ کی جاتی ہے۔ لیکن کورونا کے معاملے میں پہلے دن سے ہی خوف کی ایک ایسی فضا قائم کی گئی کہ ہر کوئی فوراً PCRٹسٹ کروانے بھاگا جس کی کٹ kitخاصی مہنگی تھی۔ دنیا کی سات ارب کی آبادی میں سے اس پی سی آر ٹسٹ کے مطابق 29کروڑ کو کورونا ہوا ہے اور 54لاکھ موت کی آغوش میں گئے ہیں جبکہ ٹیسٹ اور ویکسین سات ارب ستر کروڑ کی آبادی کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ہے نا یہ ایک منافع بخش کاروبار۔
کورونا سے پہلے دنیا بھر میں 4۔ 4ارب مسافر ہوائی جہازوں میں سفر کیا کرتے تھے۔ گزشتہ سال کورونا کی وجہ سے یہ تعداد گھٹ کر 2.2ارب رہ گئی ہے۔ اس پچاس فیصد کمی کے باوجود دنیا میں مریض صرف 29کروڑ ہیں لیکن PCRٹسٹ 2۔ 2ارب لوگوں نے کروایا ہے۔ بعض مسافروں نے نو بار بار کروایا کیونکہ، آنا جانا، پھر اگلا سفر وغیرہ۔ اسی طرح ویکسین جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مفروضہ پر قائم ہے کہ اس کی وجہ سے کورونا سے انسان بچ جاتا ہے۔ وہ ٹیسٹ جو سو فیصد درست نہیں اوروہ ویکسین جو سو فیصد محفوظ نہیں کرتی اس کے کاروبار نے اس قدر وسعت اختیار کی ہے جسے صدیوں پہلے طاعون پھیلنے پر کفن بیچنے والوں کی چاندی ہوئی تھی۔