یہ بھی غرناطہ کی طرح یورپ کا ہی ایک شہر ہے، فرق صرف یہ ہے کہ یہاں پر آباد سارے کے سارے مسلمان غرناطہ کی طرح باہر سے نہیں آئے تھے، بلکہ نسلاً یورپی یعنی کاکیشائی ہیں۔ مسیحی یورپ کے قلب میں رہنے والے یہ لوگ ایک بڑے نسلی گروہ بوسنیکس (Bosniaks) سے تعلق رکھتے ہیں، جو بلقان کے خطے میں صدیوں سے آباد چلے آ رہے ہیں۔ یہاں اسلام چودھویں صدی عیسوی میں آیا۔
غرناطہ سے تو مسلمانوں کو بحفاظت نکل جانے کی مہلت دی گئی تھی اور جو وہاں سے نہ جا سکے اور باقی رہ گئے، انہیں زبردستی عیسائی بنا لیا گیا۔ لیکن یہاں جدید مہذب دُنیا کے "مہذب یورپ" میں مسلمانوں کی سب سے بڑی نسل کشی ہوئی۔ غرناطہ یا بغداد کی نسل کشیاں تو فاتحین کے ہاتھوں ہوئی تھیں، لیکن یہاں تو صدیوں سے ساتھ رہنے والے عیسائی پڑوسیوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا، بچوں کو دیواروں سے پٹخا اور عورتوں کی اجتماعی آبروریزی کی۔
غرناطہ اور بغداد کے قصے تو اب تاریخ کی کتابوں میں دفن ہیں، لیکن بوسنیا کا قتل عام، اس وقت دُنیا بھر میں موجود پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دفاتر میں زندہ ہے۔ وہ نسل بھی زندہ ہے جنہوں نے یہ خون آشام مناظر میڈیا کے ذریعے دیکھے تھے اور ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے سامنے یہ ہولناک نسل کشی برپا کی گئی۔ اس نسل کشی کی سب سے بڑی واردات آج سے ستائیس سال قبل بوسنیا کے شہر "سربینسکا" میں ہوئی۔
یہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نئے جمہوری مشرقی یورپ کا آغاز تھا۔ قدیم یوگوسلاویہ جو سوویت کیمپ کا ایک ملک تھا، اس کے ایک حصے بوسنیا ہرزیگوینا نے اپریل 1992ء میں آزادی کا اعلان کیا، تو فوراً بعد یوگوسلاویہ کی عیسائی سرب فوج نے ان کا قتل عام شروع کر دیا اور صرف تین سالوں میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان شہید کر دیئے گئے۔ قتل عام کے دوران، اقوام متحدہ نے اپنی امن فوجیں وہاں تعینات کیں تاکہ قتل عام کو روکا جا سکے۔
سربینسکا کے شہر پر گیارہ جولائی 1995ء کو سرب افواج نے قبضہ کر لیا۔ جو مسلمان شہری جان بچا کر بھاگ سکتے تھے وہ بسوں میں روانہ ہوئے اور جو بچ گئے تھے وہ اقوام متحدہ کی امن فوج کے ہیڈ کوارٹر کے ایک بڑے سے شیڈ میں جا کر پناہ گزین ہو گئے۔ اقوام متحدہ کی یہ امن فوج ہالینڈ کے دستوں پر مشتمل تھی۔ شہر سے جو لوگ بسوں میں بیٹھ کر بھاگ رہے تھے، سرب فوجیوں نے اُن میں سے مردوں اور بچوں کو اُتار کر قطار میں کھڑا کر کے گولیاں ماریں اور پھر ان کی لاشیں بلڈوزر کے ساتھ دھکیل کر اجتماعی قبروں میں دفن کر دی گئیں۔ عورتوں کو بسوں سے اُتارا گیا اور سڑک پر ان کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔
اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں جو مسلمان پناہ لئے ہوئے تھے، جیسے ہی سرب فوجی وہاں پہنچے، تو ہالینڈ کے فوجیوں نے بغیر کسی مزاحمت کے ان تمام مسلمانوں کو فوجیوں کے حوالے کر دیا۔ سرب فوجیوں نے ان میں سے شیرخوار بچوں سے لے کر معذور بوڑھوں تک تقریباً آٹھ ہزار مردوں کو خواتین سے علیحدہ کیا اور ان کی نظروں کے سامنے انہیں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان غمزدہ خواتین کو ایک ریوڑ کی طرح ساتھ لے جایا گیا اور ان کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔
آج پچیس سال کے بعد ایک بار پھر بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ پہلے بھی یہ تماشہ عالمی طاقتوں نے خاموشی سے دیکھا تھا اور اب بھی شاید ایسا ہی ہو۔ مسلمانوں کے اس قتل عام سے جب مغربی طاقتیں سیر ہو چکیں تو 14 دسمبر 1995ء امریکی ایئر فورس بیس "ڈے ٹن" (Dayton) میں ایک معاہدہ ہوا اور بوسنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک "بوسنیک کوریٹ فیڈریشن" (Bosnic Coroate Fedration) اور دوسری "بوسنین سرب ریپبلک" (Bosnian Serb Republic)۔
یہ معاہدہ طاقت کے زور پر اس لئے کروایا گیا تھا، کیونکہ بوسنیا کے مسلمانوں کی یہ جدوجہدِ آزادی عالمی سطح پر ایک پُرزور جہاد میں تبدیل ہو گئی تھی اور خطرہ تھا کہ یورپ میں یہ لہر نہ چل نکلے۔ نو جنوری 2022ء کو چھبیس سال بعد بوسنین سرب ریپبلک کے دارالحکومت "بنجالوکا" میں جب 1992ء میں یوگوسلاویہ سے علیحدگی کی تیسویں برسی پر پریڈ ہوئی تو اس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ملوراڈ ڈوڈک (Milorad Dodik) نے کہا کہ ہم اس سرب پولیس کو دوبارہ سے سرب فوج میں تبدیل کر دیں گے تاکہ ہم مسلمانوں سے ان کا علاقہ چھین سکیں اور سرب اقتدار قائم کر سکیں۔
پورے سربیا میں ایسے تمام لوگ جنہوں نے نوے کی دہائی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا، انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور دیواروں پر ان کی بڑی بڑی تصاویر بنائی جا رہی ہیں۔ سرب جرنیل راتکو ملادِق (Ratko Mladic) جسے عالمی عدالتِ انصاف نے عمر قید کی سزا سنا رکھی ہے، اس کی تصویریں چوکوں اور چوراہوں میں نظر آتی ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف تعصب اور ان کی نسل کشی کی یہ لہر صرف سربیا تک محدود نہیں ہے بلکہ ہنگری کا وزیر اعظم وکٹر اوربن (Viktor Orban) اس نفرت کو پھیلانے میں سربین صدر ڈوڈک کا شریک ہے۔
دونوں کے عیسائی یورپی نسل پرستی کے نظریات بالکل ویسے ہی ہیں جیسے بھارت میں "راشٹریہ سیوک سنگھ" کے ہیں کہ خطے کو مسلمانوں سے پاک کیا جائے۔ اوربن ان یورپی رہنمائوں میں سے ہے جس نے غیر لبرل "illiberal" طرزِ حکومت کا نظریہ پیش کیا اور وہ اس وقت یورپ کی تمام متعصب، قوم پرست اور بنیاد پرست قوتوں کا ہیرو بن چکا ہے۔ اس نے اس نعرے کے ساتھ عیسائی جمہوریت پسندی "Christian Democracy" کا تصور بھی دیا ہے جو تمام یورپی یونین میں اب عام ہو رہا ہے۔
یہ شخص 1998ء سے وزیر اعظم چلا آ رہا ہے۔ 2015ء کے الیکشنوں میں جب مسلمانوں کی یورپ کی جانب نقل مکانی یورپ میں ایک مسئلہ کے طور پر اُبھری تھی، تو اس نے ہنگری کی مستقل شہریت صرف اور صرف ایسی عیسائی آبادی کیلئے کھولی جو دوسرے ملکوں سے نقل مکانی کر کے وہاں آئیں۔ اس وقت یورپ کے تمام ممالک میں پچاس سے زیادہ مسلمان دُشمن "Anti Muslim" سیاسی پارٹیاں کام کر رہی ہیں جو ناروے سے لے کر سپین تک ہر ملک میں موجود ہیں۔ ان میں ہر ایک پارٹی یورپ سے مسلمانوں کو نکالنے اور یورپ کی سرزمین کو پاک کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔
حیرت کی بات ہے اس معاملے میں قوم پرست، سیکولر، لبرل اور عیسائی شدت پسند سب اکٹھے ہیں۔ یوکرین کا محاذ گرم ہو چکا ہے اور دُنیا کے دفاعی مبصرین ایک بڑی جنگ کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ بھارت میں بھی مسلمانوں کی نسل کشی کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ اس آخری بڑی جنگ کے دو ہی محاذ ہیں جن کی خبرحضورﷺ نے دی۔ ایک مسلمانوں اور ہند کے درمیان لڑائی اور دوسرا روم (یورپ) اور مسلمانوں کے درمیان جنگ۔
لیکن اپنے اپنے مسلمان ملکوں کو چھوڑ کر یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے بارے میں سرکارِ دوعالم ﷺ نے عبرتناک انجام کی خبر دی ہے۔ ایک طویل حدیث میں آپ نے فرمایا۔"رومی اپنے شہروں میں باقی ماندہ عربوں پر حملہ کریں گے، انہیں قتل کر دیں گے، یہاں تک کہ روم کی زمین میں نہ کوئی عربی مرد، نہ کوئی عربی عورت اور نہ کوئی عربی بچہ باقی رہے گا۔ سب قتل کر دیئے جائیں گے" (کتاب الفتن نعیم بن حماد)۔ اور نسل کشی کیا ہوتی ہے۔