پاکستان کے آٹھ لاکھ اکیاسی ہزار نو سو تیرہ مربع کلو میٹر رقبے میں سے چند کنال کا رقبہ ایسا ہے جس کے دروازے پر "بینک دولت پاکستان" کے الفاظ جلی حروف میں لکھے ہوئے ہیں، اس کے گورنر کو لگانے کا اختیار بھی حکومتِ پاکستان کے پاس ہے، یہ بینک جس سرمائے کا نگران ہے وہ بائیس کروڑ پاکستانی عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے، لیکن اس بینک کے گورنر سے لے کر چپڑاسی تک، اس کے افعال و اعمال پر اور اس کی حکمتِ عملی پر اب اس ملک کے کسی بھی صاحبِ اختیار کا "اختیار" باقی نہیں رہا۔
بینک دولت پاکستان کے ایکٹ مجریہ 1956ء کے سیکشن 468 کی شق 31، ذیلی شق 4 میں ترمیم کے بعد صرف سٹیٹ بینک ہی نہیں بلکہ اس کے زیرِ نگرانی چلنے والے تمام بینک اب کسی حکومتی ادارے یا نیم خودمختار ادارے کو کسی قسم کی درخواست دے سکیں گے اور نہ ہی کوئی ہدایات وصول کریں گے۔ معیشت دانوں نے یہ تصور عام کیا ہے کہ دُنیا کے ہر ملک کی معیشت کیلئے اشد ضروری ہے کہ اس کا سٹیٹ بینک یا مرکزی بینک مکمل خود مختار ہو، لیکن خودمختاری کا یہ تصور صرف اور صرف کتابوں کی حد تک محدود ہے۔
دُنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں ان کے سنٹرل بینک ان گذشتہ دو سالوں میں حکومتوں کے ایک ماتحت اور غلام ادارے کی طرح چلائے جا رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے ممالک بھی کبھی کرونا کی بدترین صورتحال میں اپنے شہریوں کو امدادی پیکج دے پاتے۔ تمام بڑے ممالک کے مرکزی بینکوں نے افراطِ زر سے بے نیاز ہو کر نوٹ چھاپے اور اپنی حکومتوں کی مدد کی۔
آج اگر پاکستان بھی کسی ایسی ہنگامی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے تو نئے قانون کے تحت بینک دولت پاکستان قانونی طور پر صاف انکار کر سکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے ایک ایسے کتابی اصول پر عمل کیا ہے جس پر عمل کرنا خود اس کے بنانے والے اور اس کا پرچار کرنے والے ممالک نے بھی چھوڑ دیا ہے، کیونکہ انہیں کرونا کے دوران یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ جس جعلی کاغذی کرنسی کے مالیاتی نظام کا انہوں نے پچھتر سال پہلے آغاز کیا تھا اس کا مقصد تو صرف دُنیا کے ممالک کو کنٹرول کرنا تھا۔ لیکن جیسے ہی یہ تمام ممالک اللہ کی جانب سے نازل کردہ آفت کا شکار ہوئے تو سب اُصول دھرے کے دھرے رہ گئے۔ لیکن بھلا ہو پاکستانی "جمہوری جہلا" کا کہ انہوں نے اس وقت اس سٹیٹ بینک کو آزادی دی جب دُنیا اس تصور سے کنارہ کش ہو رہی تھی۔
یہ آزادی و خود مختاری کا بل، آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 2 (الف) سے متصادم ہے، جس کے تحت قراردادِ مقاصد آئین کا حصہ ہے، جس کے تحت اس کائنات کا بلا شرکتِ غیر حاکمِ مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ ہے اور اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے مطابق ایک مقدس امانت ہے، جسے ریاست، جمہور کے منتخب نمائندہ کے ذریعے استعمال کرے گی۔ اس بنیادی آئینی تصور کے مطابق سٹیٹ بینک کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ماتحت اور تابع فرمان ہو کر چلنا چاہئے۔
قائد اعظمؒ نے بھی یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بینک افتتاح کے وقت تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ "یہ بینک پاکستان کی آزادی و خودمختاری کی علامت ہو گا"۔ یار لوگوں نے اس میں سے "پاکستان" حذف کر کے "بینک" کی آزادی و خودمختاری پر قانون بنا ڈالا۔ اس خودمختاری کے بعد سب سے پہلا ہتھوڑا جو برسا وہ پاکستان کی ریاست کی بالادستی اور اس اختیار پر برسا جس کے تحت آزاد اور خودمختار حکومتیں اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے یا قرض دینے والوں کو گارنٹی دیا کرتی تھیں۔
اس گارنٹی کو عالمی زبان میں خود مختار گارنٹی (Sovereign Guarantee) کہتے ہیں۔ یہ صرف بیرون ملک قرضوں اور سکیموں کیلئے نہیں بلکہ اندرونِ ملک سرمایہ کاری کیلئے بھی ضروری ہوتی ہے۔ آج اگر حکومت کسی بڑے عوامی پراجیکٹ کیلئے کوئی فنڈ قائم کرنا چاہے گی، تو سٹیٹ بینک اس کیلئے سرمائے کی ضمانت دینے سے انکار کر سکتا ہے۔ جیسے زمینداروں کی مدد کیلئے رورل کریڈٹ فنڈ، صنعت کاروں کی مدد کیلئے انڈسٹریل کریڈٹ فنڈ، برآمد کنندگان کیلئے ایکسپورٹ کریڈٹ فنڈ یا پھر آسان قرضوں کیلئے قائم کیا جانے والا کوئی بھی فنڈ۔
اس اختیار کے بعد سٹیٹ بینک پاکستان میں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری میں جب چاہے رکاوٹ ڈال سکتا ہے، کسی ضروری برآمد مثلاً دوائی وغیرہ منگوانے کیلئے بھی زرِ مبادلہ دینے سے انکار کر سکتا ہے، یا پھر عام آدمی کی فلاح و بہبود کیلئے سستے قرضوں کی فراہمی کیلئے کریڈٹ فراہم کرنے سے صاف انکار کر سکتا ہے۔ یہ ایک ایسے سٹیٹ بینک کو اختیار دیئے جا رہے ہیں جس کے موجودہ گورنر نے عین کرونا کے دوران زیادہ شرح سُود مقرر کر کے پاکستان کی معیشت کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا۔
اس پاس شدہ ترمیمی بل سے پہلے بینک کو ہدایات دینے اور پالیسی گائیڈ لائن دینے کیلئے ایک بورڈ ہوا کرتا تھا، جس کا نام تھا "Monetary and Fiscal Policy Co-ordination Board" جس کے تحت بینک کو پالیسی گائیڈ لائن دی جاتی تھی کہ ملک کی معیشت کو کن راہوں پر ڈالنا ہے۔ اب بورڈ ختم کر کے یہ سارے کا سارا اختیار گورنر سٹیٹ بینک اور اس کے ماتحت عملے کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔
دُنیا بھر میں کسی بھی ملک میں مالیاتی اور معاشی پالیسی کو سٹیٹ بینک پر نہیں چھوڑا جاتا۔ مگر بل کے تحت یہ اختیار اس گورنر کو دیا جا رہا ہے جس نے گذشتہ تین سالوں میں زیادہ شرح سُود کے ذریعے افراطِ زر اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی جو پالیسی اپنائی تھی اس نے اس ملک کو مہنگائی کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے جس سے نکلنا مشکل ہے۔ کاش کوئی برازیل، روس، جارجیا، پولینڈ اور چلّی کی معیشتوں کا مطالعہ ہی کر لیتا۔
اس سے متعلق اور اہم نکتہ افراطِ زر کے ہدف (Inflation Targeting)کا تعین کرتا ہے۔ یعنی ایک خاص سطح سے زیادہ افراطِ زر نہیں بڑھنے دی جائے گی۔ یہ تصور 1990ء میں نیوزی لینڈ نے اپنایا اور پھر لاتعداد ملکوں نے اس کی پیروی کی اور اپنے بینکوں کو افراطِ زر کا ہدف مقرر کر کے معیشت بہتر بنانے کا اختیار دیا گیا۔ لیکن انہوں نے ساتھ ہی کسی بھی قسم کی ناکامی کی صورت میں اپنے سٹیٹ بینکوں کو جواب دہ بھی قرار دیا۔
مگر جیسے ہی کرونا کی آفت ٹوٹی تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ تمام ملک بھی ہمارے گورنر رضا باقر کی طرح شرح سُود بڑھا کر افراطِ زر کنٹرول کرتے، مگر جب ان حکومتوں نے دیکھا کہ ایسا کرنے سے مہنگائی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو رہا ہے تو انہوں نے سٹیٹ بینک کی آزادی اپنے ہاتھ میں لے کر تاریخ کا سب سے کم شرح سُود دیا جس نے ان ممالک میں روزگار میں بھی اضافہ کیا اور معاشی ترقی کا پہیہ بھی چلتا رہا۔
یہ اقدام سب سے پہلے نیوزی لینڈ نے ہی کیا جس کو دیکھ کر امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین کے تمام ممالک، کینیڈا، آسٹریلیا سب نے اسی طریقے سے اس آفت کے دوران اپنی معیشتوں کو سنبھالا دیا۔ اگر ان کے سٹیٹ بینک ان کے زیرِاختیار نہ ہوتے تو وہ کبھی بھی ایسا نہ کر پاتے اور اسی طرح معاشی دلدل میں پھنستے، اور ویسی ہی مہنگائی اور بے روزگاری کی زد میں ہوتے جیسی آج پاکستان میں ہے۔ ان تمام ممالک کو بجٹ سے زیادہ رقم چاہئے تھی تاکہ افراطِ زر کا بوجھ تمام عوام اُٹھائیں مگر اس طرح غریب کو تھوڑا سکون ملتا رہے۔ اگر ان ملکوں کے بینک انکار کر دیتے تو امریکہ جس کا کل قرضہ 20 ہزار ارب ڈالر ہے، اسے عام آدمی کو کرونا الائونس دینے کیلئے بھی قرضہ لینا پڑتا اور یہی عالم دیگر ممالک کا بھی ہوتا۔
اس ترمیم میں موجود دیگر بے شمار خرابیوں کے علاوہ ایک اہم خرابی یہ بھی ہے کہ اب کوئی بھی حکومت آفت، مصیبت اور پریشانی میں بھی نہ صرف سٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے سکے گی بلکہ دیگر بینک بھی اسے صاف انکار کر سکیں گے۔ یعنی کوئی حکومت حالات کو بہتر بنانے کیلئے اس ملک کے عوام کی بچت بھی استعمال نہیں کر سکے گی۔ وجہ صرف اور صرف ایک ہے، کہ گورنر سٹیٹ بینک کی اب یہ ذمہ داری ہے کہ اس نے اس ملک کے عوام کا پیسہ ان خونخوار بھیڑیوں کو مستقل فراہم کرتے رہنا ہے، جو چاہتے ہیں کہ ہمارے قرضے کی قسط پہلے ادا کرو، چاہے بھوک سے مر جائو۔