انقلابات کی تاریخ کا اہم ترین سبق یہ ہے کہ جب لوگ خود اُٹھ کھڑے ہوں، تو قیادت ان کے اندر سے جنم لیتی ہے۔ دُنیا کا بڑے سے بڑا انقلابی رہنما بھی تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جاتا، اگر اسے کندھوں پر اُٹھانے، اس کی تقریریں سننے اور اس کی آواز پر لبیک کہنے کیلئے لوگ میسر نہ آتے۔ مشہور انگریزی محاورہ جو انہی انقلابات کی تاریخ رقم کرنے والے کسی گمنام مصنّف نے تحریر کیا تھا، اور اب زبان زدِعام بن چکا ہے، یوں ہے کہ "Leadership comes on the tides of the revolution"، قیادت انقلاب کی لہروں پر سوار ہو کر آتی ہے۔
ایرانی انقلاب ابھی کل کی بات ہے۔ دُنیا اس کے ایک ایک لمحے سے واقف ہے۔ اس انقلاب کا اہم درس یہ ہے کہ قوم پہلے ایک بپھرے ہوئے ہجوم کی طرح باہر نکلتی ہے اور پھر اپنے اندر چُھپی ہوئی قیادت کو سامنے لاتی ہے۔ چند سال اور ایرانی قوم شاہِ ایران کے مظالم پر خاموش رہتی تو دُنیا آج آیت اللہ خمینی کے نام سے بھی آشنا نہ ہوتی۔ عراق میں جہاں اور کئی سو آیت اللہ دفن ہیں، وہ بھی ایک قبر میں آسودۂ خاک ہوتے۔ جو قومیں اس بات کا انتظار کرتی رہتی ہیں کہ ایک دن کوئی لیڈر، مسیحا کی صورت آئے گا، انہیں اکٹھا کرے گا، ان میں تحریک پیدا کرے گا۔
وہ انقلاب تو دُور کی بات ہے کبھی تبدیلی کی بھی شکل نہیں دیکھتی۔ گوادر کے عوام نے ثابت کیا کہ وہ ایک ایسی جاندار قوم ہیں کہ جب وہ اُٹھ کھڑی ہو تو اس کے اندر چُھپی ہوئی قیادت، اس کی لہروں پر سوار ہو کر اس جوش و عزم سے آتی ہے کہ وہ عوام کے اس سیلاب میں گزشتہ ستر سال سے خود ساختہ رہنمائی کے منصب پر فائز بلوچ قوم پرست قیادت کو بھی بہا کر لے جاتی ہے۔
آج سے چالیس سال قبل اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے، "فنڈ برائے انسدادِ منشیات" کے ایک سروے کیلئے جب میں گوادر پہنچا تو اس دن وہاں صاف پانی کی فراہمی کیلئے ایک جلوس شہر کی سڑکوں پر گشت کر رہا تھا، جس میں صرف خواتین شریک تھیں۔ میرے ساتھ میرا جرمن ساتھی ہنس سپیل مین (Hans Spielman)، یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور کیمرے سے تصاویر بنانے لگا تو ہمارے ڈرائیور نے اسے منع کر دیا۔
یہ آج کے میڈیا کا زمانہ تھا اور نہ ہی ملک میں عورت مارچ جیسے فیشن زدہ خواتین کے جلوسوں جیسا کوئی تصور پایا جاتا تھا۔ سیاسی طور پر اسقدر جاندار اور باشعور خواتین اور وہ بھی پاکستان کے ایک ایسے علاقے میں جسے بلوچستان میں رہنے والوں کی اکثریت نے بھی کبھی نہیں دیکھا تھا، یقیناً میرے لئے بھی حیرت کا باعث تھا۔ چند ایک شکاری جو پسنی اور گوادر کے مٹی کے بلند و بالا پہاڑوں کی بھول بھلیوں میں ہرن وغیرہ کا شکار کرنے آتے وہ اس خوبصورت ساحل کی دلکشی کی داستانیں کوئٹہ اور کراچی کی محفلوں میں بیان کیا کرتے۔ کوئی اگر ذاتی گاڑی میں بھی کوئٹہ سے گوادر جانے کا قصد کرتا، تو اسے راستے میں ایک رات قیام کیلئے ینجگور یا تربت میں ٹھکانہ ڈھونڈنا پڑتا۔
دُنیا سے کٹے ہوئے ایسے شہر میں اپنے مسائل کیلئے صرف خواتین کا جلوس یقیناً حیرت کی بات تھی۔ لیکن گفتگو پر معلوم ہوا کہ یہاں کے مردوں کی اکثریت تو مہینوں کیلئے مچھلیاں پکڑنے کیلئے سمندر کے سفر پر رہتی ہے، اور پیچھے آٹا، دال، سبزی کا بھائو، بجلی اور پانی کے روزمرہ مسائل تو تن تنہا عورتوں کو ہی دیکھنا پڑتے ہیں۔ اسی لئے گوادر کی خواتین اپنے مسائل کے حل کیلئے خود میدان میں نکلتی تھیں۔ اس دُور دراز شہر کے جو جدید تہذیب سے کوسوں دُور تھا، اس کے مسائل کیا ہو سکتے تھے، دو مسائل اہم تھے، ایک صاف پانی اور دوسرا رات کو چند گھنٹے بجلی اور بس۔ ایک چھوٹا سا ڈیزل کا جنریٹر تھا، جو رات کو پانچ چھ گھنٹوں کیلئے بجلی فراہم کرتا۔
یہ اگر خراب ہو جاتا یا اس کا ڈیزل ختم ہو جاتا تو ایک دو دن صبر کے بعد خواتین سڑکوں پر نکل آتیں۔ صاف پانی کے فقط دو ذرائع تھے۔ بڑے پہاڑ کی ڈھلوان پر بنائے گئے تین بڑے بڑے کنویں تھے، جن میں بارش کا نمکین پانی پہاڑوں سے آ کر پہلے ایک کنویں میں آتا پھر اس کی ریتلی دیوار سے رِستا ہوا، دوسرے اور تیسرے میں پہنچتا تو اپنا نمک پیچھے چھوڑ آتا اور گوادر کے لوگوں کو میٹھا پانی مل جاتا۔ یہ نظام اس دَور سے چلا آ رہا تھا، جب گوادر، مسقط و عماّن کا حصہ تھا۔ بارش نہ ہوتی تو پانی کا یہ ذخیرہ خشک ہو جاتا۔ متبادل کے طور پر ساحلِ سمندر پر ایک وسیع علاقے میں سیمنٹ سے چھوٹے چھوٹے ڈبے بنائے گئے تھے، جن کو موٹے موٹے شیشوں سے ڈھانپا گیا تھا۔
سمندر کا پانی ان ڈبوں میں لایا جاتا، شیشوں پر دھوپ پڑتی تو پانی بھاپ بن کر اُڑتا اور پھر یہ ساری بھاپ ایک پائپ کے ذریعے ایک بہت بڑے سے ٹینک تک پہنچائی جاتی جہاں وہ ٹھنڈی ہو کر پانی بن جاتی، وہ بھی صاف اور میٹھا۔ ڈبوں کی تہہ میں نمک زیادہ جمع ہو جاتا اور انہیں صاف کرنے کیلئے کچھ دن یہ سلسلہ روکنا پڑتا۔ اگر اس کام میں زیادہ تاخیر ہوتی یا حکومت تساہل برتتی تو خواتین پھر مسائل کے حل کیلئے سڑکوں پر نکل آتیں۔ عورتوں کی یہی قیادت بلوچستان کے تقریباً تمام ساحلی شہروں پسنی، جیونی، اورماڑہ اور گوادر میں شروع دن سے متحرک تھی۔ مہینوں بعد جب مچھیروں کا جہاز ساحل پر لگتا تو وہاں ایک جشن کا سماں ہوتا۔
گیت، رقص اور سرمستی کی کیفیت میں یقیناً وہی شخص آ سکتا ہے جس نے مہینوں نیلے سمندر اور نیلے آسمان کو تکتے ہوئے گزارے ہوں۔ ساحل کے ساتھ ساتھ تندور لگے ہوتے، جن میں تازہ مچھلی بھون کر پکائی جاتی۔ ایسی لذیذ مچھلی میں نے زندگی میں کہیں اور نہیں کھائی۔ ایک چھوٹا سا بازار تھا جسے گرمی کی شدت سے بچنے کیلئے سرکنڈوں، پٹ سن کی بوریوں اور ترپالوں سے ڈھانپا گیا تھا اور اس کے بیچوں بیچ گوادر کے مشہور حلوے کی دکان تھی جہاں کئی رنگوں کا حلوہ ملتا تھا جو وہاں کی واحد سوغات تھی۔
یہ تھا چالیس سال پہلے کا مرکزی اور قدیمی گوادر جو اپنے اردگرد ہونے والی ترقی کے باوجود بالکل نہیں بدلا۔ ایسا کیوں ہے۔ یہ سوال تھا جو اس دھرنے میں مجسم ہو کر سامنے آیا۔ امریکہ کے شہر ہوائی کے ساحلوں سے لے کر آسٹریلیا کے شہر سڈنی تک دُنیا بھر کی نظروں میں یہی ایک ہی شہر اس وقت سمایا ہوا ہے۔ آدھی دُنیا یعنی امریکہ اور یورپ اس کی ترقی کو اپنے معاشی زوال سے تعبیر کرتی ہے، جبکہ روس، چین اور پاکستان اس سے اپنا مستقبل وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ اس شہر تک پہنچنے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کر کے موٹرویز کا جال بچھایا جا رہا ہے۔
اس بندرگاہ کے راستے، اربوں ڈالر کا تیل چین تک پہنچانے کیلئے معاہدے ہو چکے ہیں۔ روس نے اپنی تجارت کا رخ ان گرم پانیوں کی طرف موڑ دیا ہے جہاں کبھی پہنچنے کیلئے اس نے افغانستان میں اپنی فوجیں اُتاریں اور ذلّت آمیز شکست کھائی تھی۔ امریکی پینٹا گون نے آسٹریلیا، بھارت اور جاپان سے ملکر ایک چار رکنی اتحاد بنایا ہے تاکہ گوادر کی بندرگاہ سے چین اور روس فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔ یہی گوادر جو عالمی سطح پر اس قدر مرکزِ نگاہ بن چکا ہے۔ اسی شہر کی قدیم آبادی اس قدر مظلوم ہے۔
یہ مظلومیت کا احساس ہی تھا کہ اس شہر کی آبادی ایک دن تنگ آ کر سڑکوں پر آ نکلی۔ لیکن سڑکوں پر آنے سے پہلے انہوں نے اس بلوچ قوم پرست قیادت کا پرچم بھی اُتار پھینکا جو گزشتہ پچاس سال سے گوادر کے حقوق کی پرچم بردار تو بنی ہوئی تھی مگر صرف نعرہ بازی کی حد تک۔ گوادر کے شہریوں کے مطابق ان کے حقوق پر سب سے پہلا ڈاکہ اس قیادت نے ڈالا جو ان کے نام پر بار بار کوئٹہ میں برسر اقتدار آئی۔ (جاری ہے)