آج سے چالیس سال قبل جب اس ملک کو قرضوں کی دلدل میں ایک خاص ایجنڈے کے تحت دھکیلا جا رہا تھا، تو اس وقت ہمارے ملک کے معیشت دان، تجزیہ نگار اور سیاست دان، انگریزی کا ایک فقرہ بولا کرتے تھے "Beggars are not Chooser" "بھیک مانگنے والوں کو انتخاب کا کوئی حق نہیں "۔ دُنیا بھر سے قرضہ مانگا جا رہا تھا اور عوام کو یہ بتایا جا رہا تھا، جیسے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، پیرس کلب اور دیگر مالیاتی ادارے ہمیں بھیک دے رہے ہوں۔ یعنی قرض صورت جیسی، جس طرح کی بھیک ملے لے لو۔
اسی دَور میں جب قرضہ لے کر عیاشیاں کرنے کا رجحان ترقی پا رہا تھا، تو 1990ء میں پاکستان کے معاشی پنڈتوں پر ایک طنزیہ مضمون امریکہ کے کسی معاصر اخبار (نام یاد نہیں) میں چھپا جس کا عنوان تھا "Beggars are the Choosers" یعنی "بھیک مانگنے والے کو بھی انتخاب کا حق رکھتے ہیں "۔ اس مضمون میں مضمون نگار نے اسلام آباد میں ہونے والی سرکاری تعمیرات کے ریٹ دیئے گئے تھے۔
یہ ریٹ ملک بھر میں تعمیر ہونے والے شاندار گھروں اور عمارات سے دس گنا زیادہ تھے۔ ان میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ، وزراء کے گھر، سیکرٹریٹ کی عمارتیں اور ریسٹ ہائوسز شامل کئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مضمون نگار نے اس بے سروسامان قوم کے لیڈروں کے ملک بھر میں جگہ جگہ پھیلے ذاتی تعیش کدوں کا بھی نقشہ کھینچا تھا۔
پاکستان کی تاریخ کے مطالعہ سے لگتا ہے کہ جس طرح اس ملک کو جمہوریت نے بددیانت اور نااہل قیادت تحفے میں بخشی ہے اسی طرح قرض کا بیشتر حصہ بھی اسی جمہوری قیادت کا تحفہ ہے۔ ضیاء الحق کی موت کے بعد پاکستانی سیاست کو دو "نابغے" (Genius) میسر آئے، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف۔ ان دونوں نے "قرض کی مئے" پینے اور اسے بے سروپا مقاصد پر خرچ کرنے کا ایسا رواج ڈالا کہ ایک نے دوسرے سے بڑھ کر قرض لیا اور اسے ایسے پراجیکٹس پر خرچ کیا جس کی عام عوام کو کسی قسم کی ضرورت نہ تھی۔ البتہ ایسے منصوبے ان کے اپنے طبقے کے لوگوں کو بہت لبھاتے تھے، جیسے شاندار ایئر پورٹ اور خوبصورت موٹرویز وغیرہ۔ زوال کے اعتبار سے پاکستان کی پوری تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلے چالیس اور بعد کے 35 سال۔ پہلے چالیس سال معاشی ترقی، خوشحالی اور عروج کے سال ہیں اور بعد کے 35 سال بدترین زوال کے سال ہیں۔ پہلے چالیس سالوں میں تین دفعہ آمریت رہی جس کا کل دورانیہ چوبیس سال بنتا ہے، جبکہ بعد کے پینتیس سالوں میں صرف پرویز مشرف کے آٹھ سال آمریت کے ہیں۔ اگر برسرِاقتدار "آمروں " اور "جمہوریوں " کا ہی آپس میں موازنہ کیا جائے اور صرف، آئی ایم ایف کے "درِ دولت" سے ہی "بھیک" کا حساب کیا جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی نے 47 فیصد، پاکستان مسلم لیگ نواز نے 35 فیصد اور تمام ڈکٹیٹروں، آمروں اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹروں نے مل کر صرف 18 فیصد "بھیک" آئی ایم ایف سے وصول کی۔
یہ بات درست ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کا راستہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے 8 دسمبر 1958ء کو دکھایا۔ لیکن جس قدر رقم حاصل کی گئی اسے سن کر شاید آپ کی ہنسی نکل جائے۔ پاکستان نے 1958ء میں آئی ایم ایف سے صرف 25,000 ڈالر قرضہ لیا۔ اس وقت ڈالر 4.76 پاکستانی روپے کا تھا، یعنی ایک ایسی مملکت جس میں موجودہ بنگلہ دیش بھی شامل تھا، اس نے آئی ایم ایف سے صرف ایک لاکھ انیس ہزار روپے کا قرض لیا۔ اس کے بعد ایوب خان اور یحییٰ خان کا تیرہ سالہ "آمرانہ" دَور شروع ہوتا ہے۔ اس دَور میں پاکستان صرف تین دفعہ آئی ایم ایف کے پاس گیا۔
دوسری دفعہ 16 مارچ 1965ء کو 37,500 ڈالر قرض لے کر آیا، اس وقت بھی ایک ڈالر میں 4. 76 پاکستانی روپے آتے تھے، یعنی قرضے کی کل رقم ایک لاکھ اٹھہتر ہزار روپے بنی۔ تیسری دفعہ پاکستان 1968ء میں آئی ایم ایف سے پچھہتر ہزار روپے لے کر آیا۔ حیرت کی بات ہے کہ دس سال بعد بھی ایک ڈالر کی قیمت پاکستانی روپے میں وہی 4. 76 روپے ہی تھی، یوں تیسری دفعہ ہم نے آئی ایم ایف سے صرف تین لاکھ پچھہتر ہزار پاکستانی روپے قرض لئے۔
دسمبر 1971ء میں یحییٰ خان کے اقتدار سے الگ ہونے اور امریکہ سے واپس آنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنانے تک پاکستان پر کل بیرونی قرضہ تین ارب، اُناسی کروڑ، اٹھاون لاکھ، چوالیس ہزار سات سو بائیس ڈالر (3,795,844,722) تھا۔ لیکن اس تیرہ سالہ آمرانہ دَور میں قرضوں کی یہ رقم تعیش پسندی والے موٹرویز اور دلآویز دفاتر پر خرچ نہیں کی گئی تھی بلکہ اس دَور میں یہ قرض ایسے منصوبوں پر خرچ ہوا، جو آج بھی موجودہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔
ان تقریباً چار ارب ڈالروں سے 1960ء میں وارسک ڈیم بنا جو 243 میگا واٹ بجلی دیتا ہے، 1967ء میں منگلا ڈیم بنا جو 1,150 میگا واٹ بجلی دیتا ہے اور آخری بڑا ڈیم تربیلا بھی اسی دَور کا تحفہ ہے جو 4,888 میگا واٹ بجلی دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے ڈیموں میں رسول بیراج، درگئی ہائیڈرو پلانٹ، نندی پور، چیچونکی شیخوپورہ پلانٹ، اور کرم گڑھی ہائیڈرو پلانٹ جیسے لاتعداد منصوبے بنائے گئے۔ اس کے علاوہ سندھ طاس معاہدے کے بعد پورے ملک میں نہری نظام کا جال بھی اسی دَور میں بچھا۔
دریائے سندھ سے جہلم، جہلم سے چناب، چناب سے ستلج اور پھر پنجند اور اس کے بعد سندھ کے علاقوں میں غلام محمد بیراج، گدو بیراج اور کوٹری بیراج کی نہریں اور آبپاشی کا نظام بھی انہیں صرف چار ارب ڈالر کے قرضے سے مکمل ہوا۔ آمرانہ دَور کے ان منصوبوں کی بدولت آج پاکستان میں کروڑوں گھروں میں بجلی کے قمقمے روشن ہوتے ہیں اور کروڑوں کسان اپنی فصلوں کو پانی دیتے ہیں۔ ترقیاتی ترجیحات کا یہ سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے پانچ سالہ دَور تک بھی اسی طرح جاری رہا۔
یہ الگ بات ہے کہ بھٹو کے کیمونزم زدہ مشیروں اور خود بھٹو کے جاگیردارانہ مزاج نے پاکستان کی صنعتوں کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اس کی تلافی آج تک ممکن نہ ہو سکی۔ بھٹو تین دفعہ آئی ایم ایف کے پاس گیا اور چھ جولائی 1977ء کو اس ملک پر سات ارب چھپن کروڑ اکتالیس لاکھ، چوبیس ہزار تین سو سات ڈالر (7,564,124,307) قرضہ چھوڑ کر گیا۔ پاکستان نے جتنا قرض گزشتہ پچیس سالوں میں لیا تھا، بھٹو نے تقریباً اتنا ہی قرض صرف پانچ سالوں میں لے لیا۔
بھٹو نے پاکستان کو ایک اور طرح کے قرضے کی لَت ڈالی اور وہ تھا اندرونی قرضہ۔ اس کے دَور سے پہلے ایسے قرض کا تصور نہیں ہوتا تھا۔ بھٹو نے برسرِاقتدار آتے ہی تمام بینک قومیا لئے تھے اور اس ملک کے عوام کی جو بھی جمع پونجی ان بینکوں میں پڑی تھی وہ حکومتوں کے اللّوں تللّوں اور عیاشیوں کے کام آنے لگی۔ بھٹو کے بعد بینک کو قومی اثاثہ سمجھ کر بیچ کر حکومتوں نے پیسے تو کھرے کر لئے، مگر اندرونی قرضوں کی لّت ایسی پڑی کہ آج مقامی بینکوں سے ہمارے قرضے 204 ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔
جمہوری بھٹو کے بعد ضیاء الحق کی آمریت کے گیارہ سال ہیں۔ اس کی موت کے وقت پاکستان پر 17 ارب چھ کروڑ اکیاون لاکھ پینسٹھ ہزار تین سو باون ڈالر (17,065,165352) قرضہ تھا۔ اس دَور تک ابھی، تعیش پسندی ہمارے حکمرانوں میں داخل نہیں ہوئی تھی بلکہ اس دَور میں اس ملک کے ایک ایسے پروگرام کی تکمیل ہوئی جو آج پاکستان کے تحفظ کی ضمانت ہے، یعنی ایٹمی پروگرام۔ اتنے بڑے پروگرام کے باوجود بھی پاکستان پر گیارہ سالوں میں صرف نو ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
لیکن جیسے ہی پاکستان کے 35 سالہ جمہوری دَور کا آغاز ہوا، تو نئے جمہوری دَور کا فیتہ کاٹنے والی بے نظیر نے اپنے پہلے ڈیڑھ سالہ دَورِ اقتدار میں پاکستان کے قرض میں تین ارب، انسٹھ کروڑ، بیاسی لاکھ، دس ہزار، چار سو اسّی ڈالر (3,598,210,480) کا اضافہ کیا۔ یہ پہلا بڑا دھکا تھا جو اس قرض کی دلدل میں پاکستان کو دیا گیا اور ان پینتیس سالوں کے بعد ہم سوچ رہے ہیں کہ باہر کیسے نکلیں۔ (ختم شد)