پاکستان میں ایک طبقہ ایسا ہے جن کے دماغوں میں اسلام دُشمنی اور مسلمانوں سے نفرت کا کینسر اپنی جڑیں اس قدر مضبوط اور مستحکم کر چکا ہے کہ جیسے ہی اس طبقے کو پاکستان میں کبھی سکون و اطمینان اور مذہبی ہم آہنگی نظر آنے لگتی ہے یہ کوئی ایک "شوشہ" ایسا ضرور چھوڑتے ہیں، جس سے فساد کی آگ بھڑک اُٹھے اور مسلمانوں کو اپنے دین کی اساس ڈوبتی ہوئی محسوس ہونے لگے۔ یہ طبقہ ہر شعبۂ زندگی میں موجود ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کے اہم مشاورتی گروپوں میں ان کی نمائندگی ہے، یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کے ادوار میں یہ طبقہ وزارتوں میں بھی نظر آتا ہے، خاص طور پر انسانی حقوق یا بہبودِ نسواں جیسی وزارتیں ان کے ٹھکانے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ وزارتِ اطلاعات اور تعلیم پر بھی براجمان ہوتے ہیں تاکہ جس نفرت کا تیر انسانی حقوق کے نام پر چھوڑا گیا ہے اسے مزید زہر میں ڈبو کر لوگوں کو مشتعل کیا جائے۔ یوں تو یہ طبقہ خود کو سیکولر یا لبرل کہتا ہے یعنی جن کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو۔ لیکن اسلام کے علاوہ پاکستانی سیکولر اور لبرل طبقے کی ہر مذہب سے محبت واضح نظر آتی ہے۔ انہیں ہندوئوں کی ہولی اور دیوالی اچھی لگتی ہے اور یہ عیسائیوں کا کرسمس اور ویلنٹائن ڈے دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے رمضان کی آمد سے پہلے ان کے چہرے اُتر جاتے ہیں۔
عیدالضحیٰ کی آمد پر یہ لوگ بکروں کی تصویریں لگا کر ان کے ذبح کرنے کو ظلم بتاتے ہیں، حالانکہ مسلمان جو دُنیا کا 24 فیصد ہیں، وہ 365 دنوں میں صرف ایک دن قربانی کرتے ہیں، جبکہ باقی دُنیا کی 75 فیصد آبادی کا عالم یہ ہے کہ وہ 1960ء میں ستر ملین ٹن گوشت کھاتی تھی اور اب تین سو ملین ٹن گوشت کھاتی ہے۔ یہ سیکولر، لبرل، پوپ کی ویٹکن سٹی میں "خصوصی زیارت"، ہندوئوں کے کنبھ میلے، مہا شوراتری اور امرناتھ یاترا پر کروڑوں لوگوں کے جانے کو بُرا نہیں سمجھتے، لیکن مسلمانوں کے حج اور عمرے پر ان کی گز بھر لمبی زبانیں کھل جاتی ہیں۔ یہ حج اور عمرے کو پیسے کا ضیاع کہتے ہیں اور دُنیا بھر کی ٹور ازم انڈسٹری، جس میں شراب و شباب مرکزی نکتہ ہے، اسے معاشی ترقی کا زینہ قرار دیتے ہیں۔ اس لئے انہیں سیکولر، لبرل کہنا، سیکولر ازم اور لبرل ازم کی توہین ہے۔ دراصل یہ منافق اور پرلے درجے کے متعصب ہیں۔ یہ صرف اور صرف اسلام دُشمن ہیں اور ان کی خصوصی پہچان پاکستان کے قیام اور اس کے نظریے سے بُغض و نفرت ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 3، 323 کلو میٹر بارڈر کو مٹا کر بھاگتے ہوئے "ہندوتوا" کا "گیروی" پرچم اُٹھا لیں۔ انہوں نے پاکستان کے پہلے پچیس سالوں میں مشرقی پاکستان میں اپنی دانست میں بھارتی فوج کی مدد سے ایک کامیاب کوشش کی تھی۔ لیکن اس وقت ان کی ناکامی کی انتہا نہ رہی جب بنگالی مسلمانوں کو "ملیچھ" (غلیظ، ناپاک) قرار دے کر علیحدہ کیا گیا، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان 4، 096 کلو میٹر بارڈر پر باڑ لگا دی گئی۔
جس دن سے متعصب راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشو اہندو پریشد کی کوکھ سے جنم لینے والی سیاسی پارٹی بی جے پی نے بھارت میں کامیابی حاصل کرنا شروع کی ہے اور وہاں بسنے والی اقلیتوں خصوصاً 23 کروڑ مسلمانوں کی زندگیاں اذیت بنناشروع ہوئی ہیں، پاکستان کے اس اسلام دُشمن سیکولر منافقین طبقے کی رات کی نیندیں اور دن کا چین تباہ ہو گیا ہے۔ وہ تو ساری زندگی مسلمانوں کو ظالم اور بے رحم بتاتے آئے تھے، یہ مظلوم کیسے دکھائی دینے لگے۔ انہوں نے پاکستان اور عالمی برادری میں اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے پاکستان میں موجود اقلیتوں کے بارے میں بے بنیاد افسانے گھڑنے شروع کئے۔ عالمی این جی اوز اور لوکل این جی اوز نے مل کر ایسی کہانیاں تخلیق کیں، ایسی رپورٹیں تیار کیں جس سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ پاکستان اقلیتوں کیلئے بھارت سے بھی زیادہ خطرناک ملک ہے۔ محمد بن قاسمؒ کے برِصغیر میں آنے سے لے کر آج تک لوگوں کے مسلمان ہونے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ متعصب ترین ہندو مؤرخ اور بدترین مغربی مصنف نے بھی کبھی ہندوستان کے مسلمانوں پر یہ الزام نہیں لگایا کہ قطب الدین ایبک سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کبھی کسی مسلمان بادشاہ نے ہندوئوں کو زبردستی مسلمان کیا ہو۔ ہندو اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے، مسلمان بادشاہوں کے دربار میں وزیر اور سپہ سالار تک رہے ہیں۔
25 جون 2016ء کو تختِ دہلی پر قطب الدین ایبک کی سرفرازی سے لے کر 26 مئی 2014ء کو نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے تک آٹھ سو سالوں میں کسی نے ہندوئوں کو زبردستی مسلمان بنانے کا غلیظ پروپیگنڈہ نہیں کیا۔ لیکن جیسے ہی دُنیا کے سامنے بھارت اور ہندوئوں کا وہ متعصب اور خوفناک چہرہ سامنے آیا، جس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو زبردستی ہندو بنایا جا رہا تھا، تو فوراً پاکستان میں موجود یہ اسلام دُشمن سیکولر منافقین ایک دَم اپنے کام میں لگ گئے۔ این جی اوز، سول سوسائٹی اور مغربی سفارت خانوں کے پیسوں پر پلنے والے "تھنک ٹینکوں " نے ایک مہم شروع کر دی کہ پاکستان میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کیا جا رہا ہے۔ انگریزی اخبارات و رسائل میں موجود اس طبقے نے ان رپورٹوں کو مغرب تک پہنچایااور پاکستانی سیاسی پارٹیوں میں گُھسے ہوئے اسلام دُشمن سیکولر سیاست دانوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور یوں 24 نومبر 2016ء کو وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی سربراہی میں سندھ اسمبلی نے ایک قانون پاس کیا جس کا نام تھا "Criminal Law (Protection of Minorities) Act"۔
اس قانون کے تحت کوئی شخص 18 سال کی عمر سے پہلے اسلام قبول نہیں کر سکتا تھا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو اس کے مسلمان ہونے کو کسی بھی قسم کی قانونی حیثیت نہ ہوتی۔ اٹھارہ سال کی عمر کے بعد اگر کوئی شخص مسلمان ہونا چاہے تو وہ سیشن جج کو ایک درخواست دے گا جو سات دن کے اندر اُسے بلائے گا اور پھر اسے سمجھانے بجھانے کیلئے اس کے سابقہ مذہب کے ہندو پنڈتوں وغیرہ کو بلائے گا اور اگر یہ طریقہ کارگر ہو گیا تو اس کے مسلمان ہونے کو کسی تبلیغ یا معاشرتی دبائو جس میں اس کے والدین کا دبائو بھی شامل ہو سکتا ہے سمجھا جائے گا۔ یعنی اگر والدین مسلمان ہو جائیں اور وہ اپنے بچوں کو بھی کلمہ پڑھوا دیں تو پھر اس قانون کے تحت ایسے والدین کو بھی پانچ سے دس سال تک سزا ہو سکتی ہے۔ اس بل کے منظور ہوتے ہی پیپلز پارٹی کے خلاف ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ 5 دسمبر 2016ء کو تمام طبقات پر مشتمل ایک بہت بڑاوفد عبدالقیوم سومرو خصوصی معاون برائے وزیر اعلیٰ کو ملا اور پیپلز پارٹی نے ایک دَم راہِ فرار اختیار کر لی۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے گورنر سندھ جسٹس سعید الزمان صدیقی کو خط تحریر کیا کہ اسمبلی سے پاس شدہ اس بل پر دستخط نہ کرے، بلکہ اعتراض لگا کر واپس بھیج دے۔ تین سال کی خاموشی کے بعد نوجوان وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے ایک بار پھر 8 اکتوبر 2019ء کو تھوڑی تبدیلیوں کے ساتھ اس بل کو دوبارہ اسمبلی میں پیش کیا، جسے اسمبلی نے مسترد کر دیا۔
سندھ اسمبلی سے مسترد کردہ اس بل اور اس سے متعلقہ معاملات کو عمران خان صاحب وزیر اعظم پاکستان کی حکومت نے اپنی وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری کی انگیخت پر اسے مرکزی سطح پر از سر نو زندہ کرنے کیلئے 21 نومبر 2019ء کو سینیٹر انوارالحق کاکڑ کی سربراہی میں 21 اراکین پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی بنائی، جس کا نام ہے "Protect Minorities from Forced Conversion"۔ اقلیتوں کو جبری مذہب کی تبدیلی سے تحفظ کی فراہمی۔ (جاری)