میرا پڑائو سارناتھ کے اس مقدس مقام سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا جہاں گوتم بدھ نے اپنے کئی سالہ بن باس سے واپسی پر پہلا خطاب کیا تھا۔ اس جگہ پر برصغیر کے واحد بدھ حکمران اشوک نے سرخ اینٹوں سے 144 فٹ بلند اور 92 فٹ قطر والا بہت بڑا سٹوپا (Stupa) تعمیر کیا تھا۔ آج وہاں پر یہ عظیم زمینی گنبد نما عمارت تو موجود ہے، لیکن اس کے اردگرد بدھ بھکشوئوں کے مدرسے اور عمارات زمین بوس کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
وہ شہر جو کبھی بدھ مت کی تعلیمات کا امین ہوا کرتا تھا، اسے چند کلومیٹر پر موجود ہندوئوں کے مقدس شہر بنارس کی وسعت نے محض ایک سیاحتی یادگار میں تبدیل کر دیا ہے۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ بنارس جس کا قدیم نام کاشی اور موجودہ نام وناراسی ہے، 2011ء کی مردم شماری کے مطابق، اس کی 8، 40، 280 افراد پر مشتمل آبادی میں صرف 461 بدھ مت کو ماننے والے وہاں رہائش پذیر ہیں۔ بدھا کے اس سٹوپا سے بنارس کے مقدس شہر کی طرف روانہ ہوا تو بھارت کے ڈائریکٹر جنرل محکمہ آثارِ قدیمہ نے میرے لئے وہاں کے میوزیم کے سیاحتی دورے کا بھی اہتمام کر رکھا تھا۔
پورے عجائب گھر میں آپ کو صرف اور صرف بدھ مت سے متعلق اشیاء ہی نظر آئیں گی۔ کیونکہ بنارس کے مقدس مقام میں ہندو آثار ڈھونڈنے کی کھدائی تو میرے جانے کے سات سال بعد 2014ء میں ایک خاص مقصد کے تحت شروع کروائی گئی۔ وہ چار شیروں والا مجسمہ جو ایک زمانے میں اشوک کے بنائے گئے بلند و بالا میناروں کے اوپر نصب ہوا کرتا تھا اور جو آج بھارت کا قومی نشان ہے وہ وہیں پر موجود ہے۔ اس کے ساتھ تصویر بنانے کی اجازت نہیں ہے کہ کہیں کیمرے کی لائٹیں اس پر اثرانداز نہ ہوں، لیکن خصوصی رعایت کرتے ہوئے مجھے یہ اجازت دی گئی۔
گوتم بدھ کے دو عظیم شاہکار قدیم مجسمے ہیں، ایک روزے دار بدھ (Fasting Budha) جو لاہور کے عجائب گھر میں ہے اور دوسرا مبلغ بدھ (Preaching Budha) وہ بنارس کے عجائب گھر میں ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں بدھ نے اپنی تعلیمات کی تفصیل بتاتے ہوئے دھرم چکر (Wheel of Dharma) کا استعمال کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ایک انسان اپنے "کرموں " کا پھل اسی زندگی میں حاصل کر کے دُنیا سے جاتا ہے۔ یہ دھرم چکر بھی آپ کو بھارت کے پرچم پر نظر آتا ہے۔
اس عظیم شہر اور بدھ مت کی جنم بھومی پر اشوک کے بعد ایک بار پھر ہندو مذہب کی عمارت کھڑی کر دی گئی۔ اشوک کے ستائیس سالہ دَورِ اقتدار کے بعد ہندومت وہاں دوبارہ لوٹ آیا۔ پنڈتوں نے پرانی ویدوں سے ایک قدیم مذہبی داستان کا سراغ اس شہر میں جا نکالا۔ کہانی یوں ہے کہ ایشور کے تین بڑے اوتاروں، شیو، وشنو اور برہما میں ایک دفعہ زبردست لڑائی ہوئی۔ شیو نے برہما کے پانچ سروں میں سے ایک سر کاٹا اور اس کی ذلّت و رُسوائی کرنے کیلئے سر کو اپنے ہاتھ میں لٹکاتے ہوئے اپنی بہادری کی علامت کے طور پر جگہ جگہ لئے گھومنے لگا۔ جیسے ہی وہ بنارس پہنچا، برہما کا سر، شیو کے ہاتھ سے گرا اور زمین میں گم ہو گیا۔
شیو نے اس مقام پر یہ شہر آباد کیا۔ اشوک دور کے بعد ہندو پنڈتوں نے بدھ مت کے اس بنیادی مرکز سارناتھ کے پاس ہی گنگا کنارے بنارس شہر کو وہی مقام قرار دیا جہاں برہما کا سر دفن ہوا تھا۔ اس شہر میں جو تین دن میں نے گزارے ہیں وہ میرے لئے حیران کن تجربات لئے ہوئے تھے۔ پورا شہر یاتریوں کے قافلوں، لباس سے بے نیاز مٹی میں اَٹے ہوئے سادھوئوں اور دھونی رچائے پنڈتوں کی آمدورفت اور قیام سے اَٹا ہوا نظر آتا تھا۔
سب کا رُخ گنگا کے ساحلوں کی سمت ہوتا ہے جہاں شام کے بعد چھوٹے چھوٹے سٹیج سج جاتے ہیں۔ قمقموں سے روشن ان استھانوں پر بھجن گانے والوں کی ٹولیاں دیپ پوجا کے بھجن گاتی ہیں۔ دیپ پوجا دراصل گنگا کو سُلانے کی ایک رسم ہے جس میں لوریاں گا کر مٹی کے روشن دیئے گنگا میں بہائے جاتے ہیں۔ یہ لوریاں اس قدر خوش کن اور سُندر ہوتی ہیں کہ وہاں بیٹھے ہوئے کسی دوسرے مذہب کے شخص کو بھی نیند آنے لگتی ہے۔
ہندوئوں کے اس مقدس شہر میں مسلمانوں کی آبادی 3، 45، 461 ہے۔ یہ تقریباً انتیس فیصد بنتے ہیں۔ مجھے وہاں ایک بڑے قبرستان میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں ٹیپو سلطان کے دو پوتے دفن ہیں، مشہور طوائف امرائو جان ادا کی قبر بھی وہیں ہے اور ساتھ ہی ایک کچی قبر بسم اللہ خان شہنائی والے کی بھی تھی، جس کا انہی دنوں انتقال ہوا تھا۔ اتنی بڑی تعداد کے باوجود آپ کو چند مسلمان اپنے مخصوص حلیئے میں تو چلتے پھرتے نظر آئیں گے، لیکن ایک مجموعی تاثر یہ نہیں ملتا کہ اس شہر میں ساڑھے تین لاکھ مسلمان بھی آباد ہیں۔ ایک ہندو ساہوکار کی بنارسی ساڑھیوں کی دکان پر گیا تو میرے لئے خصوصی اہتمام سے گھروں سے کاریگروں کو ساڑھیاں لانے کیلئے کہا گیا، تمام مسلمان عورتیں اور مرد اپنے سروں پر گٹھڑیاں اُٹھائے دکان میں داخل ہوئے۔
یوں تو بنارس میں مندروں کی بہتات ہے، لیکن گنگا کے کنارے واقع کاشی وشواناتھ کا مندر سب سے اہم ہے جس پر سونے کا کلس مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی ہندو بیوی داتر کور کی فرمائش پر چڑھوایا تھا۔ ایک داستان یہ بھی ہے کہ یہاں ایک چھوٹا سا مندر تھا جو قطب الدین ایبک کی کنوج کے راجہ کی فوج کے ساتھ لڑائی میں تباہ ہو گیا تھا، جسے التمش نے ایک گجراتی تاجر سے دوبارہ تعمیر کروایا تھا۔ حسنین شاہ شرقی اور سکندر لودھی کی لڑائی میں یہ مندر پھر تباہ ہوا اور اکبر کے دَور میں اسے راجہ مان سنگھ نے دوبارہ تعمیر کروایا۔
اورنگ زیب عالمگیر برصغیر میں رواداری کی عظیم مثال ہے، اس نے پورے ہندوستان میں تمام مندروں کو جائدادیں الاٹ کی تھیں، جس کا اعتراف تمام ہندو مؤرخ کرتے ہیں۔ اس نے کاشی وشواناتھ کے ساتھ وسیع زمین وقف کی اور بنارس کی مسلمان آبادی کیلئے اسی گنگا کے کنارے اور کاشی وشواناتھ مندر سے تھوڑے فاصلے پر ایک مسجد بھی بنائی۔ یہ مسجد بابری مسجد سے اس لئے بھی مختلف ہے کہ اس میں اب تک مستقل نماز ادا ہو رہی تھی، جبکہ بابری مسجد تو کئی دہائیوں سے بند پڑی تھی۔ کاشی واشواناتھ کے مندر اور مسجد کو جانے والا ایک ہی راستہ ہے جس پر چھپروں والی سینکڑوں دُکانیں پھول، گجرے، دیپ اور مورتیاں بیچنے والوں کی ہیں۔ وہاں سے مندر اور مسجد ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔
گذشتہ دنوں نریندر مودی دو دفعہ بنارس گیا ہے اور اس نے کاشی کے علاقے کیلئے 870 کروڑ روپے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے جن میں مندر کی توسیع بھی شامل ہے۔ اس نے وہاں پر موجود مشہور اور مقدس شیولنگ پر دودھ کی گڑوی انڈیل کر اس کا افتتاح کیا۔ بنیادی مقصد یو پی کے الیکشن ہیں، لیکن آغاز کے طور پر ہی اورنگ زیب عالمگیر کی یہ مسجد نہ صرف بند کر دی گئی ہے، بلکہ اسے کپڑوں سے ڈھانپ بھی دیا گیا ہے۔ کیونکہ اصل مقصد مسجد کو گرا کر کاشی مندر کیلئے وسیع راستہ بنانا ہے۔
میرے سامنے آج وہ سارا منظر گھوم گیا ہے اور مسجد کا وہ صحن یاد آ رہا ہے جہاں ایک نماز کیلئے جبیں سجدہ ریز ہوئی تھی۔ ہردوار کے میلے میں اس دفعہ جو تقریریں ہوئیں ان کا لبِ لباب یہ تھا جو کوئی مسلمان اس دھرتی پر موجود ہے اس کے خلاف ہتھیار اُٹھا کر اسے قتل کر دینا چاہئے، تاکہ بھارت ماتا ان کے ناپاک وجود سے پاک ہو جائے۔ بی جے پی کے ممبرانِ اسمبلی نے گیروے کپڑے پہن کر ایک حلف اُٹھایا ہے کہ ہم بھارت کو ہندو دیش بنانے کیلئے لڑیں گے، مریں گے اور ماریں گے۔ یہ سب معاملات کوئی نئے نہیں ہیں، پاکستان کے ہر دانشور کے علم میں ہیں۔
2007ء میں جب میں پہلی دفعہ بھارت گیا تھا تو مسلمانوں نے تھوڑی سی اُمیدیں اس ملک سے وابستہ کر رکھی تھیں کیونکہ بی جے پی اپوزیشن میں تھی، لیکن جب میں 2015ء دوبارہ بھارت گیا تو مجھے کوئی مسلمان بھی ایسا نہ مل سکا جو زخم خوردہ، آزردہ اور مایوس نہ ہو۔ یہ سب اس لئے لکھنا پڑ رہا ہے کہ میرے ملک کا میڈیا اس قدر بے حس ہے کہ اسے بھارت جیسے دُشمن کے خلاف بولنے یا لکھنے کیلئے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کا انتظار کرنا پڑتا ہے جو سالوں بعد اب کہتی ہے کہ بھارت اقلیتوں کیلئے دُنیا کا بدترین ملک ہے۔
اس لئے کہ اب وہاں عیسائی اقلیت پر بھی ویسے ہی مظالم شروع ہو چکے ہیں جیسے کبھی مسلمانوں پر کئے جاتے تھے۔