امریکہ چاہتا تھا کہ وہ برسراقتدار رہے۔ اسے بھی اپنے پڑوس میں موجود اس عالمی طاقت پر ایمان کی حد تک یقین تھا۔ ایسا یقین کہ جس کے بعد عوام، ان کے جذبات اور خواہشات سب کی حیثیت ایک پرِکاہ جیسی محسوس ہوتی ہے۔ ساٹھ لاکھ آبادی کا چھوٹا سا ملک اور اس پر حکمرانی کرنے والی چالیس ہزار فوج جسے امریکی افواج کی پشت پناہی بھی حاصل تھی، اور وہ اس کا کمانڈر اِن چیف، تھا۔
27 مارچ 1952ء کو اس نے ایک جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹا اور اقتدار پر قابض ہوگیا۔ اس ملک پر 1940ء سے آئین کی حکمرانی تھی، اس نے آتے ہی آئین کو معطل کر دیا، لوگوں کی منتخب اسمبلی کو ختم کر دیا اور اپنے منظورِ نظر افراد کی ایک 80 رکنی مشاورتی کونسل بنائی جس کے ذریعے حکومت کرنے لگا۔ اس کونسل کی اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو فوج کے ریٹائرڈ افسران تھے۔
اس نے اپنے سیاسی مخالفین اور آزادانہ رائے رکھنے والے صاحبانِ علم کو دبانے کے لیے فوری نوعیت کی فوجی عدالتیں بنائیں اور انہیں سزائیں دینا شروع کر دیں۔ اس کی حکومت کا مقصد ملک میں جمہوریت، عوام کی فلاح یا ترقی ہر گز نہیں تھا بلکہ اس نے اقتدار پر قبضہ ہی اس لئے کیا تھا، تاکہ وہاں ایک ایسی حکومت قائم کی جائے جو امریکی پالیسی سازوں کے سامنے جھکی جھکی اور مرعوب نظر آئے اور ہر معاملے میں امریکیوں کے بتائے ہوئے راستوں پر گامزن ہو۔
اسے امریکیوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ عوام کے لئے زبان و بیان کی تھوڑی سی آزادی ضروری ہے۔ اس سے دلوں کا غبار نکلتا ہے اور کسی قسم کی انقلابی تحریک کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ تھوڑی پریس کو آزادی دی اور جلسے جلوس نکالنے پر بھی پابندی ختم کر دی۔ پھر کیا تھا، آئے دن یونیورسٹی کے طلبہ سڑکوں پر نکلتے، نعرے لگاتے، اپنے گلے بٹھاتے اور گھروں کو لوٹ جاتے۔ لیکن اس نے مزدوروں کی ہڑتال پر پابندی عائد کر دی کیوں کہ وہ سمجھتا تھا کہ اس سے معیشت کا پہیہ رُک جاتا ہے۔
ایسے لوگ جنہیں عوام کے دُکھوں اور تکلیفوں سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، ان کے نزدیک قومی خزانے میں دولت کا انبار ہی معیشت کی ترقی کی بنیاد ہوتا ہے۔ اس کے ملک میں چینی سب سے بڑا ذریعہ آمدن تھی۔ معیشت کے ماہرین نے اسے بتایا کہ اگر چینی کی پیداوار کم کرو گے تو قیمت زیادہ ہوگی، کارخانے دار خوشحال ہوں گے اور مزدوروں کی تنخواہیں بڑھیں گی۔ یوں زبردستی چینی کی پیداوار 70 لاکھ ٹن سے 50 لاکھ ٹن کر دی گئی جس سے صرف چند لوگوں کی جیبیں بھری گئیں اور لاکھوں کاشتکار اور مزدور بے روزگار ہو گئے۔
آمروں کا ایک اور المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں خوبصورت سکول، کالج، ہسپتال، سڑکیں اور پلازے ہی ترقی کا معیار نظر آتے ہیں۔ اس ملک میں بھی ایسا ہی ہوا، اس نے شاندار ہسپتال اور سکول بنائے جو پرائیویٹ سیکٹر میں تھے اور یوں ہسپتال عام آدمی کی پہنچ سے دُور ہو گئے اور وہ سسک سسک کر مرنے لگا۔ سکول صرف امراء اور اشرافیہ کے بچوں کے لیے باقی رہ گئے کہ عام شخص تو ان کی فیس ادا کرنے کے بھی قابل نہ تھا۔ نہ علم لوگوں کی دسترس میں رہا اور نہ صحت اور ان دونوں کے ساتھ ساتھ بے روزگاری نے لوگوں کو خودکشی کی راہ دکھا دی۔
ایسے میں 26 جولائی 1953ء کو سنٹی گو کے نزدیک مونکا ڈاک بیرک پر طلبہ نے حملہ کر دیا۔ ان حملہ کرنے والوں میں 26 سالہ فیڈرل کاسترو بھی تھا، اس کا عدالت میں بیان "مجھے اس حملے پر تاریخ معاف کر دے گی۔ لوگوں کی زبان پر اس کا یہ جملہ عام ہونے لگا۔ آمریت کا کوڑا برسا، نوے دن تک شہروں کے شہر کرفیو کی زد میں آ گئے۔ تمام آزادیاں ختم کر دی گئیں۔ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے کئی سو طلبہ کو پندرہ سال قید سنا دی گئی۔
اب اس حکمران نے سکھ کا سانس لیا۔ یوں لگتا تھا جیسے سب کچھ دب گیا ہے۔ حاصل کنٹرول میں عوام راضی برضا ہو گئے ہیں اور خوش ہیں۔ درباری خوشامدی تجزیہ نگار اس آمر کے قصیدے گانے لگے تھے۔ قصیدے سن کر اسے عوام میں مقبول ہونے کی خواہش نے آ گھیرا۔ سیاسی قیدیوں کو فراخدلی سے ملک بدر ہونے کی اجازت دے دی گئی جو نہ مانے، انہیں مسلسل قید رکھا۔ وہ سمجھتا تھا اس کے نزدیک لیڈر آنکھوں کے سامنے رہیں تو دل میں بستے ہیں آنکھ سے اوجھل ہوں تو دلوں سے بھی غائب ہو جاتے ہیں۔
ایسے لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ نفرت اور محبت تو ان تکلیفوں، آزاروں اور بے چینیوں سے جنم لیتی ہے جو لوگ برداشت کر رہے ہوتے ہیں۔ مطمئن ڈکٹیٹر جنرل باٹسٹا نے اقتدار کے ٹھیک ساتویں سال صدارتی الیکشن کا اعلان کر دیا۔ دوسری جانب مدتوں کے زخم خوردہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ اس نے سب سے پہلے کاروباری طبقے کو پکارا جن کی جیبیں اس آمریت میں پھول کر گپا ہو چکی تھیں۔
سرمایہ دار عوام کے خوف سے خاموش رہے کہ کہیں باٹسٹا کا ساتھ دینے سے عوام ان کی فیکٹریاں نہ جلا دیں۔ یہ ملک تھا کیوبا جس کے چرچ نے بھی اسے تحریک کے لیڈروں سے مفاہمت کے لیے کہا اور بتایا کہ ہم عوام کی نبض دیکھ رہے ہیں، ابھی بھی وقت ہے سمجھ جاؤ۔ اس نے جواب دیا اپوزیشن میرے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میری مسلح افواج اور امریکہ میرے ساتھ ہے، میں طاقتور شخص ہوں۔ یہ چند شرپسند ہیں جنہیں جب چاہوں کچل کر رکھ دوں۔
نومبر 1958ء میں الیکشن تھے فوج کو ہنگامے کچلنے کے لیے بھیجا گیا تو وہ اپنے ہی ہتھیار باغیوں کے حوالے کرکے واپس بیرکوں کو لوٹ آئی کہ اپنے ہم وطنوں پر گولی نہیں چلا سکتے۔ ایک چھوٹی سی غلطی اور طاقت پر اندھا اعتماد اسے الیکشن کے میدان میں لے آیا اور پھر باقی تاریخ کا حصہ ہے۔ الیکشن کا دن یوں تو عوام کی رائے کا دن ہوتا ہے لیکن جیسے ہی اس رائے کو طاقت سے بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو عوام سب کچھ اُلٹ کر رکھ دیتے ہیں۔
باٹسٹا امریکہ کی طرف لپکا، لیکن شاید اس نے گذشتہ سو سال کی امریکی تاریخ کو نظر انداز کر دیا تھا۔ وہ بھول گیا تھا کہ جب کسی ملک میں عوام کا جم غفیر اٹھتا ہے تو امریکہ سب سے پہلے اس جیسے آمروں سے آنکھیں پھیر کر دوسری سمت ہو جاتا ہے۔ امریکہ کے دروازے کھٹکھٹاتا باٹسٹا مایوس و ناکام ہوا تو ایک دن 31 دسمبر 1958ء کو رات کی تاریکی میں ملک چھوڑ گیا۔
2 جنوری 1959ء کی صبح طلوع ہوئی تو پورے ملک میں اس شخص کو اچھے نام سے یاد کرنے والا بھی موجود نہیں تھا۔ اقتدار کے ایوان اب پسے ہوئے لوگوں کے ہاتھ میں آ چکے تھے۔ طاقت کے بل پر حکومت حاصل کرکے اقتدار کو طول دینے والوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کی خاموشی اور صبر کو اپنی مقبولیت کا گراف سمجھنے لگتے ہیں، لیکن یہ خاموشی اتنی مہیب ہوتی ہے کہ اس کے نیچے اُبلتے آتش فشاں کی طرح دہکتی ہوئی آگ حکمرانوں کو دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی عوام کے بدنوں میں چھپاشور اس کے کانوں تک پہنچتا ہے، بس اچانک عوام کے ہجوم کا ایک لاوا اُبلتا ہے اور پھر نہ تاج رہتا ہے نہ تخت۔