Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Mayoosi Ki Daldal Aur Umeed Ki Kiran

Mayoosi Ki Daldal Aur Umeed Ki Kiran

جب اقتدار پر قابض طاقتوں کو اپنے انجام کی جھلکیاں لوگوں کے غم و غصہ میں نظر آنے لگتی ہیں۔ جب لوگ اپنی اُکتاہٹ، بیزاری اور نفرت کا اظہار برملا کرنے لگتے ہیں۔ جب خوف کے سائے انہیں اپنی دیواریں اونچی کرنے، بڑے وسیع پیمانے پر سکیورٹی گارڈ رکھنے اور گھروں کی طرف جانے والی سڑکوں کو بند کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں تو پھر ان کا آخری حربہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں مایوسی پھیلا دی جائے۔

مایوسی پھیلانے کا سب سے کامیاب طریقہ یہ ہے کہ انہیں کسی تبدیلی سے مایوس کر دیا جائے، ان کے ذہنوں میں یہ راسخ کر دیا جائے کہ تمہارے سڑکوں پر نکلنے، جدوجہد کرنے یا مار کھانے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ تم ایسے ہی روتے پیٹتے رہو گے۔ یہی تمہارا مقدر ہے۔ یہ ملک ہی ایسا ہے۔ یہاں کبھی انقلاب نہیں آ سکتا۔ اس کی تاریخ دیکھ لو، فاتحین کا استقبال کرنے والی، انہیں ہار پہنانے والی، ان کے لیے کرائے کے فوجی بھرتی کرنے والی، یہ قوم کیا انقلاب لائے گی؟

کچھ تو عقل کرو، مایوسی پھیلانے کا دوسرا انداز بھی عجیب ہوتا ہے، باہر نکلو گے، احتجاج کرو گے، جدوجہد کرو گے تو کس کے لیے، کون ہوگا تمہارا قائد، کوئی قیادت ہے اس ملک میں جو راہنمائی دے سکے۔ جو تھوڑے بہت تھے، انہیں تشدد سے نڈھال کر دیا گیا ہے، اور اگر ایک صاحبِ عزیمت ہے تو اسے جیل سے کون باہر آنے دے گا۔ بس انہی میسر سیاست دانوں سے مل کر ایک بے ہنگم سی اسمبلی وجود میں آ جائے گی۔ پھر تم احتجاج کرو گے، افراتفری پھیلاؤ گے، نظامِ زندگی معطل کرو گے تو آخرکار فوج آ جائے گی۔ اس کے بعد دس پندرہ سال کے لیے تم روتے رہنا۔

مایوسی پھیلانے کا آخری طریقہ ذہین اور پڑھے لکھے لوگوں پر آزمایا جاتا ہے۔ یہ لوگ بڑی آسانی سے پُراُمید اور بڑی جلدی ہی مایوس ہو جایا کرتے ہیں۔ ان پر وار کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، کیونکہ اپنے علاقے، گاؤں، شہر اور ملک میں یہی لوگ قیادت کا خلا پُر کیا کرتے ہیں۔ لوگوں کو پُراُمید بناتے ہیں، ان میں انقلابی جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے بِکاؤ دانشور بڑے بڑے تاریخی حوالوں کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر انقلاب کی تاریخ توڑ موڑ کر بتائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے ہر انقلاب کے پیچھے ہمیشہ ایک فکر ہوتی ہے۔ ایک فلسفہ ہوتا ہے۔ لوگ اس فلسفہ پر مدتوں کام کرتے ہیں۔ اس کو نکھارتے ہیں، تب کہیں جا کر عوام کے سامنے انقلاب کی باتیں کرتے ہیں۔

تمہارے پاس کیا ہے؟ نہ فکر نہ فلسفہ اور آئے تم انقلاب کی تھیوری پیش کرنے۔ اس طرح کی گفتگو اور مایوسی پھیلانے کے ایسے حربے عین اس وقت استعمال کئے جاتے ہیں جب عوام کی اکثریت تبدیلی کے لیے شدت سے تڑپ رہی ہوتی ہے۔ جب عوام کا اعتماد اس گندے، گلے سڑے اور بدبو دار نظام سے بالکل اُٹھ چکا ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں یہ قابض طبقات جنہوں نے لوٹ مار کا ایک منظم نظام بنا رکھا ہوتا ہے یعنی ایک بھائی فوج میں ہے تو دوسرا بیوروکریسی کا اہم عہدیدار جبکہ تیسرا عوام کے ووٹوں سے پارلیمنٹ کی بالادستی کا راگ الاپتا ہوا۔ یہ بظاہر نظر آنے والے مختلف طبقات اور اصل میں ایک ہی طبقہ ایسی باتوں کی ایک خاص قسم کی مہم کے ذریعے لوگوں کو مایوسی کی گہرائیوں میں دھکیلنے کے لیے دلیل اور منطق کے وار کر رہے ہوتے ہیں۔

مجھے ان لوگوں کی ان کوششوں اور خام خیالیوں پر ہنسی آتی ہے۔ دنیا میں جہاں بھی تبدیلی آئی یا انقلاب برپا ہوا تو نہ کبھی کسی سے پوچھ کر آیا اور نہ ہی وہ ایسے فلسفیانہ افکار کی بھول بھلیوں سے گزرتا ہوا اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا۔ یہ تو ایک اجتماعی غصہ ہوتا ہے جو لاوے کی طرح اُبلتا ہے اور ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح لپیٹتا ہوا سب کچھ درہم برہم کر دیتا ہے۔ وہ لوگ جن کے سروں میں غصے اور نفرت کی آگ الاؤ بن چکی ہوتی ہے ان میں ایک قدر مشترک ضرور ہوتی ہے اور وہ یہ کہ انہیں اپنے دشمن کی اچھی طرح پہچان ہو جاتی ہے۔ ان کے احتجاج کا مقصد نہ حکومت اور اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے اور نہ ہی آسائش و آرام کا حصول۔ وہ تو بس ایسے گروہ کو صفحہ ہستی پر دیکھنا نہیں چاہتے جس کا روزمرہ کا معمول اور طرزِ زندگی ان کی غربت کا مذاق اُڑا رہا ہوتا ہے۔ وہ ان سب کو خوب پہچانتے ہیں۔ بڑے بڑے محلات میں رہنے والے، مخصوص تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے، اعلیٰ ہسپتالوں میں علاج کروانے والے، بہترین ہوٹلوں میں کھانا کھانے والے۔ یہ سب لوگ کتنی دُور سے پہچانے جاتے ہیں اور کتنی آسانی سے نشانہ بن سکتے ہیں۔

سو یا دو سو سال پہلے کے انقلاب کی بات نہیں، صرف تیس سال پہلے کے ایران کے انقلاب کو غور سے دیکھ لیں تو مایوسی پھیلانے والوں کے سارے فلسفے غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔ فوج، سیاستدان، عدلیہ اور بیوروکریسی ایک اتحاد کی صورت میں شاہ ایران کے ساتھ تھی، امریکہ اس کا دل و جان سے سرپرست تھا۔ ایرانی قوم بھی اس قدر نرم خو اور بزدل کہ ہزاروں سال سے بادشاہوں کو جھک جھک کر سلام کرنے والی۔ ایران میں آج بھی لکھنؤ کی طرح مرصع القابات سے بھر پور زبان استعمال کی جاتی ہے۔ نسلاً ایک قوم بھی نہیں تھی بلکہ بے شمار زبانیں بولنے والوں کا ایک ملغوبہ۔ پورے ایران میں صرف 47 فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی مادری زبان فارسی ہے۔

جعفری، حنبلی، شافعی اور حنفی فقہ پر عمل کرنے والے لوگ مختلف علاقوں میں موجود۔ جیسے ہمارے ہاں حنفی فقہ والے اکثریت میں ویسے ہی وہاں جعفری فقہ والے اکثریت میں۔ مدتوں شاہ کے حواری کہا کرتے تھے، اس قوم میں انقلاب آئے گا؟ یہ ملا تو قم اور مشہد میں فقہی مسائل حل کرنے میں مصروف ہیں، کمیونسٹوں کو تو ہم نے طاقت سے دبا لیا ہے۔ جو بولتے تھے وہ خفیہ ایجنسی ساوک کی اذیتوں سے معذور بنا دیئے گئے ہیں۔ کون سی فکر اور کون سی سوچ، کوئی فلسفہ نہیں، کوئی قیادت نہیں۔ طاقت کے مراکز پر بیٹھے، ان لوگوں کو علم نہیں ہوتا کہ لوگوں کے غصے اور نفرت کا لاوا اپنے لیے فلسفہ اور فکر خود ڈھونڈ نکالتا ہے۔

جب ایران میں لوگ سڑکوں پر نکلے تو کوئی قیادت موجود نہ تھی۔ ایک بے ترتیب ہجوم تھا۔ انہوں نے اپنے جذبوں کو مہمیز دینے کے لیے اپنے ملک سے دُور سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے اور چالیس سال پہلے انتقال کر جانے والے علامہ اقبالؒ کے شعروں کو اپنی تحریک کا مرکزی محور بنا لیا۔ اس کی نظمیں تحریک کا جوش اور ولولہ بڑھانے اور ایک راہ دکھانے کا کام کرنے لگیں۔ پھر لوگوں نے اقبالؒ ہی کے ایک معتقد اور مداح ڈاکٹر شریعتی کی تحریریں اور لیکچر نکال لیے۔ انہیں بھی انتقال کئے دس سال ہو چکے تھے، لیکن ان کی فکر جو اقبالؒ سے مستعار لی ہوئی تھی، وہ انقلاب کے پروانوں کی روحِ رواں بن گئی۔ جب دیواریں ہلنے لگیں، اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ آنے لگا تو عراق میں جلاوطن امام خمینی نے انہی افکار اور نظریات کو بنیاد بنا کر اپنی تقریروں کو کیسٹوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا۔

انقلاب جب قریب آتا ہے، جب یقین ہونے لگتا ہے تو ایسی صورت میں ایک سوال ضرور اٹھتا ہے۔ اب قیادت کون کرے گا؟ کون حکمرانی کا فریضہ انجام دے گا، کون اس ملک کو تخریب سے تعمیر کی جانب لے جائے گا۔ یہاں قیادت سامنے آتی اس کے کردار کا آغاز ہوتا ہے، وہ جلاوطن ہو یا قید خانے میں بند، لوگ اس ایک فرد کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ امام خمینی نے ساٹھ سال ایران میں گزارے کچھ نہ کر سکے، اپنے گھر کے پچھلے دروازے سے نکل کر عراق روانہ ہو گئے۔ اگر مزید دس سال ایران کے عوام نہ اُٹھتے تو آج امام خمینی کا کوئی قابل ذکر مزار بھی نہ ہوتا۔ وہ جلا وطنی میں عراق کے شہر نجف کے ایک قبرستان میں خاموشی سے دفن ہو جاتے۔ اگر روس میں لوگ نہ اُٹھتے تو لینن جرمنی کے کسی خوبصورت قبرستان میں چھ فٹ زمین میں گارڈ دیا جاتا اور اس کا نام تک لوگوں کو یاد نہ رہتا۔

جب لوگوں کا جم غفیر محرومیوں کی بھٹی میں کھولتا ہوا نکلتا ہے تو فکر اور فلسفہ اس کے ہاتھ ضرور آ جاتا ہے۔ جس اقبالؒ نے ایران کے انقلاب کو گرمی عطا کی وہ تو آج بھی ہمارے ہاں زندہ ہے۔ میں حیران ہوں کہ آج جتنا اقبالؒ پڑھا جا رہا ہے میرے بچپن میں ایسا نہیں تھا۔ میرے ملک کا نوجوان گذشتہ ایک سال سے ایک شخصیت کے گرد جمع بھی ہو چکا ہے۔ وہ اس شخص کو اپنی اُمیدوں کا مرکز اور محور گردانتا ہے۔

عجیب مماثلت ہے کہ وہ بھی اپنا فلسفہ اقبالؒ سے مستعار لیتا ہے اور وہ بھی لوگوں کو اللہ پر یقین کے ذریعے آگے بڑھنے کو کہتا ہے۔ انقلاب صفت ہے کہ وہ ایک جلاوطن یا قید شخصیت کے کرشمے سے عوام میں جا بجا بے شمار مقناطیسی شخصیات پیدا کر دیتا ہے۔ یہ مقناطیسی طاقتیں ہوتی ہیں جو شہر در شہر لوگوں کو اپنے گرد جمع کرتی ہیں۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ کسی قوم کے حالات اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک ان کو اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔ حالت بدلنے کا خیال پاکستانی قوم کی رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔ اب حالات کا بدلنا اور قیادت کو سرخرو کرنا میرے ربّ کی ذمہ داری ہے اور یہ اس کا وعدہ ہے۔

انقلاب کی دوسری علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کی آمد سے پہلے تمام مقتدر ادارے انصاف سے خالی اور ظلم سے بھر جاتے ہیں اور وہ ایسا کرتے ہوئے پوری قوم کے سامنے روز ذلیل و رُسوا ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ دونوں شرائط پوری ہو چکی، اب صرف ایک ایسے مرحلے کی آمد ہے جب عوام کا آتش فشاں پھٹے اور پھر ان میں سے کوئی اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.