ہندوستان کی قدیم دیو مالا میں بھونچال کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہماری زمین کو ایک بہت بڑے بیل نے اپنے ایک سینگ پر اُٹھا رکھا ہے۔ جیسے ہی ایک سینگ تھک جاتا ہے تو وہ اُسے اُٹھا کر دوسرے سینگ پر رکھ دیتا ہے۔ سینگ بدلنے کے اس عمل کے دوران بھونچال آتا ہے۔ جدید دَور میں بھی اس کی طبعی تشریح کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق زمین دراصل شمالی اور جنوبی کونوں تک محدود تھی، پھر تبدیلیوں کے نتیجے میں اس کے براعظموں کی صورت ٹوٹ پھوٹ کر حصے ہو گئے اور یہ ایک دوسرے کی سمت چلنا شروع ہوئے۔
یورپ ایشیاسے ٹکرایا تو ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش جیسے بڑے بڑے پہاڑ اس کے ٹکرائو سے وجود میں آ گئے۔ آج بھی ان براعظموں کا ایک دوسرے میں گھسنے کا عمل جاری ہے، جس میں کبھی تیزی آتی ہے تو زلزلہ یا بھونچال آ جاتا ہے۔ دُنیا بھر میں سیاسی بھونچال بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ کسی بھی ملک میں بڑا سیاسی بھونچال ہمیشہ اس وقت آیا، جب اُس نے خود یا کسی دوسرے کی ایما اور خواہش پر ایک عالمی طاقت کے سینگ سے اُچھل کر دوسرے کے سینگ پر بیٹھنے کی کوشش کی۔ پاکستان آج اسی بھونچال کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔
امریکی سینگ پر بیٹھے ہوئے اس ملک کو آج تقریباً بہتر سال ہو چکے ہیں۔ امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر مرزا ابوالحسن اصفہانی تھے۔ یہ ایک ایرانی نژاد بنگالی سرمایہ دار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جن کے جدِ امجد مرزا ابو طالب اصفہانی کو انگریزوں نے اپنے مفادات کے لئے پہلے ایران سے انگلینڈ بلا کر رچمنڈ (Richmond) میں وسیع جائیدادیں عطا کیں اور پھر اُس کے بیٹے محمد ہاشم کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے 1820ء میں پہلے بمبئی اور پھر کلکتہ میں بہت بڑی اصفہانی کمپنی قائم کرنے کے لئے تمام سہولیات و مراعات مہیا کیں۔
اس خاندان پر انگریز کی پشت پناہی کا عالم یہ ہے کہ جب بنگلہ دیش بنا تو تمام غیر بنگالیوں کا قتلِ عام کیا گیا، بیچارے بہاری آج بھی کسی وطن کو ترس رہے ہیں، لیکن تقریباً سو سال پہلے اصفہان سے آ کر بنگال میں آباد ہونے والے اصفہانی خاندان کی کاروباری سلطنت آج بھی ڈھاکہ، چٹاگانگ اور سلہٹ میں محفوظ و مامون ہے۔ مرزا ابوالحسن اصفہانی نے 7 ستمبر 1949ء کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک خط تحریر کیا، جس میں لکھا تھا "آپ نے ماسکو کی دعوت قبول کر کے حکمتِ عملی کا شاہکار نمونہ پیش کیا ہے، چند ماہ پہلے تو ہم لوگ امریکی محکمۂ خارجہ کے درمیانے درجے کے حکام سے چند میٹھے بولوں کے سوا اور کچھ حاصل کرنے کے قابل نہیں تھے۔
ہمیں تو بس اچھے لڑکوں کی طرح قبول کیا جاتا تھا، یعنی ایسے لڑکے جو نہ تو کیمونزم کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھیں گے اور نہ ہی بائیں بازو کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلیں گے۔ ہمارے ملک کو سنجیدہ توجہ کے قابل سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ امریکی، بھارت کو خوش کرنے کی خاطر سب کچھ کرنے کو تیار تھے۔ لیکن آپ کی طرف سے ماسکو کی دعوت قبول ہونے کے بعد پاکستان راتوں رات امریکی حکومت کی نظروں میں اہم ہو گیا ہے۔ اب یہی امریکی دفتر خارجہ اس تاثر کو زائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ وہ بھارت کے معاملے میں جانبدار ہے"۔
یہ خط پاکستان کے پہلے تاریخی موڑ کا ایک ایسا سنگِ میل ہے، جو اس بات کی خبر دیتا ہے کہ ہم نے جیسے ہی عالمی قوتوں کی کشمکش کے دوران ایک قوت کی طرف جھکنے کی آمادگی ظاہر کی تو دوسری نے فوراً ہم پر نظرکرم کرتے ہوئے عنایات کی بارش کر دی۔ امریکی صدر ٹرومین نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو امریکی دورے کی دعوت دی، جسے 10 دسمبر 1949ء کو منظور کر لیا گیا اور 3 مئی 1950ء کو امریکی صدر کے خصوصی طیارے میں سوار ہو کر پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان اپنی بیگم رعنا لیاقت علی خان کے ہمراہ واشنگٹن پہنچے۔
سرکاری طور پر یہ دورہ 26 مئی تک جاری رہا۔ دونوں میاں بیوی کا امریکہ کے نو بڑے شہروں میں شاندار استقبال کیا گیا۔ سرکاری دورہ ختم ہونے کے بعد بھی دونوں تقریباً چالیس دن مزید نجی طور پر وہاں ٹھہرے رہے۔ امریکہ سے یہ دونوں 3 جولائی کو لندن پہنچے اور پھر کینیڈا سے ہوتے ہوئے ڈھائی ماہ بعد وطن واپس لوٹے۔ اس دورے کے بعد پاکستان کی سیاست، معیشت، معاشرت اور خارجہ پالیسی سب پر امریکی اختیار کا دَور شروع ہوا۔
واپس لوٹتے ہی 6 ستمبر 1950ء کو میجر جنرل ایوب خان کو پاکستان کی مسلح افواج کے پہلے کمانڈر انچیف بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس وقت کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی تھے۔ اس اعلان کے نو دن بعد انہیں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی اور 16 جنوری 1951ء کو انہیں چار ستارہ جنرل بنا دیا گیا اور اگلے ہی دن انہوں نے ڈگلس گریسی کی جگہ کمانڈر انچیف کا عہدہ سنبھال لیا۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی میجر جنرل کی پہلے لیفٹیننٹ جنرل اور پھر جنرل کے عہدے پر اس قدر تیز رفتار ترقی کی مثال نہ پہلے کبھی ملتی تھی اور نہ اس کے بعد کبھی نظر آتی ہے۔
امریکی اب پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی میں مکمل طور پر گھس چکے تھے اور پاکستان کی سیاسی اشرافیہ بھی انہی دونوں کے زیر اثر اپنے لئے اقتدار کی راہداریوں میں داخلے کے راستے تلاش کر رہی تھی۔ پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی، دونوں ہی انگریز کی تیار کردہ تھیں اور اپنی ہیئت ترکیبی میں کاسہ لیسی، مکمل غلامی، اور حکم کی فوری بجا آوری کی ماہر تھیں۔ امریکہ اب انہیں برطانوی ماضی کے تسلّط سے نکال کر امریکی مستقبل کی طرف لانے کے لئے سرگرم عمل ہو گیا۔
23 ستمبر 1953ء کو امریکی بحریہ کی خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر نے امریکہ کے جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین ایڈمرل ڈبلیو راڈ فورڈ کو جنرل ایوب خان کا یہ خاکہ روانہ کیا۔ "6 فٹ 2 انچ سے زیادہ طویل القامت اور 210 پونڈ کے توانا جنرل ایوب خان پاکستان کی ملٹری کے سب سے بااثر افسر ہیں۔ فوج پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے اور وہ چھوٹے یا بڑے ہر طرح کی اہمیت کے فیصلے خود ہی کرتے ہیں، کیونکہ وہاں سٹاف افسروں کو بہت کم اختیارات تفویض کئے جاتے ہیں۔
اگرچہ انہیں آفیسر کیڈر کا احترام حاصل ہے، لیکن وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ درشتی اور سختی سے پیش آنے کا میلان رکھتے ہیں۔ ان کی شہرت یہ ہے کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ کس شے کی جستجو کرنی چاہئے اور یہ کہ وہ نتائج پر زور دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں اپنے اور اپنی افواج پر بڑا اعتماد ہے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ امریکہ نواز ہیں۔ جاہ و جلال کی بہت زیادہ ہوس اور سیاست کو اپنے فوجی کیریئر سے مخلوط کرنے کے میلان کو ان کی کمزوریاں سمجھا جاتا ہے"۔
یہ خط جو اس وقت خفیہ تھا، اب امریکہ نے سکیورٹی پیپرز کو افشاء کرنے کی پالیسی کے تحت طشت از بام کر دیا ہے۔ اقتدار کی اسی رسہ کشی کے حوالے سے دو اہم شادیاں بہت اہم ہیں، جو خالصتاً اقتدار کی منزل کے حصول کے لئے کی گئیں۔ سول بیوروکریسی کے ایک اہم کارندے سکندر مرزا جنہوں نے آگے چل کر پاکستانی سیاست میں بہت اہم کردار ادا کیا، وہ اس وقت مشرقی پاکستان کے گورنر تھے۔ ان کے بیٹے ہمایوں مرزا کی شادی پاکستان میں امریکی سفیر ہوریس پلڈرتھ کی بیٹی جوزلفین سے 26 اکتوبر 1954ء کو ہوئی۔
اسی سکندر مرزا کی بیوی ناہید امیر تیمور جو کبھی تہران میں سماجی پارٹیوں کی جان (Socialite) مشہور تھی، اس کی دُور کی رشتے دار نصرت اصفہانی ولد عبدالطیف اصفہانی سے ذوالفقار علی بھٹو نے 8 ستمبر 1951ء کو شادی کی۔ بھٹو کی یہ دوسری شادی تھی جس نے اس کے لئے اقتدار کے ایوانوں تک راہ ہموار کر دی۔ (جاری ہے)