دُنیا بھر کے عسکری ماہرین کے لئے یہ اچھنبے کی بات تھی کہ جون 2019ء میں امریکی افواج کے ہیڈ کوارٹر پینٹاگون نے بحرِہند (Indian Ocean) اور بحرالکاہل (Pacific Ocean) کے سمندروں کے لئے جو حکمتِ عملی جاری کی، اس میں یورپ کے سمندروں میں واقع ملک یوکرائن کا تذکرہ کیوں کیا اور ساتھ ہی روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کو عالمی امن، جمہوریت اور آزاد معاشی مارکیٹ کے لئے پھر سے سر اُٹھاتا ہوا کینسر کیوں بتایا۔ فوری نتیجہ جو تمام عسکری ماہرین نے نکالا وہ یہی تھا کہ اگر ان دونوں خطوں میں کبھی کسی ایک خطے میں جنگ کے شعلے بھڑکے تو امریکہ اس چنگاری سے دوسرے خطے میں بھی آگ بھڑکا دے گا۔
آج کی عسکری اور معاشی دُنیا اُسی کی ہے جس کا سمندروں پر کنٹرول ہے۔ ہیلری کلنٹن جب اوبامہ کے پہلے دَور میں امریکی وزیرِ خارجہ تھی تو امریکہ نے افغانستان سے آہستہ آہستہ نکلنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد اہم سوال یہ تھا کہ اب امریکہ کیا کرے گا، کہاں جائے گا، یا پھر اپنی سرحدوں میں ہی دبک کر بیٹھ جائے گا۔ ان تمام سوالوں کا جواب ہیلری کلنٹن نے 11 اکتوبر 2011ء کو فارن پالیسی جنرل (FP) میں چھپنے والے اپنے مضمون "America's Pacific Century" (امریکہ کے بحرالکاہل میں اگلے سو سال) میں دیا تھا۔
مضمون کے آغاز میں ہی ایک وارننگ والا فقرہ تھا، "جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی طاقت امریکہ کے اندر ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، امریکہ کی طاقت امریکہ سے باہر ہے"۔ اس کے بعد اس نے مضمون میں اس بنیادی سوال کا جواب دیا تھا کہ " ہم اگلے سو سال کس علاقے میں گزاریں گے"۔ اس طویل مضمون میں اس نے لکھا کہ آئندہ سو سال امریکہ اپنی طاقت و قوت کا اظہار بحرالکاہل اور بحرِہند میں کرے گا اور اسی علاقے پر حاکمیت مسلّط کرنے کے بعد ہی دُنیا پر امریکی غلبے و اقتدار کی اگلی صدی کا خواب پورا ہو سکے گا۔
مضمون کے چھپنے کے ٹھیک تین ماہ بعد جنوری 2012ء میں طالبان کا دفتر قطر میں قائم ہو گیا اور امریکہ افغانستان سے باعزت واپسی کی راہیں تلاش کرنے لگا۔ اُسامہ بن لادن کا بنیادی سوال، چار ماہ پہلے 2 مئی 2011ء کے ڈرامے میں حل کیا جا چکا تھا اور امریکی عوام کو تسلی دینے کے لئے یہ کافی تھا کہ ہم نے گیارہ ستمبر کے سب سے بڑے مجرم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا ہے۔ افغانستان سے ذلّت آمیز شکست کو عوام سے چھپانے کے لئے جوبائیڈن نے بھی یہی منطق بھگاری تھی کہ اُسامہ بن لادن کے بعد اب ہمارا افغانستان میں کوئی جواز نہیں بنتا تھا کہ ہم امریکی عوام کے ٹیکس سے 45 ملین ڈالر روزانہ وہاں خرچ کریں۔ اس کے بعد کے سالوں میں امریکہ نے اس محاذِ جنگ کی وسعت کے بارے میں اپنا تمام ہوم ورک مکمل کر لیا اور بحرالکاہل اور بحرِہند میں موجود اپنے تمام فوجی اڈے اور جنگی بحری بیڑوں کو ہر طرح کی جنگ کے لئے سامانِ حرب سے لیس کر دیا۔
مشرقِ وسطیٰ سے بھی نکلنا تھا اور خطے کی قیادت اسرائیل کو سونپی جانا تھی، اس لئے اس کے اردگرد کے تمام ممالک کو بے رحمانہ طریقے سے سی آئی اے کی مشہور تکنیک "عوامی بیداری" (Public Uprising) کے ذریعے جنگ و جدل کا شکار کیا گیا۔ عرب بہار کے نتیجے میں اسرائیل کے پڑوسی ممالک لبنان، شام، لیبیا اور مصر کو ایسی خانہ جنگی میں مبتلا کیا گیا کہ وہ آج اسرائیل کی طرف غصے سے بھی دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے۔ امریکی آشیر باد پر پلنے والے عرب ممالک آہستہ آہستہ اسرائیلی جھولی میں ڈال دیئے گئے۔ پورے خطے کو تباہ و برباد کرنے اور اسرائیل کے لئے آسان چارہ بنانے کے لئے ایران کے بارہ گماشتہ گروہ (Proxies) نے بھی بہت کردار ادا کیا۔
اسرائیل کی سرحدوں سے لے کر یمن کے ساحلوں اور خلیج فارس کی بندرگاہوں تک تمام ممالک میں مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں مصروف ہو گئے اور اب اس خطے کو اسرائیل کے حوالے کرنا بے حد آسان ہو گیا۔ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ سے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور اپنی اگلی صدی کی بادشاہت کے لئے بحرِہند اور بحرالکاہل میں پڑائو ڈال لیا۔ ستمبر 2018ء میں اس نے بھارت سے "سپیشل ملٹری کوآپریشن ایگریمنٹ" کیا اور بھارت کو چین کے مقابل منظم کیا۔
دس سال پہلے 2007ء میں قائم ہونے والے امریکہ، جاپان، آسٹریلیااور بھارت کے چار ملکی عسکری اتحاد (QUAD) کو زندہ کیا گیا اور پورے خطے کے درجن بھر سے زیادہ ممالک سے ایک نیا اتحاد "AUKUS" بنایا گیا تاکہ چین کی معاشی اور عسکری ناکہ بندی کی جا سکے۔ یوکرائن پینٹاگون کی حکمتِ عملی میں اس لئے نمایاں ہوا، کیونکہ چین جس کے مدتوں روس کے ساتھ سرحدی تنازعات تھے اور ان تنازعات کی وجہ سے مائوزے تنگ اور امریکی صدر رچرڈ نکسن نے خطے میں امریکہ چین تعلقات کی بنیاد رکھی تھی، لیکن اب دونوں 2011ء میں عسکری معاہدے میں منسلک ہو گئے اور واسٹوک (Vostok) کی مشترکہ جنگی مشقوں نے امریکہ کو خبردار کر دیا۔
پینٹاگون کے مطابق روس اور چین دونوں کا مفاد اس خطے میں ہے جس میں پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیاء کی مسلمان ریاستیں شامل ہیں۔ دونوں ملکوں اور اس پورے خطے کا ایک ہی دروازہ ہے جو کسی بھی قسم کی عالمی تنگنائے (International Choke Point) سے باہر ہے اور وہ صرف اور صرف گوادر ہے۔ چین کا سمندری راستہ جو انڈونیشیا، ملائیشیا اور سنگا پور کے درمیان سے ہو کر گزرتا ہے، جسے ملاکا (Malacca) کا ریڈور کہتے ہیں، ایک چھوٹا سا جنگی جہاز بھی اسے بند کر سکتا ہے۔
روس نے امریکہ کو شام میں فوج کشی کا فیصلہ بدلنے پر اس لئے مجبور کیا تھا کیونکہ یوکرائن کے ساحلوں سے اس کو سمندر تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور اگر وہاں نیٹو کے میزائل نصب کر دیئے جائیں پھر وہاں شدید جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اس صورت میں روس اور چین کے لئے سمندر کے راستے تجارت کے لئے صرف اور صرف گوادر بچتا ہے۔ کیونکہ ایران، دبئی، قطر وغیرہ کی تمام بندرگاہیں تنگنائے ہرمز (Harmuz) پر ایک جہاز کھڑا کرنے سے بند کی جا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روس کو چین کی مدد سے روکنے کے لئے یوکرائن کے ذریعے پورے یورپ کو جنگ میں اُلجھانا بہت ضروری تھا۔
اب اس جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ مگر اس سے پہلے بحرِہند اور بحرالکاہل میں امریکہ نے 200 چھوٹے بڑے جنگی جہاز، تین بحری بیڑے، لاتعداد آبدوزیں، دو ہزار جدید جنگی طیارے اور تین لاکھ ستر ہزار سپاہی وہاں پہنچا دیئے ہیں۔ بھارت کا سمندری فیوژن (Maritime Fusion) سنٹر امریکی افواج کے پاس ہے جو خطے کی بذریعہ سیٹلائٹ نگرانی کر رہا ہے۔ صرف اکیلے یوکرائن کو خانہ جنگی اور پھر جنگ کا شکار کرنا اس وقت تک فائدہ مند نہیں ہو سکتا، جب تک پاکستان میں بھی ویسی ہی اندرونی خانہ جنگی اور پھر علاقائی جنگ شروع نہ کروائی جائے۔ اگر ایسا کر دیا گیا تو پھر پورے خطے کے دونوں عالمی سمندری دروازے یعنی، ایک یوکرائن اور دوسرا پاکستان ناقابلِ استعمال ہو سکتے ہیں اور یوں چین اور روس دونوں کی معاشی اور عسکری ناکہ بندی مکمل ہو جاتی ہے۔
گوادر یوکرائن سے زیادہ اہم ہے، کیونکہ یہ گرم پانیوں کے بڑے سمندروں سے زیادہ قریب اور محلِ وقوع کے حساب سے ناقابلِ تسخیر ہے۔ اس کا محاصرہ کرنا آسان نہیں بلکہ اس سے کھلے پانیوں کی جنگ چھڑ سکتی ہے اور چونکہ روس اور چین جغرافیائی طور پر اس کے نزدیک ہیں اس لئے یونیورسٹی آف سڈنی کے امریکی سٹڈی سنٹر کے مطابق امریکہ کو ذلّت آمیز شکست اُٹھانی پڑ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے نزدیک یوکرائن کی طرح پاکستان کو بھی سیاسی بدامنی اور کسی بڑی اندرونی خانہ جنگی کا شکار کرنا بہت ضروری ہے تاکہ گوادر کا راستہ چین اور روس کے لئے بند ہو جائے۔
اس عالمی تناظر میں پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھیں، سیاسی رہنمائوں کی امریکہ یاترائیں ملاحظہ کریں، مغربی سفارت کاروں کی لیڈروں سے ملاقاتوں پر غور کریں تو آپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ ہم ایک ایسے آتش فشاں پر یبٹھے ہیں جو زندہ ہے اور کسی بھی دن لاوااُگلنے لگے گا۔ یہ لاوا اندرونی خلفشار کا بھی ہو سکتا ہے اور بیرونی حملے کا بھی۔