پاکستان کی معاشی تاریخ پر جن مجرموں کے انگوٹھے ثبت ہیں ان کی وفاداریوں کے ڈانڈے پہلے تاجِ برطانیہ سے ملتے تھے اور جنگِ عظیم کے بعد یورپ کے زوال سے اُبھرنے والی عالمی طاقت امریکہ سے ملنے لگے ہیں۔ 15 اگست 1947ء کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالنے والا برطانوی ہندوستان کی سول سروس کی برانچ، انڈین ریلوے اکائونٹس سروس کا رکن ملک غلام محمد تھا۔ وہ کبھی بھی مسلم لیگ کا ممبر نہیں بنا مگر وزیر خزانہ بنا دیا گیا اور جب اس نے 17 اکتوبر 1951ء کو قائد اعظم والی آئین ساز اسمبلی توڑی تو اس نے برٹش انڈین آڈٹ اینڈ اکائونٹ سروس کے ایک اور سپوت چوہدری محمد علی کو وزیر خزانہ بنا دیا۔
چوہدری محمد علی، وزیر اعظم بنا، تو اس نے برٹش انڈین سول کے تیار کردہ ایک اور شخص سید امجد علی، جو اس وقت امریکہ میں پاکستانی سفیر تھا اسے وزیر خزانہ لگایا دیا۔ 1958ء تک پاکستانی معیشت پر برطانوی تربیت یافتہ افسران کا ہی راج رہا۔ لیکن جب ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تو اسے امریکہ کی جانب سے محمد شعیب کی صورت میں ایک "تحفہ" عطا کیا گیا جو 1965ء تک اس ملک کا وزیر خزانہ رہا۔ یہ وہی شخص ہے جس نے اپنی پوری سفارتی کوشش کر کے پاکستان کی اٹامک انرجی کمیشن کے اس معاہدے کو ختم کروایا تھا، جو انہوں نے جنرل الیکٹرک کمپنی کینیڈا کے ساتھ ایٹمی توانائی پلانٹ لگانے کیلئے کیا تھا۔
قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک جو کوئی بھی وزیر خزانہ کے عہدے پر براجمان ہوا، یا تو وہ برارہِ راست امریکی نرسری سے آیا تھا، یا پھر اس پر اتنا اعتماد ضرور تھا کہ وہ امریکی پالیسیوں کا محافظ بن کر رہے گا۔ ان ماہرین نے امریکی چھتری تلے پلنے والے پاکستانی معاشی نظام کو آہستہ آہستہ میٹھے زہر کی طرح ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، پیرس کلب اور دیگر مالیاتی اداروں کی مالیاتی گولیاں کھلا کر ایک ایسی لاعلاج بیماری کا شکار کر دیا، جس کی اہم ترین علامت یہ تھی کہ وسائل کی پروا کئے بغیر اور آنے والے کل کے انجام سے بے نیاز ہو کر قرض لیا جائے اور عیاشی کی جائے۔
قرض کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ایک دن قرض دینے والے یہ حقیقت جان جاتے ہیں کہ اب ادائیگی مشکل ہو رہی ہے، جبکہ قرض لینے والے ملکوں کو یہ مشکل گھیر لیتی ہے کہ وہ اگر قرضے کی قسط ادا کریں تو پھر کھائیں گے کہاں سے۔ پاکستان کو آج اسی مقام پر لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے۔
اس گنجلک سے نکلنے کے تین راستے ہیں۔ دو راستے اسی عالمی مالیاتی نظام اور کارپوریٹ دُنیا سے وابستہ ہیں۔ پہلا راستہ وہ ہے، جسے ایکواڈور اور دیگر لاطینی امریکہ کے ممالک نے اختیار کیا اور قرض خواہوں کو یہ کہہ کر صاف صاف انکار کر دیا کہ ہم ایسے قرضے کو ناجائز (illegitimate) سمجھتے ہیں جو حکمرانوں نے صرف چند لوگوں کے فائدے کیلئے حاصل تھا۔ ان ملکوں نے قرضوں کے ایسے استعمال سے یہ ثابت کیا کہ یہ قرضے ناجائز تھے۔
آئی ایم ایف کو کان سے پکڑ کر ملک سے نکالا، اور پوری دُنیا نے یہ تسلیم کیا کہ یہ ملک سچ کہتے ہیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ تسلیم کر لیا جائے کہ ہم دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ ایسا دُنیا میں بے شمار ممالک نے کیا۔ ترکی نے 1978 اور 1982ء میں دو دفعہ، یونان نے 2015، روس نے 1998ئ، سپین اب تک 13 دفعہ دیوالیہ ہو چکا ہے جن میں آخری دفعہ 1939ء میں ہوا تھا، برطانیہ 1976ئ، یوگو سلاویہ 1983ئ، الجزائر 1991ئ، مصر 1984ئ، برازیل دس دفعہ دیوالیہ ہو چکا ہے جن میں آخری دفعہ 1990ء میں ہوا تھا، چلی نو دفعہ، کولمبیاء 7 دفعہ، اور ایکواڈور سات دفعہ ہوا جن میں آخری دفعہ2008ء میں ہوا تھا۔ پھر اس نے 2016ء میں قرض واپس کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ یہ ایک طویل فہرست ہے۔
دیوالیہ ہونے کے بعد قرض خواہ آپ کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، کتنا جرمانہ عائد کرتے ہیں، یا کتنی رعایت دیتے ہیں۔ یہ آپ کی علاقائی حیثیت پر مبنی ہے، لیکن عموماً کوئی بھی اپنی رقم ڈبونا نہیں چاہتا، اس لئے مقروض ملکوں کو ایک لمبی مہلت دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی معیشت مستحکم کر کے قرضے واپس کر دیں۔ قرضے دینے سے انکار کیلئے، ایک مضبوط قیادت اور اجتماعی قوت کی ضرورت ہے جو پاکستان کو فی الحال میسر نہیں ہے اور دیوالیہ کہلا کر کوئی پارٹی سیاسی خود کشی نہیں کرے گی۔
تیسرا اور اہم ترین راستہ وہ ہے، جسے بہت پہلے پاکستان کو اختیار کر لینا چاہئے تھا۔ اس راستے کو چند دن پہلے سری لنکا نے اختیار کیا ہے۔ انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسیوں نے جب سری لنکا کے 35 ارب ڈالر کے قرضے کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا کہ وہ اب دیوالیہ ہو جائے گا تو پاکستان کی طرح، سری لنکا میں بھی لاتعداد امریکی بانسری پر رقص کرنے والے معیشت دانوں کی ایک کھیپ موجود تھی۔ ان میں سے بیرون ملک آباد معیشت دانوں اور ملک کے اندر آباد ماہرین نے مل کر سری لنکا کے سنٹرل بنک کے گورنر کو براہِ راست اور بذریعہ فون مشورے دینا شروع کئے کہ فوراً آئی ایم ایف کے پاس جائو اور وہاں سے گردن چھڑانے (Bail out) پیکیج لے لائو۔ لیکن سنٹرل بنک کے گورنر اجیت نواد کیبرال نے جو ان امریکی جونکوں کو بخوبی جانتا تھا اس نے فوراً پریس کانفرنس بلائی اور کہا:
"The IMF is not a magic wand. Other altarnatives are better than going to IMF"
"آئی ایم ایف کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے، دوسرے راستے آئی ایم ایف سے بہتر ہیں " اس کے فوراً بعد سری لنکا نے چین کے ساتھ قرضوں سے نجات دلانے اور اپنے قرضوں کی چھوٹ کیلئے مذاکرات شروع کر دیئے۔ چین اور روس جو گذشتہ ایک سال سے آئی ایم ایف کے مقابلے میں ایک مختلف عالمی مالیاتی نظام لانا چاہتے ہیں، ان کیلئے سری لنکا کی جانب سے یہ اشارہ ایک نئے سفر اور نئے نظام کے آغاز کیلئے نیک فال تھا۔ چین سری لنکا کو فوری طور پر ایک ارب ڈالر کا کریڈٹ لائن فنڈ مہیا کرے گا اور یوں سری لنکا فوری طور پر ان بانڈز کی 500 ملین ڈالر قسط ادا کرے گا جو اس نے عالمی مارکیٹ میں بیچے ہوئے ہیں۔
امریکہ اور اس کے حواریوں کا عالمی مالیاتی نظام دُنیا بھر میں گیارہ ہزار بینکوں سے چلتا ہے اور انہی کے ذریعے وہ جب اور جس وقت چاہے، جس ملک پر پابندیاں لگا کر اس کا ناطقہ بند کر سکتا ہے۔ اس کی مثال پہلے ایران اور اب افغانستان ہے۔ چین نے اس کے مقابلے میں سرمایہ منتقل کرنے کا اپنا نظام۔ CIPF (China Securities Investor Protection Fund) قائم کر لیا ہے، جس کے ذریعے وہ ایسے تمام ملکوں میں رقم منتقل کرتا ہے یا ان سے رقم لیتا ہے جو اس کے ساتھ ایم او یو (MOU) کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں۔
پاکستان کا محلِ وقوع، قرضوں کی نوعیت، معاشی حالت اور سکیورٹی حالات ایسے ہیں کہ ہمیں سری لنکا سے بہت پہلے ایسا فیصلہ کر لینا چاہئے تھا۔ لیکن پاکستان کی معیشت سے وابستہ کچھ امریکی جونکیں ہیں، جو پاکستان کو امریکی عالمی مالیاتی نظام سے کبھی آزاد نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اس لئے کہ ان کے اپنے مفادات، اس سے وابستہ ہیں۔ چین کا قرضہ یا مدد کسی ملک سے کسی قسم کے نظام کی تبدیلی، جمہوریت، انسانی حقوق و حقوقِ نسواں، توہینِ رسالت کے قوانین، وغیرہ کے متعلق مطالبات نہیں کرتا۔ جبکہ امریکی عالمی مالیاتی نظام ایسے مطالبات کرتا ہے جس سے آپ کے معاشرے کی تمام اخلاقی اور معاشرتی بنیادیں ہل جائیں۔
انہی شرائط کی وجہ سے تو پاکستان میں موجود مغربی ایجنڈے والی این جی اوز اور سول سوسائٹی کو فنڈز دیئے جاتے ہیں، عورت مارچ اور ہم جنس پرستی کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اکثر بڑے سیاستدانوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس کی جائدادیں اور کاروبار مغرب میں ہیں، اولادیں باہر ہیں اور بے شمار ایسے ہیں جو اولادوں کیلئے مغربی یونیورسٹیوں میں تعلیم اور مغرب میں ملازمتوں کے خواب دیکھتے ہیں۔
یہ وہ تمام لوگ ہیں جو اس ملک کو گذشتہ کئی سالوں سے یہ فیصلہ ہی نہیں کرنے دے رہے کہ وہ کب ایسے امریکی عالمی مالیاتی نظام، معاشی غلامی سے آزاد ہو جس میں نہ اخلاق آزاد رہتا ہے نہ معاشرت، نہ مذہب آزاد رہتا ہے اور نہ خاندانی زندگی۔ یہ چند ہزار جونکیں ہیں جو ماہرین کی صورت اس ملک کا خون چوس کر امریکی عالمی معاشی نظام کی رگوں میں بستے سرمائے کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں۔