آسمانی اور الوہی ہدایت اور طرزِ زندگی کے مقابلے میں انسان نے ہر دَور میں زمینی مذاہب تخلیق کئے اور زمینی صنم تراشے ہیں۔ انہی زمینی مذاہب اور مروجہ طرزِ زندگی کے بطلان کیلئے انبیاء کر ام علیہ السلام تشریف لائے ہیں۔ آج کا دَور جو قیامت تک سیدالانبیائؐ کی نبوت و رسالت کا دَور ہے، اس دَور میں رسول اکرم ﷺکے دین کے مقابلے میں تخلیق کئے جانے والا زمینی مذہب اور طرزِ زندگی سیکولرازم ہے۔
جس طرح ہر مذہب اپنا ایک لائف سٹائل، رسم و رواج، اقدار و روایات، سیاسی نظام اور طریقِ عبادات رکھتا ہے، اسی طرح سیکولرازم نے بھی اپنے لئے تمام اُصول و قوانین، سیاسی نظام اور طرزِ زندگی بھی وضع کیا ہے۔ قومی ریاستیں، متعصب اور کٹر قسم کی وطنیت پرستی اور جمہوریت جیسے تصورات سیکولرازم کا سیاسی ڈھانچہ مرتب کرتے ہیں۔ مذہب سے آزادی، عورتوں کے حقوق کی سربلندی، خاندانی نظام سے بغاوت، جنس پر مذہبی اور اخلاقی پابندیوں سے انکار، اور خود ساختہ اخلاقیات کا نفاذ سیکولرازم کے سماجی ڈھانچے اور لائف سٹائل کی پہچان ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات سے انکار اور اس کے قانون سے بغاوت کیلئے انسان نے ہر دَور میں بُت اور صنم تخلیق کئے ہیں۔ سیکولرازم کا سب بڑابُت "انسان" خود ہے۔ جدید دَور کا سب سے بڑا نعرۂ مستانہ ہی یہ ہے، "انسان عظیم ہے خدایا"۔
ہر سیکولر، لبرل ملک میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، اقتدارِ اعلیٰ عوام ہی کے پاس ہے، قانون سازی میں بھی آخری اختیار انسان ہی رکھتے ہیں۔ یہ حضرتِ انسان جو اس جدید دَور میں ذاتِ الٰہی اور قانونِ الٰہی کے مقابل آ کر کھڑا ہوا تو اس نے اپنے نظام کے محور اور مرکز کیلئے ایک بہت بڑا بُت تخلیق کیا ہے۔ جسے "سائنس اینڈ ٹیکنالوجی" کہتے ہیں۔ زندگی کی آسائشوں، آسمان کی بلندی پر پرواز، زیرِ زمین خزائن کی تلاش، غرض دُنیا بھر کی ضروریات کیلئے سیکولر معاشروں میں سائنس اور ٹیکنالوجی پر ہی بھروسہ کیا جاتا ہے۔ جو ملک یا علاقہ اس ٹیکنالوجی کے دیوتا کے حصول میں جتنا آگے بڑھ جاتا، اتنا ہی وہ غالب اور بااثر کہلاتا ہے۔
سیکولرازم کا لفظ یوں تو بہت عرصہ بعد جارج جیکب ہو لی اوک (George Jacob Holyoake) نے 1845ء میں تخلیق کیا ہے، لیکن اس کے بنیادی تصور کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ عموماً مؤرخین اس کا آغاز انقلابِ فرانس کے نظریاتی فلسفیوں، روسو یا وا لٹیئر کے زمانے سے لیتے ہیں۔ کیونکہ انقلابِ فرانس ہی وہ پہلا بڑا واقعہ ہے، جس نے یورپ کے ممالک میں حکومت پر سے چرچ کی بالادستی کو اُکھاڑ پھینکا۔ لیکن جس کتاب نے سیکولرازم کی بنیادوں کو کئی سو سال پہلے سے ڈھونڈ نکالا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ دراصل سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کے بالکل برعکس رومن بادشاہوں نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کیلئے ایک بالکل مختلف نوعیت کی عیسائیت کو تخلیق کیا، جس کے رگ و پے میں مذہب کی انسانی زندگی کے معاملات سے علیحدگی رچی بسی ہوئی تھی۔ جیسے حضرت عیسی ؑ سے یہ قول منسوب کیا گیا کہ "قیصر کو قیصر کا حق دو اور اللہ کو اللہ کا حق دو" تاکہ دُنیا کی بادشاہت کو اللہ کی فرمانروائی سے علیحدہ کر دیا جائے۔
دوسرا یہ قول کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا "میری مملکت یہ جہان نہیں ہے" بلکہ ان سے یہاں تک کہلوا دیا گیا کہ، "میری تعلیمات چند ایسی روحانی رسوم کے سوا کچھ نہیں جن کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں "۔ ان مذہبی حوالوں کی تاریخ سے لے کر جدید مغربی دُنیا کے لائف سٹائل تک سیکولرازم کے نظریاتی سفر کو ڈاکٹر سفرالحوالی نے اپنے ایم اے کے مقالے میں خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے یہ مقالہ مدینہ یونیورسٹی میں اپنے قابل اُستاد اور "اخوان المسلمون" کے شہید رہنما سیّد قطب شہید کے بھائی محمد قطب کی زیرِ نگرانی تحریر کیا تھا۔
یہ مقالہ کتابی شکل میں عربی زبان میں "العلمانیۃ" کے نام سے شائع ہوا۔ الحوالی کی اس کتاب کو ریلوے روڈ لاہور پر واقع اسلامی لائبریری دارالمعارف" کے مدیر محمد زکریا رفیق نے انتہائی محنت، جانفشانی اور حسنِ خوبی کے ساتھ اُردو میں ترجمہ کیا ہے جسے کتاب سرائے لاہور نے "سیکولرازم" کے نام سے شائع کیا ہے۔
ڈاکٹر سفر بن عبدالرحمن الحوالی، جدید دَور کی ان عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے سعودی عرب جیسے ماحول میں عَلمِ حق بلند کیا۔ 1950ء میں پیدا ہونے والے سفر الحوالی نے 1986ء میں "ام القریٰ یونیورسٹی" مکہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل ہوتے ہی انہیں اپنا ملک ایک ایسا قید خانہ محسوس ہوا، جسے امریکی افواج نے گھیر رکھا ہو۔ چونکہ وہ سیّد قطب کے بھائی کے شاگرد تھے، اس لئے مصر کی "اخوان المسلمون" سے بہت متاثر تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب "اخوان المسلمون" کے ارکان مصر میں کیمونسٹ حکومتوں کے ظلم سے بچنے کیلئے سعودی عرب میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر سفر الحوالی نے سلیمان العودہ کے ساتھ مل کر ایک تحریک کا آغاز کیا جس کا نام "الصحوۃالاسلامیہ" تھا یعنی اسلامی تحریک بیداری۔ اس تنظیم نے سعودی عرب میں امریکی افواج کی موجودگی کی مخالفت کی۔ ان کی تقاریر نے پورے ملک کے طول و عرض میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ الحوالی کی اسی شعلہ بیانی کی وجہ سے انہیں 1991ء میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد سعودی عرب کے سرکاری مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز نے یہ فتویٰ دیا کہ جب تک الحوالی اور العودہ اپنے خیالات سے رجوع نہیں کرتے ان کی تقریر اور تحریر پر پابندی عائد رہے گی۔
مشہور مصنف سیموئل ہنٹگٹن (Samuel Huntington) نے اپنی کتاب "تہذیبوں کا ٹکرائو" (Clash of Civilization) میں سفرالحوالی کے نظریات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے اپنی کتاب کا بنیادی نظریہ ان کی تحریروں سے ماخوذ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ الحوالی کے اس قول کا حوالہ دیتا ہے کہ "یہ عراق اور امریکہ کی جنگ نہیں بلکہ یہ اسلام اور مغرب کی جنگ ہے"۔ الحوالی نے اس اسلام اور مغرب کی جنگ کا تصور ان 60 امریکی سکالروں کے مضمون کے جواب میں مزید واضح کیا تھا جس مضمون میں انہوں نے عراق پر امریکی حملہ کا دفاع کیا تھا۔
الحوالی نے ان کا جواب دیتے ہوئے، امریکی خارجہ پالیسی کی پوری تاریخ پر سیر حاصل تنقید کی تھی۔ ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ان عظیم راسخ العقیدہ عیسائیوں کی تاریخ ڈھونڈ نکالی جو صرف اور صرف ایک خدا کو مانتے تھے اور ان بیچاروں پر رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں عیسائی پادریوں نے بدترین مظالم ڈھائے، کیونکہ وہ " تثلیث" یعنی تین خدائوں کو نہیں مانتے تھے۔
الحوالی کی اس کتاب کا اصل مقدمہ یہ ہے کہ سیکولرازم بحیثیت نظریہ و طرزِ زندگی اس لئے مغربی دُنیا میں مقبول ہوا، کیونکہ رومن بادشاہوں نے جو خود ساختہ عیسائیت تخلیق کی تھی، وہ جدید دُنیا کے تقاضوں کے نہ تو ہم آہنگ تھی اور نہ ہی لوگوں کے ذہنوں میں اُٹھنے والے جدید سوالات کا جواب دے سکتی تھی۔ اس طرح کے علم و آگہی سے تہی مذہب کے باوجود چرچ کے رہنمائوں نے بادشاہوں اور عوام کی سیاسی و سماجی زندگی کو اپنی طاقت سے کنٹرول کرنا شروع کر دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام ان سے متنفر ہو گئے اور وہ بیک وقت بادشاہ اور چرچ دونوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور یوں سیکولر ازم کو عروج حاصل ہوا۔
کتاب میں ان تمام سوالات کا جواب موجود ہے جو جدید ذہن میں سیکولرازم کے حوالے سے پیدا ہوتے ہیں۔ ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب مسیحی دَور سے لے کر جدید مغربی ادوار تک آنے والی ہر سیکولر تبدیلی پر تبصرہ کرتی ہے اور دینِ حق کی حقانیت کو واضح کرتی ہے۔