پہلی جنگِ عظیم میں فرانس، روس اور برطانیہ کی افواج فتح کے قریب تھیں، خلافتِ عثمانیہ کے بیشتر حصوں پر قبضہ کیا جا چکا تھا، برطانیہ اور فرانس کی افواج عرب، عراق اور شام کے علاقوں اور روس کی افواج نے یورپ میں موجود مسلمان علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ زارِ روس اور اس کے آرتھوڈوکس چرچ کے پادری دونوں کے خواب پورے ہونے والے تھے۔ سینٹ پیٹرز برگ کے بانی زار پیٹر اوّل جسے "پیٹر دی گریٹ" کہتے ہیں اس کا ایک ہی خواب تھا کہ روس کسی نہ کسی طرح قسطنطنیہ کی بندرگاہ یا پھر بحیرۂ عرب یا بحر ہند کی کسی بندرگاہ پر قابض ہو جائے تاکہ وہ دُنیا میں ایک بحری طاقت کے طور پر بھی اُبھر سکے۔
دوسری طرف پادریوں کا خواب تھا کہ وہ یائے صوفیہ اور قسطنطنیہ میں واپس لوٹ جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے بھاری جانی نقصان اُٹھا کر اور اپنے اتحادی پولینڈ کے سربوں کی ناراضگی مول لے کر یوکرین پر قبضہ کر لیا۔ اب قسطنطنیہ بالکل روسی افواج کے سامنے تھا۔ لیکن وہ صہیونی سرمایہ دار جنہوں نے یہ ساری جنگ مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کو توڑنے، عرب ممالک میں نو دریافت تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے اور یروشلم میں یہودی سلطنت کے قیام کیلئے شروع کی تھی، ان کیلئے زارِ روس اور آرتھوڈوکس چرچ کا آگے بڑھنا بہت بڑی رکاوٹ تھی۔
روس میں یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد بختِ نصر کے زمانے سے موجود تھی۔ انہیں 26 اگست 1827ء کے ایک فرمان کے مطابق زبردستی فوج میں بھرتی کیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے یہ یہودی، روسی زبان اور کلچر سیکھ کر روسی قومیت کا حصہ بن چکے تھے۔ لیکن الیگزینڈر دوم جسے زارِ آزادی والا (Liberator) کہا جاتا ہے، اس نے کھیتوں میں کام کرنے والے غلاموں کو تو آزادی بخشی مگر اس نے پادریوں کے کہنے پر یہودیوں پر نئی پابندیاں عائد کیں۔ یہ کسی عیسائی کو ملازم نہیں رکھ سکتے تھے، زمین نہیں خرید سکتے تھے اور اپنے گائوں سے باہر سفر نہیں کر سکتے تھے۔
الیگزینڈر سوئم کے آتے آتے یہ پابندیاں مزید سخت ہو گئیں۔ انہیں عرفِ عام میں "مسیح کے قاتل" (Christ Killer) کہا جاتا۔ انہیں الیگزینڈر دوم کے قتل کا ذمہ دار قرار دے کر، یوکرین میں ان کے 166 گائوں نذرِ آتش کر دیئے گئے۔ روسی افواج کی ایک کانفرنس 15 مئی 1882ء کو بلائی گئی جس نے مزید سخت قوانین منظور کئے جنہیں مئی لاز (May Laws) کہا جاتا ہے۔
ماسکو اور کیو جیسے شہروں سے یہودیوں کو نکال دیا گیا، ان کے معبد خانے بند کر دیئے گئے، ان پر تعلیمی اداروں میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا اور انہیں 1892ء کے الیکشنوں میں ووٹ کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا۔ یہودیوں کی بڑی آبادی یوکرین میں تھی، جہاں 1903ء سے 1906ء تک ان پر بیشمار مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اس کے بعد سے ہی انہوں نے روس سے ہجرت شروع کی۔ لیکن جو یہودی وہاں رہ گئے، انہوں نے اپنی پہچان چھپائی اور وقت گزارنے لگے۔
یہودیوں کے نزدیک ان کا سب سے بڑا دُشمن زارِ روس اور اس کا آرتھوڈوکس چرچ تھا۔ ایک بگڑے ہوئے یہودی کارل مارکس کے کیمونسٹ مینی فیسٹو سے لگائی گئی چنگاری انہی یہودیوں کی مدد سے پورے روس میں آگ بن چکی تھی۔ جیسے ہی روس یوکرین پر قابض ہوا اور وعدے کے مطابق قسطنطنیہ اس کے حوالے کرنے کا وقت آیا، تو روس میں چاروں جانب کیمونسٹ بالشویک انقلاب کی کارروائیاں تیز ہو گئیں۔ زارِ روس کی فوجیں شہر در شہر شکست کھانے لگیں اور جو یہودی روسی فوج میں موجود تھے انہوں نے اپنی سازشوں، اتحادی افواج کی مدد اور مقامی یہودیوں کی سازش سے زارِ روس کی افواج کو شکست دلوا کر 17 اکتوبر 1917ء کو لینن کی سربراہی میں کیمونسٹ انقلاب برپا کر دیا۔
روس اب "سوویت یونین" ہو گیا اور اس نے اس عالمی جنگ کو استعماری جنگ قرار دے کر اس سے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی مذہب کو افیون قرار دے کر پورے روس میں آرتھوڈوکس چرچوں اور مسلمانوں کی مساجد دونوں پر تالے لگا دیئے۔ اب یہودیوں نے اپنے ایک فرزند کمال اتاترک کے ذریعے "ینگ ترک تحریک" شروع کروائی۔ اتاترک "دومینہ" سے تعلق رکھتا تھا، یعنی وہ یہودی جو سپین سے ہجرت کر کے خلافتِ عثمانیہ میں آئے تھے اور مسلمان کا روپ دھار کر زندگی گزار رہے تھے۔
کمال کی بات ہے کہ وہ اتحادی افواج جو فتح مند تھیں، اتاترک سے آسانی سے شکست کھا جاتی ہیں اور پھر اس کے ذریعے نہ صرف خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کا خواب پورا کیا جاتا ہے بلکہ پورے ترکی کو سیکولر، لبرل ملک میں بدل دیا جاتا ہے۔ روس کے کیمونزم سے جب مقاصد حاصل کر لئے گئے تو پچھہتر سال بعد 1992ء میں اس کے حصے بخرے کر دیئے گئے، اور ترکی کے سیکولر ازم سے بھی جو کام لینا تھا وہ لے لیا، اب وہاں پر بھی ایک ایسے اسلام کی آبیاری کی گئی جو مرنجا مرنج اور مغرب کیلئے قابلِ قبول تھا اور اس کی روح میں ترک نیشنلزم چھپا ہوا تھا۔
آج تیس سال کے بعد جنگ کا میدان دوبارہ گرم کیا جا چکا ہے۔ جون 2019ء میں پینٹاگون نے جو اپنی نئی حکمتِ عملی (Strategy) جاری کی ہے، اس میں روس کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ ایک "دوبارہ قوت بحال کرنے والا کینسر زدہ کردار" (Revitalized Malign Actor) ہے۔ حکمتِ عملی کہتی ہے کہ اگرچہ مغربی دُنیا نے روس پر بے شمار پابندیاں لگائیں، جن سے روس کی معاشی ترقی رُک گئی، لیکن اس نے اپنی افواج اور دفاعی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کا عمل جاری رکھا، اور اب روس پورے خطے میں ایک خطرہ بن چکا ہے۔ اب مغربی ممالک اور صہیونی سازشی قوتوں نے سازش شروع کی۔
مقبولِ عام یورش (Popular Uprising) کے ذریعے 2014ء میں یوکرین کی منتخب حکومت ختم کروائی گئی اور پھر وہاں پر قابض ایک غیر منتخب حکومت کو یورپ اور امریکہ نے تسلیم کر لیا۔ پیوٹن کی حکومت سیخ پا ہوئی اور روس کی افواج نے یوکرین کے پڑوس کے علاقے کریمیا پر قبضہ کر لیا۔ کریمیا کی آبادی کی اکثریت روسی نژاد ہے۔ پیوٹن نے وہاں ریفرنڈم کروایا کہ جس میں 83.1 فیصد عوام نے ووٹ ڈالے اور 96.1 فیصد نے کریمیا کو واپس روس کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دیا۔
"عالمی سازشی" میدان میں اُترے اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دے دیا، مگر پیوٹن نے ایک معاہدے کے تحت کریمیا کو روس میں شامل کرنے کا اعلان کیا۔ اب میدانِ جنگ سج چکا تھا اور وہ جو مدتوں سے اس خطے میں جنگ کے بادل دیکھنے کی خواہش کرتے تھے ان کے خواب پورے ہونے والے تھے۔
حالات دن بدن تلخ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ روس نے اپنی افواج کی بہت بڑی تعداد کریمیا میں جمع کر دی ہے۔ سرحدوں پر تلخی بڑھ چکی ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک دن پہلے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل کرنا چاہتے ہیں اور اس کا فیصلہ اب یوکرین کے "کٹھ پُتلی" صدر ولادی میر زیلنسکی کے ہاتھ میں ہے کہ کب اعلان کرے۔ یہ معاملہ بہت عرصے سے چل رہا تھا اور روس نے کہہ رکھا تھا کہ اگر یوکرین کو نیٹو میں شامل کیا گیا تو پھر جنگ کا آغاز ہو گا۔ کیونکہ اس صورت میں نیٹو اپنے تمام ہتھیار، میزائل وہاں نصب کر دے گا جن میں ایٹمی ہتھیار بھی شامل ہوں گے۔ ایسی صورت میں روس بحیثیت ایک بحری قوت دُنیا کے نقشے سے غائب ہو جائے گا۔ کیا روس یہ مرحلہ آنے دے گا۔ یقیناً نہیں۔ وہ ایک بڑی جنگ میں کُود جائے گا۔
منصوبہ بندی یہ ہے کہ ایسی جنگ چھیڑی جائے جس کا ایک سرا آسٹریلیا سے شروع ہو اور دوسرا سرا برطانیہ تک جا پہنچے۔ پینٹاگون کی حکمتِ عملی میں اس میدانِ جنگ کی مکمل وضاحت موجود ہے۔ یہ ہرگز سرد جنگ نہیں ہو گی بلکہ عالمی جنگ ہو گی۔ عمران خان کی خام خیالی ہے کہ یہ سرد جنگ ہی رہے گی۔ پاکستان اپنے جغرافیے کا ایسا قیدی ہے کہ وہ کسی طور پر آزاد رہ ہی نہیں سکے گا۔ اسے کسی ایک جانب کا ہونا پڑے گا اور اب فیصلے میں وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ (ختم شد)