میمو گیٹ سکینڈل کیس سپریم کورٹ کی تاریخ کا ایسا کیس تھا جس کے مدعیان میں حکومت نہیں بلکہ اہم سیاسی رہنما، نواز شریف، اسحاق ڈار، اقبال ظفر جھگڑا، جنرل عبدالقادر بلوچ اور غوث علی شاہ شامل تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ میں میمو گیٹ کی صورت ایک ایسا ہتھیار آ چکا تھا جس کے ذریعے وہ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری کی سیاسی دُکان بند کروانا چاہتے تھے۔
چند سال پہلے ہونے والا "میثاقِ جمہوریت" دفن ہو چکا تھا۔ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ تین ہائی کورٹوں کے چیف جسٹس صاحبان، جسٹس مشیر عالم (سندھ)، جسٹس اقبال حمید الرحمن (اسلام آباد) اور جسٹس فائز عیسیٰ (بلوچستان) پر مشتمل آرٹیکل 187 کے تحت حاصل کردہ اختیارات کے تحت ایک انکوائری کمیشن مقرر کیا گیا۔
پاکستانی نظامِ عدل میں عدالتوں کو ایسی تفتیش کا عمومی اختیار حاصل نہیں ہے۔ کیس کی اہمیت کے پیشِ نظر پاکستان میں پہلی دفعہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 187 کا اختیار استعمال کیا جس کے مطابق وہ ایک قانونی عدالت (Court of Law) کی بجائے حتمی انصاف فراہم کرنے والی عدالت (Court of Justice) میں ڈھل گئی۔ انکوائری کمیشن نے پانچ سربمہر لفافوں میں ایک خفیہ رپورٹ عدالت کے حوالے کر دی۔
سپریم کورٹ کے نو ججوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں فیصلہ دیا کہ (1) امریکی چیف آف جائنٹ سٹاف کو لکھا جانے والا میمو اصلی ہے اور اسے حسین حقانی نے تحریر کیا ہے، (2) حسین حقانی نے امریکہ کو جس مجوزہ سیاسی حکومت کی خدمات پیش کی ہیں، اس کے نتیجے میں پاکستان کی سکیورٹی اور ایٹمی اثاثوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور یہ غداری (Disloyalty) ہے، (3) میمو کا مقصد امریکہ کو یقین دلانا تھا کہ سول حکومت امریکہ کی وفادار ہے۔
عدالت نے کہا کہ ان تمام الزامات کا جواب حسین حقانی کو دینا چاہئے جسے 31 جنوری 2012ء کو اس وعدے پر ملک سے جانے دیا گیا کہ اسے جب عدالت طلب کرے گی وہ چار دن کے اندر حاضر ہو جائے گا۔ جب تک حسین حقانی حاضر نہیں ہوتا انکوائری کے سربمہر لفافے محفوظ تحویل میں رکھے جائیں۔ سپریم کورٹ نے یہ حکم نامہ 12 جون 2012ء کو جاری کیا۔ آج اسے جاری ہوئے تقریباً دس سال ہو چکے ہیں۔
مقدمے کے تمام کردار جن میں آصف علی زرداری بھی شامل ہیں، اس ملک کی سیاسی زندگی پر آج بھی جلوہ گر ہیں۔ حسین حقانی ہر دوسرے دن امریکہ میں بیٹھا پاکستان کے خلاف زہر اُگل رہا ہے اور انکوائری رپورٹ پانچ سربمہر لفافوں میں بند پاکستان کی سرزمین سے وفاداری و محبت کے نادر اُصولوں کا منہ چڑا رہی ہے۔
میمو گیٹ سے قبل پاکستان کی عدالتوں میں اسی طرح کے دو مقدمات پیش ہوئے۔ پہلا مقدمہ فوجی عدالت میں پیش کیا گیا۔ یہ "اگرتلہ" سازش کیس کہلاتا ہے۔ یہ مقدمہ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن، احمد فضل الرحمن سمیت تین اہم بیوروکریٹ اور لاتعداد فوج اور فضائیہ کے افسران کے خلاف تھا۔ مقدمے کا خلاصہ یہ تھا کہ "آزادی" کے نام پر مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت کی بھارت سے مل کر منصوبہ بندی کی گئی۔
جنوری 1968ء میں مقدمے کا آغاز ہوا مگر تھوڑے عرصے کے بعد ایوب خان کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں عوامی تحریک کا آغاز ہو گیا۔ ملک کے حالات ایک ایسے مخصوص طریقے سے خراب کر دیئے گئے جیسے سی آئی اے عوامی بیداری (Public Uprising) کے نام پر 1953ء سے دیگر ملکوں میں کرتی چلی آئی تھی۔
نوابزادہ نصر اللہ خاں کی سربراہی میں متحدہ اپوزیشن، ایوب خان سے مذاکرات پر اس شرط پر راضی ہوئی کہ شیخ مجیب الرحمن کو رہا کر دیا جائے اور اگرتلہ سازش کیس واپس لیا جائے۔ دونوں مطالبات مان لئے گئے۔ شیخ مجیب الرحمن رہا ہوا، ایوب رخصت ہوا، مجیب نے الیکشن لڑا اور پھر بھارت کی مدد سے پاکستان دولخت ہو گیا۔
پوری متحدہ اپوزیشن اس وقت یہی کہہ رہی تھی کہ یہ ایک سیاسی کیس ہے جو ایوب خان نے بنایا ہے۔ لیکن ان سیاست دانوں کے موقف پر کالک اس وقت مَلی گئی جب 22 فروری 2011ء کو اگرتلہ سازش کیس کے ایک مجرم شوکت علی نے 43 سال بعد بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہا کہ "اگرتلہ سازش کیس بالکل درست تھا اور ہم نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان سے بغاوت کا منصوبہ بنایا تھا"۔
دوسرا کیس نیشنل عوامی پارٹی سے متعلق تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب اپنی سیاسی اَنا کی تسکین کے لئے بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو 13 فروری 1973ء کو برطرف کیا تو صوبہ سرحد میں قائم نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔
بلوچستان حکومت کی برطرفی سے 18 دن پہلے 31 جنوری 1973ء کو موچی گیٹ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواب اکبر بگٹی نے انکشاف کیا کہ لندن میں ولی خان اور عطاء اللہ مینگل نے اسے بتایا تھا کہ وہ بلوچستان کی آزادی کے لئے غیر ملکی طاقتوں سے مل کر ایک منصوبہ بنا چکے ہیں۔ اس کے فوراً بعد اسلام آباد میں عراق کے سفارت خانے پر چھاپہ مار کر وہاں سے اسلحہ برآمد کیا گیا اور بلوچستان حکومت ختم کر دی گئی۔ ملک کی سیاست میں خاصی تلخی پیدا ہو گئی۔ کچھ نیب قیادت گرفتار ہوئی باقی کارکنوں سمیت افغانستان بھاگ گئے۔
8 فروری 1975ء کو پشاور میں حیات محمد خان شیر پائو ایک بم دھماکے میں ہلاک کر دیئے گئے۔ سانحے کے فوراً بعد بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف بغاوت کا ایک کیس تیار کیا جس میں بتایا گیا کہ اندرا گاندھی نے اپنے ایک نمائندے کے ذریعے ولی خان اور اس کے ساتھیوں کو دو کروڑ روپے بھیجے تھے تاکہ ملک میں بغاوت کروائی جائے۔
حکومت نے جسٹس اسلم ریاض حسین اور جسٹس مشتاق علی قاضی پر مشتمل ایک ٹربیونل تشکیل دے دیا۔ اسے "حیدر آباد بغاوت کیس" اس لئے کہتے ہیں کیونکہ اس مقدمے کی کارروائی حیدر آباد جیل میں ہوتی تھی۔ اپوزیشن اس مقدمے کو بھٹو کا ایک سیاسی ڈرامہ قرار دیتی تھی اور حکومت یہ الزامات لگاتی تھی کہ "نیپ" کے کارکنان افغانستان میں بیٹھ کر بھارت کی مدد سے پاکستان میں تخریب کاری کرتے ہیں۔
شیر پائو کے قتل کے بعد بھٹو حکومت نے "نیپ" پر بھی پابندی لگائی اور مقدمہ سپریم کورٹ میں لے گیا۔ طویل بحث کے بعد 30 اکتوبر 1975ء کو سپریم کورٹ نے نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دے دیا۔ ضیاء الحق نے 6 جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگایا تو اپوزیشن کی خواہش کے مطابق فوراً حیدر آباد سازش کیس واپس لے لیا، تمام "باغیوں " کو رہا کر دیا اور افغانستان میں موجود تمام بلوچ پشتون تخریب کاروں کے لئے معافی کا اعلان کر دیا۔
اس کیس کے بھی اہم کردار جمعہ خان صوفی نے جو افغانستان فرار ہو گیا تھا، اگرتلہ سازش کیس کی طرح اپنی کتاب "فریبِ ناتمام" میں سب کچھ کھول کر رکھ دیا کہ کیسے افغانستان میں بھارتی سفیر "نیپ" کے لیڈروں سے ملتا تھا، رقم فراہم کرتا تھا اور ہدایات دیتا تھا کہ کیسے اور کہاں تخریب کاری کرنا ہے۔
عمران خان نے جو خط پہلے اسلام آباد میں لہرایا، پھر اس پر نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے بھر پور ردّعمل دیا اور اسی خط کی بنیاد پر سپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے عدمِ اعتماد پر ووٹنگ ختم کر دی، امریکہ سے ایسے خط پاکستان کو اکثر موصول ہوتے رہے ہیں، لیکن یہ پہلی دفعہ ہے کہ عمران خان اسے پہلے عوامی عدالت اور پھر پارلیمنٹ میں لے گئے اور اب اس کی گونج سپریم کورٹ میں سنائی دے رہی ہے۔
اس سے پہلے کہ اس خط پر عدالت کی بحث کا آغاز ہوتا، یہ خط تین عالمی طاقتوں میں مناقشت کا موضوع بن چکا ہے۔ روس کے دفتر خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروا (Maria Zakharova) نے اس پر اظہار کرتے ہوئے کہا ہے، امریکہ نے عمران خان کو "حکم عدولی" کی سزا کے طور پر حکومت سے اُتارنے کی سازش کی ہے۔
یہ امریکہ کی ایک آزاد ملک کے معاملات میں شرمناک (Shameless) مداخلت ہے جو اس نے اپنے خود غرضانہ (selfish) مقاصد کی تکمیل کے لئے کی ہے۔ ایسا ہی ردّعمل چین کی طرف سے بھی آیا ہے۔ اس سے پہلے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں گونجتا، یہ تین عالمی طاقتوں کے درمیان سفارتی لڑائی کا میدان بن چکا ہے۔ اس عالمی کشمکش کے تناظر میں جس دن سپریم کورٹ میں اس پر بحث شروع ہوئی تو پھر ہاتھیوں کی لڑائی میں لاتعداد مینڈک کچلے جائیں گے۔ (ختم شد)