آج سے ٹھیک تینتیس سال قبل میری عدالت میں سابقہ اٹارنی جنرل اور پیپلز پارٹی کے رہنما یحییٰ بختیار صاحب نے میر خلیل الرحمن، بانی "جنگ" اخبار، لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت علی اور "مون ڈائجسٹ" کے ایڈیٹر ادیب جاودانی کے خلاف ہتکِ عزت کا مقدمہ دائر کر رکھا تھا۔ انہوں نے یہ مقدمہ ہرجانے کی طلب کیلئے نہیں، بلکہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 500، 501 اور 502 کے تحت درج کروایا تھا، جس میں ہتکِ عزت کی سزا دو سال قید ہے۔
مقدمہ سپریم کورٹ سے واپس گھومتا ہوا دوبارہ میری عدالت میں آیا تھا کہ اس پر پہلا فیصلہ بنیادی عدالت یعنی سب ڈویژنل مجسٹریٹ کوئٹہ ہی کرے گی۔ مقدمہ دراصل جسٹس صاحب کے ایک انٹرویو کی وجہ سے قائم ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "بھٹو کو اس کے وکیلوں نے مروا دیا"۔ یوں تو یہ انٹرویو "جنگ" اخبار میں چھپا تھا، لیکن ہمارے مرحوم دوست ادیب جاودانی نے "شوقِ خود کشی" میں اپنے رسالے "مون ڈائجسٹ" میں بھی اسے چھاپ دیا تھا اور وہ بھی ان دو بڑوں کی ہمرکابی میں کوئٹہ کی پیشیاں بھگت رہے تھے۔ مقدمے کے ساتھ یحییٰ بختیار صاحب نے 29 صفحات پر مشتمل ذوالفقار علی بھٹو کی ایک تحریر بھی جمع کروائی تھی جس کا عنوان تھا "Rope Round Yahya Bakhtiar" (پھندا یحییٰ بختیار کے گرد)۔
یہ تحریر بھٹو نے اپنی پھانسی سے چند دن قبل تحریر کی تھی۔ اسی لئے اس میں بار بار کتربیونت کا عمل نظر آتا تھا، ایسے لگتا تھا جیسے بھٹو صاحب اس دوران انتہائی پریشانی کے عالم سے گزر رہے تھے۔ جب کبھی پیشی کا دن ہوتا، پورے کوئٹہ میں ایک میلے کا سا سماں ہوتا۔ چھوٹے سے شہر میں ہر کوئی اس دلچسپ مقدمے کی کارروائی براہِ راست سننے کیلئے کشاں کشاں عدالت کی طرف آ نکلتا۔ کارروائی کے دوران جب یحییٰ بختیار صاحب کے بیان کا مرحلہ آیا تو جسٹس شوکت علی نے ایک درخواست جمع کروائی کہ وہ خود براہِ راست یحییٰ بختیار صاحب پر جرح کریں گے۔
یحییٰ بختیار صاحب نے اس کے جواب میں پریوی کونسل، سپریم کورٹ اور دیگر ملکوں کی عدالتوں کے فیصلے پیش کئے اور ثابت کیا کہ اگر جسٹس صاحب عدالت میں مجھ سے براہِ راست سوال یا جرح کریں گے تو پھر وہ عدالت میں بذریعہ وکیل پیش ہونے کا استحقاق کھو دیں گے۔ جسٹس صاحب بڑے اہتمام سے عدالت آیا کرتے تھے۔ ایک دن پہلے ان کا سٹاف آ کر ان کی رہائش وغیرہ کا بندوبست کرتا، وکیل آتے اور یوں عدالت کے روبرو پیش ہوتے۔ اس کروّفر اور اہتمام کے عادی جسٹس صاحب نے فوراً اصالتاً بحث سے انکار کر دیا اور وکیل کی سہولت پر انحصار کیا۔
پاکستان کا عدالتی نظام ہر شہری کو بذریعہ وکیل عدالت کا سامنا کرنے کا حق دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دُنیا بھر میں قانون اور اس سے متعلقہ علم اس قدر وسیع اور پیچیدہ ہو چکا ہے کہ اگر کوئی عام شخص کسی ماہر کی خدمات حاصل نہ کرے تو یہ خطرہ بہت حد تک بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنا مقدمہ محض قانونی موشگافیوں کی وجہ سے ہار جائے گا۔ یہ تو ایک عام شہری کی بات ہے۔ سرکار میں دن رات کام کرنے والے ملازمین کیلئے بھی وکلاء کا خصوصی بندوبست کیا گیا ہے۔ اسی لئے پاکستان کا تمام انتظامی ڈھانچہ، مرکز میں اٹارنی جنرل اور صوبوں میں ایڈووکیٹ جنرل اور ان کے سٹاف کے ذریعے عدالتوں میں پیش ہوتا ہے۔
اہلکاروں کے براہِ راست پیش ہونے میں وہی خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں مقابل کا کایاں اور ماہر وکیل کسی سرکاری آفیسر، معمولی اہل کار حتیٰ کہ انتظامی اور سیاسی سربراہ کو قانون کی بھول بھلیوں میں اُلجھا کر عدالت سے حقائق کے منافی فیصلہ حاصل نہ کر لے۔ اسی صورتحال کو پیشِ نظر رکھ کر آئینِ پاکستان میں آرٹیکل 248 شامل کیا گیا، جو صدر، گورنر، وزیر اعظم، وفاقی وزرائ، وزرائے اعلیٰ اور صوبائی وزراء کو اپنے سرکاری معاملات اور فرائض کی بجاآوری کے سلسلہ میں عدالت کے سامنے پیش ہونے سے استثنیٰ دیتا ہے۔ ان کے ان اقدامات کے دفاع کیلئے پورے ملک میں اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرلز کا وسیع عملہ موجود ہے جو ایک معمولی پٹواری، تھانیدار سے لے کر وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے اُٹھائے گئے اقدامات کا عدالت میں دفاع کرتا ہے اور وضاحت پیش کرتا ہے۔
کل جب وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب اپنا یہ استحقاق پسِ پشت ڈال کر عدالتِ عظمیٰ کے سامنے ان کے بلانے پر رضا کارانہ طور پر پیش ہو گئے۔ لگتا یوں ہے کہ موجودہ اٹارنی جنرل عدالت کو یہ قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ وہ وزیر اعظم ہی کی ترجمانی اور نمائندگی کرنے کیلئے یہاں کھڑے ہیں۔ یہ بھی لگتا ہے کہ عدالت نے انہیں محض "تسکینِ نظر" کیلئے بلایا تھا۔ وزیر اعظم کے خود پیش ہونے سے کوئی فرق تو نہیں پڑا لیکن یہ عدالتی نظام کی روح کے خلاف ہے اس سے یہ مطلب نکلتا ہے۔
چونکہ معزز وزیر اعظم عمران خان صاحب اب خود اصالتاً عدالت کے سامنے پیش ہو چکے ہیں اور وہ اپنے فرائض منصبی کے حوالے سے اپنا دفاع بھی خود کر رہے ہیں، تو یحییٰ بختیار والے کیس کے باوصف وہ قانونی طور پر اب بذریعہ اٹارنی جنرل پاکستان، عدالت میں نمائندگی کا حق کھو چکے ہیں۔ ایسا ہے تو پھر آج سے اٹارنی جنرل آف پاکستان کے دفاتر کو بند کیا جانا چاہیے اور اسکے ماتحت تمام وکیل جو اس ملک کے خزانے پر کروڑوں روپے ماہانہ کا بوجھ ہیں، انہیں فارغ کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی یہ حکم بھی سنایا جا سکتا تھا کہ جس ملک کا وزیر اعظم عدالت میں خود پیش ہو کر اپنے افعال کا دفاع کر سکتا ہے، اس کے گورنروں، وزرائے اعلیٰ، وزیروں، سیکرٹریوں، ڈائریکٹروں، آئی جی حضرات اور دیگر تمام سرکاری اہلکاروں کو بھی اس "عظیم" مثال کی پیروی کرنا چاہئے اور انہیں بھی آئندہ سے اصالتاً پیش ہونا چاہئے۔
اس مثال کو قائم کرنے کیلئے آج کے بعد سے صوبوں میں قائم تمام ایڈووکیٹ جنرلز کے دفاتر بھی بند کئے جاتے ہیں اور پراسیکیوشن کے صوبائی محکمے بھی مکمل طور پر ختم کئے جاتے ہیں۔ تھانے کا تفتیشی، ایف آئی اے کا ڈائریکٹر یا دیگر اہلکار خود اپنی کارگزاری کا عدالتوں میں دفاع کریں۔ وکیلوں کے ذریعے پیش ہونے والی عیاشی ختم ہونی چاہئے۔ اگر یہ سب ہو جاتا ہے تو پھر یہ لازم ہو جاتا ہے کہ عام آدمی بھی اپنے مقدموں کا خود دفاع کرے، کیونکہ اگر عام آدمی کی جانب سے وکیلوں کی فوجِ ظفر موج پیش ہو رہی ہو اور دوسری جانب سے ایک نہتا سرکاری آفیسر، اہلکار اور وزیر یہاں تک کہ وزیر اعظم پیش ہو رہا ہو تو پھر انصاف ناممکن ہے۔ مورخہ 11 نومبر 2021ء وزیر اعظم کے عدالت میں اصالتاً پیش ہونے کے بعد نہ تو عدالتی نظام میں کوئی فرق پڑا اور نہ ہی انصاف کی فراہمی تیز ہوئی۔ بس عدالت کے درو دیوار نے "محبوب وزیر اعظم " کو دیکھ لیا۔
سرکاری اہلکاروں، وزرائ، وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم کو ذاتی حیثیت سے عدالت میں طلب کرنے کا فیشن چند سالوں سے شروع ہوا ہے۔ یہ منظر سب سے پہلے بلوچستان ہائی کورٹ میں جسٹس افتخار محمد چوہدری اور لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس خلیل رمدے کی عدالتوں میں نظر آنا شروع ہوا۔ کیا زبردست سین ہوتا، پولیس والا، ایف آئی اے والا اور واپڈا والاسہما ہوا عدالت کے روبرو تماشہ بنا ہوتا اور لوگ جج صاحب کی جرأت پر داد دیتے۔ اسکے بعد یہ پولیس عام آدمی کے سامنے اپنی عزت بچائے پھرے گی۔
عدالتوں میں اصالتاً بلانے پریہ مثال یہ دی جاتی ہے کہ حضرت علیؓ اور حضرت عمرؓ بھی تو عدالت میں پیش ہوتے تھے۔ ان سب سے پلٹ کر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ خلفائے راشدہ کے دَور میں وکلاء کی کونسی فوجِ ظفر موج تھی جو موکلوں کا دفاع کرتی پھرتی تھی۔ آپ کے عدالتی نظام کا سارا ڈھانچہ طاغوت کے اینگلو سکین قانون پر مبنی ہے اور آپ مثالیں اسلام کے عادلانہ نظام کی دیتے ہیں۔ آپ اپنا "شوقِ خود نمائی" پورا کریں اور "تسکینِ نظر" کیلئے اپنے روبرو جس کو چاہے بلا لیں۔ اس سے ملک میں کچھ فرق نہیں پڑیگا۔