Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Corona Ka Phir Rona

Corona Ka Phir Rona

جب حکومت نے کہا کہ کورونا کی تیسری لہر تیزی سے جاری ہے تو ہم سمجھے کہ یہ محض ایک ڈرامہ ہے جو 26 مارچ کو پی ڈی ایم کے مجوزہ لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے لیے رچایا گیا ہے لیکن پی ڈی ایم تو آصف زرداری ڈکار چکے۔ لوگ کہتے ہیں کہ زرداری صاحب نے میاں نوازشریف سے 16 جون 2015ء کا بدلہ لیا ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جب تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق زرداری صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کی "اینٹ سے اینٹ بجانے" کی دھمکی دی اور میاں صاحب نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے نہ صرف آصف زرداری کے بیان کی مذمت کی بلکہ طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کر دی۔ جس کے بعد آصف زرداری کو لگ بھگ ڈیڑھ سال تک خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔

جب پی ڈی ایم کا غوغا "ٹائیں ٹائیں فش" ہونے کے باوجود کورونا کی تیزی برقرار رہی تو ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ پھر وزیرِاعظم اور خاتونِ اوّل کورونا میں مبتلا ہوئے تو ہم خوفزدہ ہوگئے کہ جب کورونا پر "پیرنی" کی پھونکوں کا کچھ اثر نہیں ہوا تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ اِس لیے ہم نے سوچا، اِس سے پہلے کہ ہماری جانِ عزیز بحقِ کورونا ضبط ہو جائے، احتیاطی تدابیر ضروری۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے وہ تدابیر بھی اختیار کر لیں جن کی ڈبلیو ایچ او نے ہدایت کی نہ کسی ڈاکٹر نے۔ آجکل ہم گھر میں بھی ماسک لگائے پھرتے ہیں جس پر پروفیسر صاحب بہت چڑتے ہیں۔ ہم نے تو اُنہیں بھی ماسک "اوڑھانے" کی بھرپور کوشش کی لیکن اُن کا ہائی ہوتا پارہ دیکھ کر چپ ہو رہے البتہ جب اُنہوں نے ہمارا ماسک اتارنے کے لیے دباؤ ڈالا تو ہم نے صاف کہہ دیا "ہمارا مُنہ، ہماری مرضی"۔

بھئی! جان ہے تو جہان ہے اور ہماری جان کی کم از کم حکومت کو تو کوئی پرواہ نہیں۔ اگر پرواہ ہوتی تو گزرے سال میں لفظی بازی گری کے بجائے کچھ عمل بھی کرکے دکھایا ہوتا۔ ہماری عادتِ ثانیہ بن چکی کہ قرض کی مے پیتے ہیں یا پھر خیرات کے لیے جھولی پھیلاتے ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن دو تین ممالک میں ہوتا ہے جہاں ویکسین کا آغاز سب سے آخر میں ہوا۔ اِس میں شاید حکومت کا بھی قصور نہیں کہ وہ تو حسبِ سابق خیرات کے انتظار میں رہی اور جونہی چین سے خیرات ملی این سی او سی نے ویکسین کا استعمال شروع کرا دیا۔ لیکن این سی او سی کی بدانتظامی کی انتہا یہ کہ اب ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کے لیے ویکسین دستیاب نہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی کورونا ویکسین کے لیے 1166 پررجسٹریشن روک دی گئی ہے۔ چین سے ملنے والی خیرات کے علاوہ ڈبلی ایچ او کے پروگرام کے تحت آسٹرازینکا ویکسین بھی پاکستان آرہی ہے جس کے بارے میں پہلے اسد عمر کی جانب سے تاثر دیا گیا کہ حکومت اِس ویکسین کی خریداری کر رہی ہے لیکن جب برطانیہ کے ایک آفیسر نے ٹویٹ کیا کہ اِس ویکسین کی قیمت حکومتِ برطانیہ ادا کر رہی ہے تو ہمارے حکومتی تاثر کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا۔ اب قوم انتظار میں ہے کہ کب ویکسین آئے اور اِس وبا سے جان چھوٹے۔ ابھی تک تو 65 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو ہی ویکسین لگائی جارہی ہے لیکن وہ بھی "ٹاواں ٹاواں " کیونکہ حکومت خیرات کے انتظار میں رہتی ہے۔ اب حکومت نے پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے لیکن اُس کی قیمت 8500 روپے مقرر کی ہے۔ بھلا مہنگائی کے مارے غریب عوام میں اتنی سکت کہاں۔ عالمی مارکیٹ میں ویکسین کی قیمت 20 ڈالر یعنی لگ بھگ 3000 روپے بنتی ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی پرائیویٹ کمپنیاں اتنی ہی قیمت وصول کر رہی ہیں جبکہ غریبوں کی ہمدرد تبدیلی سرکار نے اپنی "محبوب کمپنی" کو تین گنا قیمت پر ویکسین لگانے کی اجازت دی ہے۔ طُرفہ تماشا یہ کہ کمپنی اب بھی نخرے دکھاتے ہوئے دھمکی دے رہی ہے کہ اگر حکومت نے ویکسین کی قیمت نہ بڑھائی تو وہ روسی ویکسین واپس کر دے گی۔

بین الاقوامی سرویز کے مطابق کورونا کی تیسری لہر انتہائی خطرناک ہے لیکن ہماری حکومت معجزات کے انتظار میں ہے۔ ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا حکومت اب تک کبھی سمارٹ لاک ڈاؤن اور کبھی لاک ڈاؤن جیسے ڈرامے کھیلتی رہتی ہے۔ حقیقت یہ کہ لاک ڈاؤن ہو یا سمارٹ لاک ڈاؤن، عوام اِس کی پرواہ نہیں کرتے۔ کریں بھی تو کیسے کہ حکمرانوں کو "رونمائی" کا شوق ہی بہت ہے۔ وزیرِاعظم، وزراء، مشیر اور دیگر عمائدینِ حکومت بغیر ماسک کے ٹی وی سکرینوں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ ایسے میں بھلا اِس وبا کا کون یقین کرے گا۔ چند دن پہلے وزیرِاعظم اور اُن کی اہلیہ کورونا میں مبتلاء ہوئے تو پوری قوم نے اُن کے لیے دعائیں کی لیکن حیرت تو اُس وقت ہوئی جب وزیرِاعظم 25 مارچ کو قرنطینہ سے نکل کرمیڈیا اجلاس کی صدارت کرتے پائے گئے۔ وزیرِاطلاعات شبلی فراز نے اِس اجلاس کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی جس پر کڑی تنقید ہوئی۔ ٹویٹر پر ایک صارف نے لکھا"عوام کو بھاشن دینے والے خود کورونا کو کتنا سیریس لیتے ہیں، اِس تصویر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے"۔ ایک اور صارف نے لکھا "جناب پریڈ میں تو نہیں گئے کہ کورونا ہے لیکن اپوزیشن کو دبوچنے کے لیے اجلاس بلا لیا"۔

نیب نے مریم نواز کی 26 مارچ کو ہونے والی پیشی ملتوی کر دی ہے۔ نیب اعلامیے کے مطابق یہ پیشی ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر کے حوالے سے این سی او سی کی ہدایت پر ملتوی کی گئی۔ حقیقت مگر یہ کہ نیب نے پہلے لاہور نیب آفس کو ریڈ زون قرار دلوایا۔ پھر وہ پورا ایریا رینجرز کے سپرد کیا اور آخر میں لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی کہ مریم نواز کو ہجوم کے ساتھ نیب لاہور آنے سے روکا جائے لیکن جب ہائیکورٹ سے مُنہ کی کھائی تو "چاروں شانے چِت" ہوتی نیب نے 26 مارچ کی پیشی ہی ملتوی کر دی۔ اِس پورے ڈرامے سے کم ازکم یہ تو ثابت ہو گیا کہ "ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے"۔ اگر کورونا کی بنا پر پیشی ملتوی کرنا ہوتی تو کئی دن پہلے کی جا چکی ہوتی کیونکہ کورونا کی تیسری لہر تو پچھلے کئی دنوں سے جاری ہے۔ مریم نواز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا "میں نیب کے لیے آسان شکار نہیں بنوں گی۔ نیب کے پیچھے اصل چہرہ عمران خاں کا ہے۔ جب جب نیب کا مالک عمران خاں مشکل میں آتا ہے، نیب مدد کو پہنچتا ہے"۔ میڈیا اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیرِاعظم کی وائرل ہونے والی تصویر کے بارے میں مریم نواز نے کہا کہ عمران خان نے کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کی ہے اِس لیے اُس کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جب وزیرِاعظم ایس او پیز کی خلاف ورزی کرے گا تو عوام سے پابندی کی توقع عبث۔ کورونا ایس او پیز پر این سی او سی نے جو ہدایات جاری کی ہیں وہ حیران کُن۔ سرکاری ہسپتالوں کے آئی سی یو 95 فیصد سے زائد بھر چکے اور ایکٹو کیسز تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں لیکن این سی او سی نے شادیوں پر 300 لوگوں کو اجازت دی ہے۔ ہم، آپ، سبھی جانتے ہیں کہ جب آواز آتی ہے "روٹی کھُل گئی جے" تو سبھی کھانے پر ایسے جھپٹتے ہیں جیسے ہمارے فوجی جوان بھارتی "سورماؤں" پر۔ ایسے میں کہاں کا کورونا اور کیسا کورونا۔ پارک 6 بجے تک عوام کے لیے کھلے ہیں۔ سوال یہ کہ کیا 6 بجے سے پہلے کورونا سویا ہوتا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر تعلیمی ادارے (جہاں کلاس رومز میں طلباء و طالبات کی محدود تعداد ہوتی ہے) بند کرنے کا مقصد؟ شاپنگ مالز ہفتے میں 2 دن بند رکھنے سے دیگر 5 دنوں میں اِن مالز میں عوام کا رَش بڑھ جائے گا۔ ایسی اور بھی کئی حماقتیں ہیں جو این سی او سی نے جاری کی ہیں لیکن اِن بزرجمہروں کو کون سمجھائے۔

آخر میں سٹیٹ بینک کی خودمختاری کا چشم کُشا مسودہ جس میں آئی ایم ایف کے ملازم چیئرمین سٹیٹ بینک ڈاکٹر باقر کے پاس اُتنے ہی اختیارات جتنے کسی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے پاس لیکن تفصیل اگلے کالم میں۔