Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Gaza Koonam Khoon

Gaza Koonam Khoon

دنیا کی 8 ارب آبادی میں 2 ارب سے زائد مسلمان اور 57 اسلامی ممالک جنہیں رَبِ کائنات نے دنیا کی ہر نعمت سے نواز رکھاہے۔ اُدھر ایک کروڑ سے کم آبادی والا اسرائیل جسے ایک سازش کے تحت فلسطین کے 2 ٹکڑے کرکے اُس کا 65 فیصد رقبہ دے دیا گیا جبکہ اُس وقت یہودی 6 فیصد سے بھی کم زمین پر آباد تھے۔ 1947ء میں اقوامِ متحدہ کی ایک قرار داد کے ذریعے اسرائیل کی ریاست کی تشکیل کا اعلان ہوا۔ اُس وقت فلسطین برطانیہ کے زیرِتسلط تھا اِس لیے 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔

رَبِ لَم یزل نے تو 1400 سال پہلے ہی فرقانِ حمید میں فرما دیاتھا "یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم اُن کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایاہے ورنہ اگر اِس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے، تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لیے نہیں ہے" (سورۃ البقرہ آیت 121)۔

رَبِ علیم وخبیر نے تو یہودیوں اور عیسائیوں کی دوستی سے منع فرمایا اور حکم ہوا "اے لوگو! جو ایمان لائے ہو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی اُن کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اُس کا شمار بھی اُنہی میں ہے، یقیناََ اللہ ظالموں کو اپنی رَہنمائی سے محروم کر دیتاہے" (سورۃ المائدہ آیت 51)۔ یہاں مگر صورتِ حال یہ کہ اسلامی ممالک کے سربراہان اہلِ امریکہ ویورپ کی دوستی پر فخر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تائید و نصرتِ رَبی سے محروم ہوکر زمانے میں رُسوا ہوچکے ہیں۔

حیرت ہے کہ بدترین سلوک کے باوجود مسلم ممالک کو ہوش نہیں آیا۔ لیبیا شام کے علاوہ افغانستان اور عراق میں امریکہ اور اُس کے حواریوں کا کردار سب کے سامنے۔ نائن الیون کا بہانہ بناکر افغانستان پر ایسی جنگ مسلط کی گئی جس میں لاکھوں مردوزَن، بوڑھے اور بچے شہید ہوئے۔ ڈیزی کٹر بموں سے افغانستان کے پہاڑوں کو ریگزاروں میں بدل دیا گیا۔ گوانتانامو بے کے قید خانے میں جنگی قیدیوں کے ساتھ وحشت و بربریت کا ننگا ناچ رچایا گیا جس کی داستانیں زباں زَدِ عام ہیں۔ جب اِس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو پلٹ کر عراق پر حملہ آور ہوگیا۔ بہانہ یہ کہ عراق کے پاس کیمیاوی مہلک ہتھیار ہیں جن سے اہلِ یورپ اور امریکہ کو خطرہ ہے۔ پھر عراقی صدر صدام حسین کے حصے میں تختہئ دار آیا اور عراق آگ اور خون میں غرق ہوا۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ بعد میں امریکہ نے خود ہی اقرار کر لیا کہ عراق کے پاس کیمیاوی ہتھیاروں کی اطلاع غلط تھی۔

آج حماس کے خلاف اہلِ یورپ و امریکہ آگ اُگل رہے ہیں۔ وجہ شاید یہ کہ حماس نے ثابت کردیا کہ اسرائیل ناقابلِ تسخیر نہیں۔ حماس نے اسرائیل کی ناک کے عین نیچے وہ کچھ کر دکھایا جس کی توقع امریکہ کو تھی نہ اہلِ یورپ کو۔ اسرائیل تو آج بھی انگشت بدنداں کہ اُس کی ساری انٹیلی جنس کیسے ناکام ہوگئی؟ حماس نے اپنی پلاننگ اُن خفیہ غاروں میں کی جن میں سے ایک اسرائیلی فوج سے محض 650 میٹر دورتھی۔ امریکہ بہادر نے تو حماس حملوں پر نوحہ خوانی کرتے ہوئے اسرائیل کی بھرپور مدد کا اعلان بھی کر دیاہے لیکن سوائے ترکیہ اور ایران کے کسی مسلم حکمران کو اسرائیل کی مذمت کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ دراصل یہ جُرمِ ضعیفی ہے جس کی سزا مرگِ مفاجات ہی ہوتی ہے۔

اللہ نے تو سورۃ الانفال آیت 60 کے مطابق اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا لیکن ہم یہ حکم فراموش کرکے امریکہ جیسے زمینی خُداؤں کے آگ سجدہ ریز ہو گئے۔ نتیجہ سب کے سامنے کہ ایک کروڑ سے کم آبادی والا اسرائیل یہ اعلان کر رہاہے کہ وہ پورے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کرکے ہی دم لے گا۔ غزہ پر میزائیلوں کی بارش سے واقعی وہ کھنڈرات میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ اسرائیل کے میزائیلوں کی بارش کا زیادہ تر نشانہ معصوم بچے اور عورتیں بن رہے ہیں۔ کئی لوگ عمارتوں کے تلے دبے ہوئے امداد کے لیے پُکار رہے ہیں لیکن امدادی کارکُن بھی اسرائیلی حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اب یہودیوں نے غزہ کی بجلی، پانی، انٹرنیٹ اور خوراک کی ترسیل پر پابندی لگا کر کربلا کی یاد تازہ کردی۔

حماس اور حزب اللہ مقدور بھر اِن حملوں کا جواب دے رہے ہیں۔ شاید اُنہیں ازبَر ہو کہ جب غزوہ اُحد میں 71 صحابہ کرام شہید ہوئے تو اللہ کا فرمان آگیا "اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں زیادہ محنت کرو، خوب مستعد رہو اور اللہ پر تقویٰ قائم کرو تاکہ کامیاب ہوسکو" (سورۃ آلعمران آیت 200)۔ حماس اِسی حکمِ ربی کے مطابق ڈَٹ کر میدان میں کھڑی ہے۔ اٰسے نصرتِ ربی کا یقین۔ اِسی لیے جب اسرائیل نے شمالی غزہ کے 11 لاکھ فلسطینیوں کو جنوبی غزہ ہجرت کرنے کا حکم دیا تو حماس نے اعلان کیا کہ کسی کو شمالی غزہ خالی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اسرائیل کا 24 گھنٹوں کا الٹی میٹم گزر چکا لیکن شمالی غزہ کی سڑکوں پر اب بھی فلسطینی موجود ہیں۔

مصر نے فلسطینیوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولنے سے انکار کر دیا جس پر مصر کے علاقے صحرائے سینا سے سینکڑوں افراد کمر پر امدادی سامان لادے غزہ کی طرف رواں دواں ہیں۔ لاریب 2 ارب سے زائد پر مشتمل مسلم اُمہ تو ہر قربانی دینے کو تیار لیکن بدقسمتی سے قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جنہیں مذمتی بیان دینے میں بھی جھجک محسوس ہوتی ہے کیونکہ اُنہیں امریکہ کی ناراضی کسی بھی صورت قبول نہیں۔ اُن کی نظروں کے سامنے 1800 سے زائد فلسطینی مسلمان شہید ہوچکے جن میں 500 سے زائد بچے اور 400 سے زائد خواتین شامل ہیں لیکن مجال ہے جو مسلم حکمرانوں کو اِس کا کچھ احساس وادراک ہوا ہو۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اسلامی ممالک فلسطینیوں کے حق میں کھڑے ہوجائیں تو اہلِ یورپ اور امریکہ بھی اسرائیل کے حق میں کی جانے والی خباثتوں سے باز آجائیں گے اور فلسطینیوں کو اُن کا حق مل جائے گا۔

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے مسلم اُمہ کو پیغام دیتے ہوئے کہا "اے اُمہ مسلمہ کے حکمرانوں اور سپاہیو! تم آج ہمیں اپنا 10 فیصد اسلحہ دے دو اور کل بیت المقدس میں آکر نماز پڑھ لو"۔ دست بستہ عرض ہے کہ اِس جرآت کے لیے جس غیرت وحمیت کی ضرورت ہے وہ ہمارے ہاں مفقود۔ بقول شاعر

حق بات پہ ہے زہر بھرے جام کی تعزیر

اے غیرتِ ایماں لبِ سقراط کہاں ہے

اگر مسلم اُمہ کے حکمرانوں میں حق بات پہ ڈَٹ جانے کا حوصلہ ہوتا تو آج کشمیر کی بیٹی کے سَر پر بھی ردا ہوتی اور فلسطین کے مظلوموں کو بھی اُن کا حق مل جاتا لیکن ہم نے زمینی خُداؤں کو اپنا مسجود بنا لیا ہے۔ ہمارا ایمان کہ ایک مسلمان کی سب سے بڑی دولت نصرتِ رَبی ہے جس سے محض اپنے اعمال کی وجہ سے ہم محروم ہیں اِس لیے غزہ کے مظلوموں کے لیے ہمارے پاس سوائے دعاؤں کے اور کچھ نہیں۔