Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Maarka e Haq O Batil

Maarka e Haq O Batil

آج یومِ عاشورہے، وہ دن جب خانوادۂ رسولﷺ کے پاکیزہ لہو سے کربلا کی ریت سرخ ہوئی ، حق وصداقت کا پرچم بلند ہوا اور اِستقامت وعزیمت کی لازوال داستان رقم ہوئی۔ یہ وہی دن ہے جو اہلِ اسلام کے لیے حق وباطل کے درمیان کسوٹی بن گیا اور طے ہوگیا کہ فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے۔ خون حسین ابنِ علیؓ کا بہالیکن ہزیمت سے دوچار یزید ابنِ معاویہ ہوا۔ جب اہلِ بیت کا لُٹا پُٹا پابہ زنجیر قافلہ یزید کے دربار میں پہنچا تو حضرت زینبؓ نے یزید کو مخاطب کرکے فرمایا "تم اپنے زعم میں سمجھ رہے ہو کہ کامیابی مل گئی اور اہلِ بیت سرنگوں ہوگئے مگر حقیقت میں اہلِ بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ تم اور تمہارے ساتھیوں نے اپنے آپ کو تباہ وبرباد کرلیا"۔ حضرت زینبؓ کے اِن الفاظ کو تاریخ نے سچ کر دکھایا۔ آج حسینؓ کے لہو کی خوشبو سے فضائیں معطرلیکن کربلا کے میدان میں فتح کے جھنڈے گاڑنے والا یزید جیت کر بھی ہارگیا۔ اِسی لیے قتلِ حسین کو مرگِ یزید کہا جاتاہے۔

یہ بچھتی جا رہی ہے ارضِ مقتل کِس کے قدموں میں

ادا کس نے کیا ہے زیرِ خنجر عصر کا سجدہ

وطنِ عزیز میں یومِ عاشور انتہائی عقیدت واحترام سے منایا جاتاہے۔ مجالس کا اہتمام کیا جاتاہے، نوحہ خوانی کی جاتی ہے، ماتم اورزنجیرزنی ہوتی ہے اور کربلا کی تپتی ریت پر اہلِ بیت کا پانی بند کرنے کی یاد میں شربت اور پانی کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔ یکم سے 10 محرم تک خانوادۂ رسولﷺ سے اُلفت ومحبت اور عقیدت کے بیشمار مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن حقیقت یہی کہ ہم "سجدۂ شبیری" کی اصل روح سے غافل ہی رہتے ہیں۔ ہم نے خونِ حسینؓ کو بھی ایک رسم بنالیا اور جونہی 10 محرم کا سورج غروب ہوتاہے ہم پھر اُسی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں جس میں کرپشن، اقربا پروری، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ ہمارے خون میں رَچ بَس چکی۔ اگر ہم نے حسین ابنِ علیؓ کے نقشِ قدم پر چلناہے تو پھر ہمیں وہ مقصد یاد رکھنا ہوگا جس کو بلند کرنے کی خاطر کربلا کی ریت خونِ شہیداں سے سُرخ ہوئی۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ یومِ عاشورمحض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایثاروقربانی، جرأت وحریت، ہمت وعزیمت اور خودداری وشجاعت کا درس بھی ہے۔

کربلا کی ریت کو سرخ کرتا پاکیزہ لہو ہمیں درسِ خودی وخودداری دیتاہوا یہ پیغام دیتاہے کہ باطل کے سامنے ڈَٹ جاناہی اصل ایماں ہے۔

حسینؓ جانتے تھے کہ یزید کی بیعت کا مطلب اسلام کے اصولِ خلافت سے بغاوت کے مترادف ہے۔ رسولﷺ کی گود کے پالے حسینؓ کو اپنے نانا کا یہ فرمان اَزبَر تھا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا جہادِافضل ہے۔ اِسی لیے جب امیرمعاویہؓ نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بیٹے یزید کی بیعت لینا چاہی تو آپ نے صاف انکار کر دیا۔ دینِ مبیں میں خلافت کا تصور ہے ملوکیت کا ہرگز نہیں۔ خلافت میں امیرالمومنین رعایا کو جوابدہ ہوتاہے جبکہ ملوکیت، بادشاہت کو جنم دیتی ہے جس میں بادشاہ کو جوابدہی کا خوف نہیں ہوتا۔ خلافت میں ایک خلیفہ کی رحلت کے بعد عوام نئے خلیفہ کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ ملوکیت میں حکمرانی موروثی ٹھہرتی ہے اور بادشاہ کا بیٹاہی بادشاہ بنتاہے۔ اِسی لیے حضرت امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا (کئی اسلامی ممالک میں آج بھی مختلف صورتوں میں بادشاہت قائم ہے)۔

خونِ حسینؓ کا درس یہ بھی کہ جب کوئی شخص حق کا پرچم لے کر اُٹھتا ہے تو دشمن کی عددی برتری کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اُس کے ایمان کی مضبوطی اُسے یہ درس دیتی ہے کہ "نورِحق بُجھ نہ سکے گانفسِ اعدا سے"۔ تاریخِ اسلام گواہ کہ دشمن کی عددی برتری پر قوتِ ایمانی سے غلبہ پایاگیا۔ جب حضرت امام حسینؓ بہتر افراد کے ساتھ میدانِ کربلا میں پہنچے تووہ دیکھ رہے تھے کہ سامنے تیس ہزاریزیدی فوج ہے جس پر کسی بھی صورت میں غلبہ پانا ناممکن۔ پھر بھی وہ حق وصداقت کا علم بلند کیے میدان میں ڈٹے رہے۔ وہ یزید کی بیعت کرکے اپنی اور اپنے ہمراہیوں کی جان بچا سکتے تھے لیکن وہ تو اپنے نانا کے دین کی سربلندی کے لیے نکلے تھے۔ وہ شہید ہو کر بھی کامران ہوئے اور یزید فتح یاب ہوکر بھی لعین ٹھہرا۔

فراتِ وقتِ رواں ! دیکھ سوئے مقتل دیکھ

جو سَر بلند ہے اب بھی وہ سر حسینؓ کا ہے

یومِ عاشور ہمیں یہ بھی سمجھاگیا کہ ظاہری اسباب خواہ کچھ بھی ہوں، مومن حق پر ڈٹ کر کھڑا رہتاہے لیکن ہمارے ہاں تو ذاتی مفاد کی رسم چل نکلی ہے۔ رَہنمائی کے دعویداروں کو پارٹی بدلتے وقت ذرابھی شرم وحیا نہیں ہوتی۔ ڈال ڈال پھدکنے والوں کو بھلا کیسے رَہنماء مانا جا سکتاہے۔ یہ موقع پرست بھول چکے کہ 9 محرم کی رات جب حضرت امام حسینؓ کو یقین ہوگیا کہ یزیدی فوج اُن کی شہادت کے دَرپے ہے تو آپؓ نے اپنے ہمراہیوں کو اپنے خیمے میں طلب کیا۔ خیمے کے چراغ گُل کر دیئے گئے اور پھر جوانانِ جنت کے سردار کی آواز گونجی کہ کل شہادت کا دِن ہے۔ جو اپنی جان بچاناچاہتاہے، اندھیرے کا فائدہ اُٹھا کرچلاجائے۔ دراصل

حسینؓ دیکھ رہے تھے ذرا بجھا کے چراغ

کہیں بُجھے تو نہیں دشتِ وفا کے چراغ

جب خیمے کے چراغ دوبارہ جلائے گئے تو چشمِ فلک نے یہ عجب نظارہ کیا کہ حسین ابنِ علی ؓ کے ہمراہیوں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کی لیکن آج حق وصداقت کی خاطر ڈَٹ کر کھڑے ہونے کا جذبہ کہاں۔ مالِ دنیا اور حرصِ جاہ نے جذبۂ ایمانی اور غیرت وحمیت سے عاری کردیا اور ہم صرف برائے نام مسلمان رہ گئے۔

آج ہر جگہ مسلمان رُسوا ہو رہاہے۔ کشمیر ہو یا فلسطین، شام ہو یا یمن، عراق ہو یا افغانستان، ہرجگہ خونِ مسلم کی ارزانی۔ عالِمِ اسلام باہم جوتم پیزار اور یکے بعد دیگرے غاصب اسرائیل کے آگے سرنگوں ہونے کو تیار۔ پچھلے دنوں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکے تو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا غلغلہ اُٹھا۔ ہمارے وزیرِاعظم نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ فلسطین کا مسٔلہ حل ہونے تک پاکستان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ وزیرِاعظم صاحب کا یہ مسحورکُن بیان آج بھی دلوں کو سرشار کر رہاہے۔ پھر بھی دست بستہ عرض ہے کہ اگر اسرائیل غاصب ہے تو بھارت بھی غاصب جس نے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 اور 35-A کا خاتمہ کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا "اٹوٹ انگ" قرار دے دیا۔ ہمارے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم ہیں اور 5 اگست کی بھارتی بدمعاشی پر بھی صرف زبانی جمع خرچ۔