Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Penshioners Mein Mayoosi Ki Lehar

Penshioners Mein Mayoosi Ki Lehar

اِس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ بجٹ دِل خوش کُن ہے نہ روح کو سرشار کر دینے والا۔ البتہ یہ ضرور کہ لاڈلے کے ساڑھے 3 سالہ دَور میں معیشت کی جو تباہی ہوئی اُسے مدِنظر رکھتے ہوئے یہ کسی حد تک متوازن ضرور ہے۔ یہ بھی مدِنظر رہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا نہ صرف سب سے بڑا بلکہ سب سے بڑے خسارے کا بھی بجٹ ہے۔ 14 ہزار 460 ارب روپے کے وفاقی بجٹ میں خسارہ 6924 روپے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ٹیکس ریونیو کی مد میں 92000 ارب روپے اکٹھے کر پائے گی جبکہ گزشتہ سال کے بجٹ میں ٹیکس ریونیو کا ہدف 7ہزار ارب روپے تھا۔

2 ہزار ارب روپے کے اِس فرق کو پورا کرنا ناممکن نہیں تھا بشرطیکہ ملکی معیشت محوِ پرواز ہوتی لیکن معیشت کی بربادیوں کے نوحے تو گلی گلی۔ لاڈلے نے اپنے ساڑھے 3سالہ دورِ حکومت میں معیشت کو برباد کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ یہ الگ بات ہے کہ لاڈلے نے انقلاب لانے کے شوق میں 9 مئی کو اپنے ہی ہاتھوں تحریکِ انصاف کو دفن کر دیا۔ وہ سارے پنچھی جنہیں اسٹیبلشمنٹ گھیر گھار کے درِ عمران پہ لائی تھی۔ اُڑ کر نئی اُبھرنے والی سیاسی جماعت (استحکامِ پاکستان پارٹی) کی شاخوں پر جھولنے لگے اور زمان پارک میں اُلّوؤں کا ڈیرا اور بسیرا۔

ہمارا آج کا موضوع مگر بجٹ نہیں، پنشنرز کی مایوسیاں ہے۔ آخر پنشنرز کا کیا قصور تھا جنہیں صرف ساڑھے 17 فیصد پر ٹرخا دیا گیا۔ گریڈ ایک سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواؤں میں 35 فیصد اضافہ بھی اونٹ کے مُنہ میں زیرے کے مترادف ہے کیونکہ موجودہ مہنگائی کا عفریت تو رفعتوں کی ساری حدیں پھلانگ چکا۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ اسحاق ڈار صاحب نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کی تنخوہوں میں اضافے سے بھی آدھا پنشنرز کو عنایت فرما دیا۔

یہ عین حقیقت ہے کہ لوئر گریڈ کے حاضر سروس گورنمنٹ ملازمین کے قویٰ ابھی مضمحل نہیں ہوئے ہوتے اِس لیے وہ تگ ودَو کرکے اپنی محنت سے تنخواہ کے علاوہ کچھ نہ کچھ کما لیتے ہیں جس سے وہ نانِ جویں کے محتاج نہیں ہوتے لیکن بوڑھے بیمار اور نکبت میں گرفتار عمر کی آخری حدوں کو چھونے والے پنشنرز کا تو سوائے پنشن کے اور کوئی وسیلہ ہوتا ہے نہ ذریعہ آمدن۔ ایسے میں پنشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافہ مذاق ہے، محض مذاق۔ ساڑھے 17 فیصد اضافے کو مدِنظر رکھتے ہوئے 30000 روپے ماہوار پنشن پانے والے پنشنر کی پنشن 35000 روپے کر دی گئی

ہے جبکہ وزیرِاعظم میاں شہباز شریف نے بجٹ تقریر سے پہلے یہ فرمایا تھا کہ ڈالر کی اونچی اُڑان اور مہنگائی کے عفریت نے تنخواہ دار ملازمین اور پنشنرز کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ یہ میاں صاحب کے اپنے الفاظ ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے تنخواہیں اور پنشن آدھی رہ گئی ہیں، جن پر نظرِثانی کی اشد ضرارت ہے۔ اب میاں صاحب ہی سے سوال ہے کہ کیا اسحاق ڈار اتنے ہی طاقت ور ہو چکے کہ اُنہوں نے میاں صاحب کے بالکل درست تجزیے کو بھی پرکاہ برابر بھی حیثیت نہیں دی۔

مانا کہ ڈار صاحب بڑے حسابی کتابی ہیں لیکن ذرا قلم تھام کے 35000 روپے ماہانہ پنشن پانے والے پنشنرز کا گھریلو بجٹ تو بنا کر دکھائیں۔ ڈار صاحب کو تو یقیناََ علم نہیں ہوگا لیکن قوم جانتی ہے کہ گوں گوں کرتے ایک پنکھے اور ایک بلب کا بجلی کا بِل بھی7000 سے کم نہیں ہوتا۔ وہ روٹی جس کی قیمت 6 روپے تھی آج 15 روپے میں مل رہی ہے اور 10 روپے والے نان کی قیمت 30 روپے۔ ایک کلو آٹا 140 روپے میں مل رہا ہے اور دودھ کی فی کلو قیمت اڑھائی گُنا بڑھ چکی۔ یہی حال سبزیوں اور دالوں کا ہے، فروٹ کا تو کوئی مفلس تصور بھی نہیں کر سکتا۔

دست بستہ عرض ہے کہ قوم بجٹ کی موشگافیوں سے بے بہرہ، اُس کی معیشت تو پیٹ سے شروع ہو کر پیٹ پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ تسلیم کہ اِس دَورِابتلاء میں اِس سے بہتر بجٹ پیش نہیں کیا جا سکتا تھا پھر بھی نانِ جویں کے محتاجوں کے لیے کچھ نہ کچھ تو سوچنا ہوگا۔ ڈار صاحب ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ حکومتی ملازمین کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے اشرافیہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ اُن کی تنخواہیں، پنشن اور دیگر مراعات اتنی کہ حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔

آخر چھُری بیچارے مفلسوں ہی پر کیوں گرتی ہے اور یہ کیوں سمجھ لیا جاتا ہے کہ صرف یہی محبِ وطن ہیں۔ اِس لیے اِنہی کا پیٹ کاٹ کر ملک بچایا جا سکتا ہے۔ کیا مراعت یافتہ طبقہ اشرافیہ محبِ وطن نہیں؟ کیا اُنہیں دھرتی ماں سے پیار نہیں؟ اگر ہے تو پھر کچھ عرصے کے لیے ہی سہی اپنی مراعات کو تیاگ کر ملک بچانے کی خاطر قدم بڑھائیں۔ اگر ایسا نہیں تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ایسا طبقہ ہے جو اپنی ذات کے گنبد میں گُم۔

حیرت ہے کہ ایک طرف تو تنخواہوں اور مراعات کے ڈھیر اور دوسری طرف مجبورو مقہور پنشنرز سے یہ سلوک۔ جیو فیکٹ چیک کی 4 اپریل 2023ء کی رپورٹ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کی ماہانہ تنخواہ 10 لاکھ 24 ہزار 324 اور ہر جج کی تنخواہ 9 لاکھ 67 ہزار 638 روپے ہے۔ چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے ہر جج کو 4 لاکھ 28 ہزار40 روپے ماہانہ سپیریئر جوڈیشل الاؤنس ملتا ہے۔ اِس کے علاوہ ایک جج کے لیے 600 لیٹر پٹرول، 1800 سی سی 2 گاڑیوں اور 2 ڈرائیور جبکہ چیف جسٹس کو 2400 سی سی گاڑی مع ڈرائیور اور پٹرول حاصل ہے۔ ہاؤس رینٹ کی مَد میں 68000 روپے اور 8 ہزار روپے یومیہ سفری الاؤنس اِس کے علاوہ ہے۔

سپریم کورٹ کے ایک جج کو 69035 روپے ماہانہ میڈیکل الاؤنس بھی ملتا ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو تنخواہ اور مراعات ملا کر سپریم کورٹ کے ایک معزز جج افلاس کے مارے ہوئے اِس ملک کو 17 سے 18 لاکھ ماہانہ میں پڑتا ہے اور یہ ماہانہ تنخواہ، الاؤنس اور مراعات عام آدمی کی ماہانہ آمدن سے 100 گُنا سے بھی زیادہ ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی کی معیشت اپنی بلندیوں کو چھو رہی ہے لیکن وہاں بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تنخواہ اور دیگر مراعات ملا کر بھی 3 لاکھ روپے سے زیادہ نہیں۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ کی ماہانہ تنخواہ اور دیگر مراعات ملا کر 11 لاکھ روپے سے زائد اور دیگر ججز کو 10 لاکھ روپے سے زائد ماہانہ ملتے ہیں۔ جبکہ قانون کی حکمرانی کے لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں 140 ممالک میں سے پاکستان 129 ویں نمبر پر براجمان ہے۔

بات چونکہ پنشنرز کی ہو رہی تھی اِس لیے انتہائی معزز ومحترم ججز صاحبان کی پنشنز پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ ایک چیف جسٹس یا اعلیٰ عدلیہ کا جسٹس اپنی تنخواہ کا 70 فیصد بطور پنشن وصول کرتا ہے جبکہ ہر سال کے مکمل ہونے پر تنخواہ کا 5 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے لیکن یہ اضافہ تنخواہ کے 85 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ اِس کے علاوہ ایک ریٹائرڈ جج کو ماہانہ 3000 مفت ٹیلی فون کالز، 25 ایچ ایم 3 گیس، 2000 یونٹ بجلی، 300 لیٹر پٹرول، ڈرائیور اور ہر 8 گھنٹے کی شفٹ کے لیے ایک سکیورٹی گارڈکی خدمات بھی شامل ہیں۔

یہ تو ہم بھول ہی گئے کہ ایک بہت بڑے محل میں ہم نے ایک ایسے شخص کو بٹھا رکھا ہے جسے سال میں 2 دفعہ دھوپ لگانے کے لیے باہر نکالا جاتا ہے۔ وہ ہیں ہمارے صدرِ مملکت جن کے پاس پارلیمانی جمہوریت میں کوئی ذمہ داری ہی نہیں ہوتی البتہ اُن کا اپنا ایک سیکریٹریٹ ہے جس پر مجبوروں کے خون سے نچوڑے ہوئے کروڑوں روپے صرف ہوتے ہیں اور خود صدرِمملکت کی تنخواہ 8 لاکھ 96 ہزار 550 روپے ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کے بعد بیچارے عام پنشنرز کے لیے کیا باقی بچے گا۔