Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Sheikh Rasheed Ka Tarzan

Sheikh Rasheed Ka Tarzan

اربابِ اختیار کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سوموار سے جمعے تک استراحت فرماتا ہے اِس لیے اِن دنوں میں جی بھر کے خریداری کریں، پارکوں میں جائیں، ناچیں گائیں اور خوشیاں منائیں لیکن ہفتہ اتوار کو اپنے گھروں کے بیرونی دروازوں کو ڈبل لاک لگا کر رکھیں کیونکہ اِن دو دنوں میں کورونا کا "مچھرجانا" اظہرمِن الشمس۔ لگتا ہے کہ یہ کورونا بھی قصاب ہی ہے۔ جس طرح پانچ دنوں تک بکرے قصاب کی چھری تلے آتے ہیں، اُسی طرح پاکستانی "بکرے بکریاں " کورونا کا ٹارگٹ ہیں۔ البتہ کورونا مہربان کہ وہ صرف دو دِن اپنی چھُری تیز کرتا ہے۔ ہم پر چونکہ حاکمِ وقت کی اطاعت فرض ہے اِس لیے مان لیتے ہیں کہ پانچ دن کورونا سویا رہتا ہے۔ اِسی سلسلے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ محترم جسٹس گلزاراحمد نے فرمایا "حکمران میٹنگ میٹنگ کھیل رہے ہیں، زمین پر کچھ نہیں ہورہا"۔ بصد ادب ہمیں چیف صاحب کے اِس بیان سے اتفاق نہیں۔ اتنا کچھ تو ہو رہا ہے۔ حکمرانوں کی "پھُرتیاں " قابلِ دید، کبھی لاک ڈاؤن، کبھی سمارٹ لاک ڈاؤن اور کبھی لاک ڈاؤن کی چھٹی۔ جب یہ بَدبخت وائرس قابو میں ہی نہیں آرہا تو پھر بیچارے حکمران کریں توکیا کریں؟ ۔ وزیرِاعظم تو بار بار فرما رہے ہیں کہ کورونا کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتااِس لیے مزید لاک ڈاؤن کا "کَکھ" فائدہ نہیں۔ وہ تواِس پر بھی اللہ کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ تین ماہ میں صرف ساڑھے 17 سو اموات ہوئیں (حالانکہ وہ توقع تو بہت لگائے بیٹھے تھے)۔ وہ جو کچھ کر سکتے تھے کیا، قوم سے ہر روز خطاب کوئی آسان کام نہیں، اِس میں بہت محنت صرف ہوتی ہے۔ اب تو گینزبُک آف ورلڈ ریکارڈ والے بھی ہمارے وزیرِاعظم کا نام دنیا میں سب سے زیادہ قومی خطاب کرنے والے سربراہ کے طور پر لکھنے والے ہیں۔ اِس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔

کورونا سے تھک بلکہ "ہَپھ" کر خانِ اعظم نے ایک نئی راہ نکالی لیکن اُس میں بھی ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑا۔ خان اور حواری سرجوڑ کر بیٹھے کہ قوم کی توجہ کورونا سے کیسے ہٹائی جائے، معیشت کی بربادی کس کے سَر منڈھی جائے، روپے کی بے قدری اور قومی بَدحالی کا کِسے ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ طے ہوا کہ "مَرے کو مارے شاہ مدار" کے مصداق نوازلیگ اور پیپلزپارٹی ہی آسان ترین ہدف ہیں اِس لیے نزلہ اُن پر گرادو کہ ہمیشہ "نزلہ بر عضوِضعیف می ریزد"۔ پہلا نمبر میاں شہبازشریف کا لگاکہ وہ قائدِحزبِ اختلاف ہیں اور بجٹ کی آمدآمد بھی ہے اِس لیے "بولتی

بند"ہونا ضروری۔ نگاہِ انتخاب" شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار" پر پڑی۔ اُسے ٹارگٹ کیا گیا جس کی تعمیل کے لیے نیب متحرک ہو گئی۔ دوسری طرف حکومتی "لال بجھکڑوں "نے زمین ہموار کرنا شروع کر دی لیکن سستی شہرت کی ہوسِ بَد میں مبتلاء لال حویلی والے سے صبر نہ ہوسکا۔ اُس نے اوائل رمضان ہی سے "رَولا" ڈالنا شروع کر دیاکہ عید کے بعد " ٹارزن اِن ایکشن" ہوگا، جھاڑو پھرے گااور پہلا نشانہ میاں شہاز شریف ہوگا۔ لال حویلی والے کی اِن بڑھکوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے نوازلیگ بھی محتاط ہوگئی۔

عید کے بعد 2 جون کو نیب لاہور نے میاں شہبازشریف کو طلب کر لیا۔ کہتے ہیں "مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈَسا جاتا"۔ ہمارے سابق خادمِ اعلیٰ ٹھہرے "پَکّے مومن" اِس لیے بھلا وہ کیسے ڈَسے جاتے؟ ۔ اُن کے ساتھ 5 اکتوبر 2018ء کو "ہَتھ" ہو چکا تھا۔ اُنہیں نیب نے صاف پانی کیس میں طلب کیا اور "دَھرلیا"آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں۔ نیب تو 28 مئی سے ہی میاں شہبازشریف کے وارنٹ گرفتاری جیب میں ڈالے پھر رہی تھی لیکن میاں شہبازشریف 2 جون کو حاضر ہی نہیں ہوئے جس سے نیب کی دوڑیں لگ گئیں۔ پھر 2 جون کو ہی نیب پولیس کے ساتھ ماڈل ٹاؤن، جاتی اُمرا اور پتہ نہیں کہاں کہاں رات گئے تک "کھجل" ہوتی رہی لیکن "گوہرِ مقصود" ہاتھ نہ آسکا۔ 3 جون کو ضمانت قبل اَزوقت گرفتاری کے لیے میاں شہبازشریف کی لاہور ہائیکورٹ میں حاضری تھی۔ پولیس نے صبح سے ہی ہائیکورٹ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور سائلین تک کا داخلہ بند کر دیا۔ لگ بھگ 11 بجے تک لاہور ہائیکورٹ کے چاروں طرف جنگ کا سماں رہا۔ پھر ہائیکورٹ بار کے صدر نے چیف جسٹس صاحب کو بتایا کہ پولیس سائلین کو لاہور ہائیکورٹ میں داخلے سے روک رہی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے آئی جی پنجاب کو فوری طور پر راستے کلیئر کروانے کا حکم دیاتو پولیس غائب ہو گئی اور میاں شہبازشریف دندناتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ پہنچ کر 17 جون تک ضمانت قبل اَز گرفتاری منظور کروانے میں کامیاب ہو گئے۔

ضمانت قبل اَز گرفتاری کے بعد سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر طوفان بپا ہوگیا۔ تحریکِ انصاف کے وزیروں مشیروں کی بے چینی دیدنی تھی۔ کسی نے میاں صاحب کو بُزدل کہا تو کسی نے بھگوڑا۔ وزیرِاطلاعات ونشریات شبلی فراز کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ وہ معتدل مزاج ہیں لیکن وہ بھی تحریکِ انصاف کے رنگ میں رنگے نظر آئے۔ اُنہوں نے کہاکہ 2 جون نہ سہی 17 جون کے بعد تو میاں صاحب گرفتار ہوہی جائیں گے، اُن پر بہت کیسز ہیں۔ لال حویلی والا میاں شہباز شریف کی نقلیں اُتاراُتار کر طعنے دیتا رہا۔ وزیرِاطلاعات پنجاب فیاض چوہان نے کہا "بطور رَہنماء کرپشن پر چھُپنا بزدلانہ فعل ہے"۔ بالکل بجا لیکن اِس سے زیادہ بزدلانہ فعل اور کیا ہوگا کہ قائدِحزبِ اختلاف کو اندھی طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے محض اِس لیے گرفتار کروانے کی کوشش کی جائے کہ حکمرانوں کو اپنے خلاف اُٹھنے والی ہر آوازکو دبانا مقصود ہے۔ فیاض چوہان کو مالم جبہ کیس، بی آرٹی کیس، پرویزخٹک پر الزامات اور خیبربینک میں کرپشن کیوں نظر نہیں آتی؟ ۔ نوازلیگ تو یہ الزام بھی لگاتی ہے کہ زمان پارک کے موروثی گھر کو گِرا کر جو آٹھ دَس کروڑ کی لاگت کا محل کھڑا کیا گیا، خاں صاحب کے پاس وہ کروڑوں روپے کہاں سے آئے؟ ۔ نوازلیگ کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ خاں صاحب اپنے ذرائع آمدن ظاہرکریں۔ جہاں تک بزدلی کا سوال ہے تو تحریکئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ خاں صاحب نے بڑے فخر سے بتایاکہ 2007ء میں عدلیہ بحالی تحریک میں جب پولیس اُنہیں گرفتار کرنے کے لیے آئی تو وہ اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر نودوگیارہ ہوئے۔ اِسی عدلیہ بحالی تحریک میں 15 مارچ 2009ء کو پوری قوم سڑکوں پر تھی جبکہ خاں صاحب راولپنڈی میں چھُپے ہوئے تھے۔ اگر لایعنی اور بے معنی کرپشن کیس میں گرفتاری نہ دینا بزدلی ہے تو پھر عدلیہ بحالی تحریک میں گرفتاری نہ دینا "مہا بزدلی" کہ اُس وقت تو لوگ آگے بڑھ بڑھ کر گرفتاریاں دے رہے تھے۔ اِس لیے تحریکِ انصاف ایسے الزامات نہ ہی لگائے تو بہتر ہے کیونکہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکنے والا احمق ہوتا ہے۔

ہمیں نوازلیگ سے کچھ لینادینا ہے نہ تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی سے لیکن سچ یہی کہ کورونا کی تباہ کاریوں میں جب سیاسی جماعتیں باہم جوتم پیزار ہوتی ہیں تو ایک پاکستانی کی حیثیت سے دِل دُکھتا ہے۔ جب ایک اَن دیکھا دشمن سامنے ہو تو زندہ قومیں اُس کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہیں لیکن ہمارا اتحاد پارہ پارہ۔ چیئرمین نیب کو بھی سوچنا ہوگا کہ آنے والا مورخ اُن کے بارے میں کیا لکھے گا۔ اُنہوں نے فرمایا "عوام اور اداروں نے نیب کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے"۔ عرض ہے کہ خلقِ خُدا غائبانہ نہیں، سرِعام نیب کی کارکردگی پر سوال اُٹھا رہی ہے۔ جس اعلیٰ ترین عدالت سے ریٹائر ہوکر اُنہوں نے چیئرمین نیب کا عہدہ سنبھالا ہے، اُس کی نیب کارکردگی پر عدم اطمینانی سب پر عیاں۔ نیب کارکردگی سے اگر مطمئن ہے تو صرف تحریکِ انصاف یا پھر وہ لوگ جنہیں پہلے ہی سے علم ہوتا ہے کہ نیب کا تازہ شکار کون ہونے والا ہے۔