کاشف عباسی صاحب کے ARY شو میں PTI کے بیرسٹر گوہر خان کو سن رہا تھا۔ وہ گنڈاپور کے بارہ اضلاع کراس کرکے پشاور پہچننےکی طوطا مینا کہانی کا ایسا دفاع کر رہے تھے کہ اگر گنڈاپور صاحب بھی سن رہے ہوں تو وہ بھی حیران پریشان ہوں گے اور ہنس ہنس کر برا حال ہوگا۔ کاشف عباسی نے اپنی روایت مطابق اچھا grill کیا اور بڑے اچھے سوالات اٹھائے۔
بڑے عرصے بعد بیرسٹر گوہر خان پاکستانی سیاست میں ایک بہتر اضافہ سمجھے جاتے ہیں۔ ایک سلجھا، پڑھا لکھا اور سمجھدار انسان۔ کیا ضروری ہے کہ ایم این اے کی سیٹ یا فیم کی خاطر بندہ اپنا ذاتی کردار اور ساکھ خراب کرے اور وہ بھی گنڈاپورا صاحب کی خاطر؟ مان لیا وکیل کا کام اور تربیت ہے کہ وہ ہر قسمی کیس اور بندے کا دفاع کرسکتا ہے چاہے قاتل ہو، فراڈیا یا دھوکے باز۔
لیکن بعض وکیل (اگرچہ دو تین ہی) کسی کا بریف لینے سے پہلے یقین کرتے ہیں کہ جس بندے کا مقدمہ لڑنا ہے وہ بے قصور ہے اور یوں وہ پورے یقین اور اخلاقی قوت ساتھ مقدمہ لڑتے ہیں اور اکثر جیت جاتے ہیں۔ ایسے آنرابیل وکیل محض فیس یا فیم کے لیے کیس نہیں پکڑتے۔ ان کے نزدیک عزت اور ساکھ اہم ہوتی ہے۔
گوہر صاحب کو علم ہے وہ مسلسل 25 منٹ تک ایسے کیس کا دفاع کر رہے ہیں جس کا انہیں پتہ ہے ان کا کلائنٹ جھوٹ بول رہا ہے اور پورا ملک بلکہ ان کی اپنی پارٹی مذاق اڑا رہی ہے۔
مجھے یاد آیا برسوں پہلے اس طرح ہی کاشف عباسی کا ہی شو تھا اور اس میں پی ایم ایل نواز کے ایم این اے سعد رفیق شریک تھے۔ کاشف نے سعد رفیق کو بھی گھیرنے کی کوشش کی جب حمزہ شہباز کے acts of omission and commission بارے سخت سوالات کیے تو سعد رفیق کا جواب مجھے آج تک یاد ہے۔ اس نے کہا کاشف صاحب میں کوئی حمزہ شہباز کا ترجمان نہیں ہوں کہ ان کی یہاں صفائیاں دوں۔
یہ سعد رفیق والا آنرایبل روٹ بیرسٹر گوہر بھی لے سکتے تھے لیکن انہوں نے مسلسل پچیس منٹ تک ایک جھوٹ کا دفاع کرنے کے لیے پچیس جھوٹ بول کر اپنا امیج ہی خراب کیا۔ وہ سعد رفیق والا جواب دے سکتے تھے لیکن سیاست اور سیاسی temptations نے ان کے پائوں میں زبجیریں ڈال دیں۔
ایک اور دکھنے میں سلجھا اور شریف النسل انسان بھی سیاست کی نظر ہوا۔ نمک کی کان میں نمک ہوگیا۔ ایک اور شریف انسان نے سیاست، شہرت اقتدار اور پاور کے نام پر دھول چاٹ لی۔