اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب منیراکرم نے کہا ہے کہ پاکستان یواین سمیت ہر فورم پر بی جے پی کے کشمیر کو ہندو ریاست بنانے کے ایجنڈے کیخلاف آواز اٹھائے گا۔ بی جے پی کشمیر کو ہندو ریاست بنانا چاہتی ہے۔ ہیومن رائٹس کونسل میں 50ممالک نے کشمیر کے معاملے پربھارت کیخلاف مشترکہ بیان دیا۔ عالمی ادارے مقبوضہ کشمیر کے معاملے کی تحقیقات کرنا چاہتے ہیں تاہم بھارت عالمی اداروں کومقبوضہ کشمیرتک رسائی فراہم نہیں کررہا۔ بھارت اسوقت عالمی دباؤکاشکارہے۔ وہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے خودپھنس گیاہے۔ ہمیں کشمیرکی آزادی کی جدوجہد کو قانونی حیثیت دلانی ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کی جدوجہدآزادی کو دہشت گردی کا رنگ دینے کی ناکام کوشش کی۔ عالمی قوانین آزادی کی جدوجہد میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت دیتے ہیں لہذا ہمیں بھارت کیخلاف عالمی دباؤ بڑھانا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پربھارت پرعالمی دباؤبڑھایاجائیگا۔ کشمیریوں کویہ محسوس ہونا چاہیے کہ پاکستان ہمیشہ ان کے ساتھ ہے۔ پاکستان کے دوست ممالک بھی کشمیریوں کیساتھ ہیں۔
بھارت چنددبڑے ممالک کی حمایت کے باعث پابندیوں سے بچاہواہے۔ نومنتخب امریکی صدر، نائب صدر کشمیریوں کے حق میں بیان دے چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ میں بیانات پالیسی بنتے ہیں یا نہیں۔ امریکا کی بھارت سے اسٹریٹیجک الائنس میں تبدیلی متوقع نہیں، ہمیں کوشش کرنی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کشمیریوں کی مکمل حمایت کرے۔ 5اگست 2019 کووزیر اعظم نریندر مودی نے 1947 کے بعد پہلی بار بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں شہریت کے حوالے سے قوانین میں تبدیلی کی جسے ماہرین نے اسرائیلی طرز کی 'آبادکاری' کا منصوبہ قرار دیا ہے۔ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی 'آباد کاری' جیسی حکمت عملی کے ذریعے مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کا مقصد اس مسلم اکثریتی خطے کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے۔ خطے کی 65 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمان ہے جب کہ وادی کشمیر جو جھڑپوں کا مرکز ہے وہاں یہ تناسب سو فیصد کے قریب ہے۔ مودی کے اس اقدام کے بعد بھارت نے سکیورٹی کے ایک بڑے آپریشن کے لیے دسیوں ہزار اضافی دستے کشمیر بھیجے جہاں ممکنہ ردعمل روکنے کیلئے طویل لاک ڈاؤن، محاصرے اور کرفیو جیسی پابندیاں عائد کی گئیں۔ ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا اور مہینوں تک مواصلات کا نظام بند رکھا گیا۔ ریاست جموں و کشمیر کو دہلی کی مرکزی حکومت کے ماتحت وفاقی علاقہ قرار دے دیا گیا جبکہ لداخ خطے کو ایک علیحدہ انتظامی علاقے میں تشکیل دیا گیا۔
مودی کی حکومت نے 1927 سے قائم کشمیر میں رہائش کے حوالے سے خصوصی قوانین کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت یہ یقینی بنایا گیا تھا کہ صرف کشمیر کے مستقل باشندے ہی زمین اور جائیداد کے مالک، سرکاری ملازمتوں اور یونیورسٹی میں داخلے کے حق دار ہوں گے اور وہ ہی بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈال سکیں گے۔ اب بھارت کے کسی بھی حصے سے مخصوص لوگ کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں جس سے انہیں مندرجہ بالا تمام حقوق تک رسائی حاصل ہوسکے گی۔ ان میں 15 سال سے کشمیر میں مقیم افراد، پاکستان جانے ہونے والے تقریبا 28 ہزار مہاجرین، 17 لاکھ سے زیادہ دیگر ریاستوں سے آئے ہوئے مزدور بھی شامل ہیں جن میں بیشتر ہندو ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین جنہوں نے کشمیر میں سات سال تک کام کیا ہے اور ان کے بچے اور کچھ طلبہ بھی رہائشی حیثیت کے اہل ہیں۔ مقامی افراد کو بھی اب مستقل طور پر رہائشی حقوق حاصل کرنے کیلئے نئے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دینا ہوگی۔ اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے انہیں اپنے مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ (پی آر سی) تیار کرنا ہوں گے۔ ایک انجینئرنگ گریجویٹ نے کہا کہ روزگار کے بدلے بھارت نوجوان کشمیریوں سے ان کی سیاسی وفاداری خریدنا چاہتا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ آپ کو نوکری چاہیے تو پہلے ڈومیسائل دستاویز حاصل کریں۔
جموں و کشمیر ایک بااختیار ریاست تھی۔ جس کا بیشتر علاقہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر پھیلا ہوا ہے۔ جموں و کشمیر کی سرحدیں جنوب میں ہماچل پردیش اور پنجاب، بھارت، مغرب میں پاکستان اور شمال اور مشرق میں چین سے ملتی ہیں۔ پاکستان میں بھارت کے قبضے میں علاقے کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر جموں، وادی کشمیر، لداخ اور گلگت بلتستان میں منقسم ہے۔ بھارت کے زیر انتظام سری نگر اس کا گرمائی اور جموں سرمائی دارالحکومت ہے۔ اور پاکستان کے زیر انتظام مظفر آباد دارلحکومت ہے۔ وادی کشمیر اپنے حسن کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے جبکہ۔ لداخ جسے "تبت صغیر" بھی کہا جاتا ہے، اپنی خوبصورتی اور بدھ ثقافت کے باعث جانا جاتا ہے۔ ریاست کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاہم ہندو، بدھ اور سکھ بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ کشمیر کا فیصلہ تقسیم ہند کے اصول کے تحت اکثریت آبادی کی بنا پر ہونا ہے۔ لیکن سیاسی طور تنازعات اور مہاراجہ کشمیر کی بھارت کیساتھ ساز باز نے اخلاقی اور بنیادی حق آزادی کی تحریک کو الجھا دیا ہے۔ اس کے خلاف کشمیر میں عوامی تحریک آزادی شروع ہوگئ۔ جس میں لاکھوں، جانوں عزتوں کی قربانی دی گئی۔ جو آج تک جاری ہے۔ بی جے پی کی حمایت یافتہ سخت گیر ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کشمیر میں ایسے نئے اقدام کیلئے کافی عرصہ سے مہم چلا رہی تھی۔ اس کے علاوہ مودی حکومت نے شہریت کا متنازع قانون بھی متعارف کرایا ہے۔ اس اقدام نے بھارت کے 20 کروڑ مسلم اقلیت کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے جنہیں ڈر ہے کہ مودی ایک ہندو ملک بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم بھارتی حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔
تاریخ دان اور سیاسی تجزیہ کار صدیق واحد نے کہا کہ یہ تبدیلیاں 1947 کے بعد سے لگائی جانے والی انتہائی سخت ترین اقدامات ہیں۔ یہ آبادیاتی سیلاب کے دروازے کھولنے کے ارادے سے کیا گیا تھا۔ ، امریکہ کی سیراکیوز یونیورسٹی منسلک ماہر بشریات مونا بھن، جنہوں نے کشمیر پر طویل عرصے سے تحقیق کی ہے، نے اے ایف پی کو بتایا: جو پیش رفت میں دیکھ رہی ہوں وہ ہندو آبادکاری کے منصوبے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔