علاج کا ذکر توہم نے محض محاورتاً کردیاہے ورنہ علاج؟ ؟
شفا اپنی قسمت میں ہی نہیں
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
شفا نہ اپنی بلکہ کسی کی بھی قسمت میں نہ تھی نہ ہے اور نہ ہوگی صرف دل ناتواں کا مقابلہ ہے جہاں تک کر لیتا ہے۔ اس کے بعد "دعا"کا مرحلہ آجاتا ہے۔ پڑوسی ملک میں بھی جب ڈاکٹر لوگ بیمارکو خوب مار مار کر مرا مرا مرا یا رام رام کر دیتے ہیں تو ڈاکٹر اسٹیتھواسکوپ گلے سے اتار کر کہتا ہے، اب بھگوان ہی کچھ کرے تو کرے۔ پھرمریض کے لواحقین قریبی بھگوان کے پاس جاتے ہیں، اسے خوب لتاڑتے ہیں، آخرکار مایوس ہو کرپتھر کے بھگوان کو بے جان مورتی کہہ کر آئینہ دکھا دیتے ہیں۔
بھگوان بھی شاید اپنی لاج رکھتے ہوئے اور حشرنشر ہونے سے ڈرکر مرے ہوئے مریض کو "پینرجنم"دے دیتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ دنیا کہاں پہنچ گئی ہے لیکن ہمارے ہاں ہیضے اور اسہال کا علاج ابھی تک تعویزوں سے کیاجاتاہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اچھے بھی ہوجاتے ہیں۔
اس پرہم کچھ زیادہ روشنی نہیں ڈال پائیں گے کہ تعویزوں اور بھگوان سے "اچھے"کیوں ہوجاتے ہیں صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ ڈاکٹروں کے چنگل سے چھوٹ جانا بجائے خود ایک بہت بڑا علاج ہے یا "مارنے والوں " کے ہاتھوں سے بچانا یا بچنا۔ خیر علاج کو گولی یا کیپسول یا انجکشن مارے، ہم صرف امراض کی بات کریں گے کہ کیسے لاحق ہوتے ہیں کون لاحق کرتاہے اور پھرعلاج کی صورت کیاہے؟ اور اس اتنے بڑے موضوع کو ایک ہی فقرے میں سمیٹنے کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کا وہ قرآنی فقرہ یا دعا کافی ہے جو آج کل تمام اسپتالوں، کلینکوں اور دواؤں کی دکانوں وغیرہ کا بیسٹ سیلرجملہ بنا ہواہے کہ
"واذا مرضتُ فھوا یشفین"یعنی جب "میں "بیمار ہوتا ہوں تو "وہ"شفادے دیتاہے اور یہی الامراض والعلاج کا خلاصہ ہے۔ کہ انسان"خود"بیمار ہوتا ہے "وہ"بیمار نہیں کرتا کیونکہ اس نے تو صاف صاف بتایا ہواہے کہ زہرکیاہے اور تریاق کیاہے، مرض کیاہے اور اس سے بچنے کی صورت کیا ہے اور جب انسان ان اصولوں سے انحراف کرتاہے تو "خود"کو خود ہی بیمار کرلیتا ہے۔
کافی زمانے سے ہم یہ سوچ سوچ کرپریشان ہو رہے ہیں کہ یہ بیماری آخرانسان کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ رہی ہے کہ اس نے ان بیماریوں کے خلاف میدان پر میدان، محاذ پرمحاذ اور معرکہ پرمعرکہ سرکرلیاہے۔ کیاکیا چیزیں دریافت نہیں کیں جراثیم ڈھونڈ لیے وائرس کا پتہ لگایا اور جب"جڑ"معلوم ہوگئی تو بیماریوں کو اکھاڑ پھینکنا کیا مشکل ہے طرح طرح کی دوائیں، سرجریاں، لیبارٹریاں، مشینیں اور نہ جانے کیاکیا اس کے ہاتھ لگاہے لیکن مجال ہے کہ "حملہ آوروں "میں ذرا بھی کمی آئے بلکہ مرض بڑھتا گیاجوں جوں دوا کی۔
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخرکام تمام کیا
بڑی بے شرم یا انتہائی ڈھیٹ ہیں یا حددرجہ طاقتور کہ ختم ہونا تو دور کی بات کم بھی نہیں ہورہی ہیں۔ اس موضوع پرسوچتے ہوئے بلکہ تحقیق کرتے کرتے یہ پتہ توہم نے لگالیا کہ ان کم بختوں کے طرف دار بہت ہیں جو ان کو ہر طرف سے کمک پہنچا رہے ہیں، وہی ہمیشہ اور ہرطرح کی جنگوں میں غدارانہ کردار ادا کرنے والے میر جعفر ومیرقاسم یعنی خود انسانوں ہی کے اندرموجود ففتھ کالمسٹ، یا انڈرکور ایجنٹ۔ جو خود کو ڈاکٹروں، دواسازوں اور معالجوں کے نقابوں میں چھپائے ہوئے ہیں، جو دایاں دکھا کربایاں مارتے ہیں، گھر پرحملہ آور ہو رہے ہیں اور ہر طرح کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔
خیر یہ بات تو اور بھی بہت سارے لوگوں کو معلوم ہے اور فرداً فرداً ان بیماریوں کے ایجنٹوں کو جانتے ہیں لیکن اصل وجہ یہ بھی نہیں ہے بلکہ ایک اور ہے جو زبانی کلامی تو اکثرلوگوں کو معلوم ہے لیکن سنجیدگی سے لیتے نہیں، صرف ایک شخص جرمنی کے "ہایتمین" محقق نے اس وجہ کا سراغ سنجیدگی سے لگایا ہے۔ اور وہ وجہ یہ ہے کہ اصل مسئلہ بیماریوں یا جراثیم یا بیکٹیریا یا وائرس کی موجودگی اور حملہ آوری کا نہیں بلکہ انسان کی دفاعی کمزوری ہے کہ قلعہ مضبوط ہو، پہرہ دار چوکس ہوں تو کسی کی مجال کیاہے کہ قلعے کے اندر داخل ہوکر نقصان پہنچائے۔ لوئی پاسچر نے جراثیم کا یعنی دشمن کا پتہ تو لگالیاتھا۔ لیکن نہ اس نے نہ کسی اور نے یہ پتہ لگایا کہ یہ کم بخت جراثیم کامیاب کیوں ہوتے ہیں۔
ٹھیک ہے دشمن کا تو کام ہی حملہ کرنا اور نقصان پہنچانا ہوتاہے لیکن اس کی کامیابی یا طاقت کیا ہے۔ اور یہاں پروہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی کی کمزوری کو اپنی طاقت بنانا ہے، اور یہی کچھ جراثیم اور بیماریاں بھی کرتی ہیں۔ ہم عام طور پردیکھتے ہیں کہ کوئی بیماری پھیلتی ہے یا جراثیم یا وائرس حملہ آورہوتے ہیں لیکن اس پر کسی نے غور نہیں کیا ہے کہ ایک ہی ماحول ایک ہی گھر ایک ہی خاندان کے دو افراد میں ایک تو بیمارہوجاتاہے دوسرا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ بھائی بہنوں اور شوہروں بیویوں میں ایک بیمار ہوجاتاہے دوسرا نہیں ہوتا۔ یہ تو ممکن نہیں کہ جراثیم یا وائرس ان پرحملہ آور نہ ہوں وہ تو ہرجگہ ہرمقام، چپے چپے، ذرے ذرے، پانی میں، ہوا میں اور یہاں تک کہ لباسوں اور جسموں تک بھی پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔
انتہائی طورپر حفظان صحت کا خیال رکھنے والے پاک وصاف ہرقسم کے حفاظتی سامان سے لیس لوگ تو بیمار پڑجاتے ہیں لیکن میلے کچیلے گلی کوچوں میں پھرنے والے حفظان صحت سے یکسر بے خبر لوگ بالکل محفوظ رہ جاتے ہیں کیوں؟ آخر ان کے پاس کونسی تیغ بندی کا تعویز ہوتاہے؟ اور وہ تعویز واقعی ہوتابھی ہے اور کام بھی کرتاہے اور اس کانام قوت مدافعت ہے۔ اگر مضبوط ہو تو جراثیم و وائرس کاباپ بھی آتاجاتا رہے بڑھ بڑھ کرحملے کرتا رہے لیکن حفاظتی نظام کے جاگے ہوئے بیدار پہرہ دار انھیں یا تو لات مارکربھگا دیتے اور یا مار ڈالتے ہیں۔ گویا نتیجہ یہ ہوا کہ سب کچھ خود انسان کے اندر ہے، بیماریاں بھی اور صحت بھی۔ باقی یہ سارا کھڑاگ تمام جھام اور میلے ٹھیلے تجارت کاروبار ہیں، دکانیں دکاندار ہیں جو بیماریوں کا "دیا" کھاتے ہیں۔