اب تو آپ کوہمارے "نظریہ ڈر" کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہوچکا ہوگا، کیوں کہ ہم اکثر اپنے کالم میں "قصیدہ ڈر" پڑھتے رہتے ہیں۔ اس کے فوائد تو بے شمار ہیں، برکتیں ہزارہیں اورنعمتیں بے قطارہیں کیوں کہ دنیامیں ڈرکے سوا اورکوئی چیزہے ہی نہیں، سب مایاہے چھایاہے اوربے وجود کاسایہ ہے لیکن آج کل اورفوائد اس کی دیکھ کر ہم بے حد مسرورہوئے، نورا نورہوگئے اورخوشیوں سے بھرپورہوگئے اورپھر مشکورہوئے کہ شکرہے ہمارے پاس ڈرہے۔
شہرکے ایک انتہائی "ڈریلے " بلکہ ڈروانے علاقے میں سے ہماراگزرہوا تو پیش نظر ایک عجیب سامنظرہوا۔ بے پناہ ڈرہوا، بڑے خوبصورت بنگلے تھے، محل دومحلے تھے لیکن سب کے ارد گرد جنگلے تھے، دیوار کانٹا تار کے حصارمیں تھے، دروازوں پر پہرہ دارتھے جن کے ہاتھوں میں ہردم تیار ہتھیار تھے اوربنگلوں کے اندر والوں کے پردہ دار تھے، تب ہم نے اپنے ڈرکو چوماچاٹا، سینے سے لگایاکہ اس کی برکت سے ہم جو چاہتے ہیں وہ کرسکتے ہیں، ہمارے گھر کادروازہ تک نہیں کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
دیواریں بہت ہی نیچی ہیں اورہم جب نکلتے ہیں تو سیدھے چلتے ہیں نہ ادھر ڈر ڈرکردیکھتے ہیں نہ ادھر، اپنے آپ میں مگن مطمئن اورمامون۔ اس لیے ہمارے پاس ڈرہے جو ہمارا یار بھی ہے، غم خواربھی ہے، چوکیداروپہرہ دار بھی ہے اوریاروفاداربھی ہے حالاں کہ ہمارے پاس اورکچھ نہیں۔ یہ لوگ جو سامنے رہتے ہیں ان کے پاس بنگلے ہیں، کاریں ہیں، دولت ہے، شہرت ہے، نام ہے، مقام ہے لیکن پھر بھی ڈرتے ہیں، بلا ڈرکے مارے مرتے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس ڈر نہیں ہے یایوں کہیے کہ ان لوگوں نے ڈرکو دوست نہیں دشمن بنایا ہواہے، اگر یہ ڈر کو اوڑھ لیتے تو یہ حال نہ ہوتا۔
کسی نے ان سے کہا تھاکہ تم ایسے کام کروکہ ڈرتمہارے پیچھے پڑجائے، نڈرہیں، بہادر ہیں، دلیرہیں بلکہ دیدہ دلیرہیں، کسی سے نہیں ڈرتے اس لیے ڈرنے بھی ان کو اپنا شکار بنا لیا ہے، اپنوں سے بھی ڈرتے، پرایوں سے بھی ڈرتے ہیں، دوستوں سے بھی ڈرتے اور ہمسایوں سے بھی ایک نہایت ہی سریلی سی خاتون کا کہنا ہے۔
وہ نہیں ملتاتو غم ناکر
خود کو دوست بنالے خود سے باتیں کر
یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں، بھٹوتھا، مشرف تھا، ضیاء الحق تھا، نوازشریف ہے یاتھااوریااب وژن صاحب ہے، یہ بہادرتھے دلیرتھے، نہیں ڈرتے تھے لیکن کیاہوا؟ ڈرنے ان کاکیاحشرنشرکیا،
بھٹوجو نواب تھے، وڈیرے تھے، اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، اگر آرام سے کسی بھی جگہ جیساجی چاہتے رہ لیتے، زندگی سے لطف اٹھاتے، لمحے لمحے سے زندگی نچوڑ کر خوش خوش مطمئن، مطمئن اورسکون سے جی لیتے بلکہ شاید اب تک جیتے لیکن نہیں وہ تو بہادربنناچاہتے تھے، سو بن گئے۔ وہ جو ضیاء الحق تھا، وہ بھی کسی سے نہیں ڈرتا تھا، اس لیے نڈر ہو کر ڈرکو شکست دینے نکلا۔ اورڈرنے اسے مرنے پر مجبورکیا۔ مشرف تو کمانڈوبھی تھا، ڈرکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے بھگاناچاہالیکن اب ڈر کے مارے کہاں چھپاہے۔
بے نظیرجو پھولوں کی شہزادی تھی، چاروں صوبوں کی زنجیرتھی، تیرتھی، تلوارتھی، شمشیرتھی لیکن چاروں صوبے بھی موجود ہیں، تیروتلواراورشمشیربھی موجود ہیں لیکن وہ نہیں ہے، کیوں کہ وہ ڈرتی نہیں تھی۔ نوازشریف جس کے کارخانے تھے، دولت خانے تھے، اگر چاہتا تو آرام سے جیتا، زندگی سے لطف اٹھاتا، یہ دربدری یہ رسوائی، یہ جگ ہنسائی، یہ نارسائی تو نہ ہوتی۔ اوراب یہ ویژن سرکار ہے، کرکٹ کاقومی ہیرو، شوکت خانم جیساقابل ستائش کام کرکے سارے ملک کا پوجنتے ہوجاتالیکن نہیں کیوں کہ ڈرتا نہیں تھا لیکن اب یہ بھی ڈر ڈر کر پھر رہاہے اور جب کوئی بھی ہتھیارنہ رہا تووہ نہیں رہے گا تو نتیجہ معلوم۔ چلیے اس بات پر ایک کہانی ہوجائے جو اتنی چھوٹی سی ہے کہ ایک ماچس میں سماجائے اور پھیل جائے تو پورے جہاں کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔
ایک لفظ محبت کاادنیٰ سافسانہ ہے
سمٹے تو دل عاشق پھیلے توزمانہ ہے
کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کسی کو قتل کیا اورمفرورہوگیا، دفع دورہوگیااورمنہ چھپانے پر مجبورہوگیا، کافی عرصے کے بعد مقتول کابیٹاجوان ہوگیاتو ماں نے اسے باپ کے قاتل کے بارے میں بتایااورانتقام پر اکسایا، نوجوان چل پڑا۔ مفروراورعدم پتہ باپ کے قاتل کو ڈھونڈتا رہا، سن گن لیتارہا، آخرصرف اتنا پتہ چلاکہ دور دراز ایک پہاڑی گاؤں میں ہے۔
نوجوان اس گاؤں پہنچاکوئی جان پہچان یاٹھکانہ تو نہیں تھا اس لیے شب گزاری کے لیے ایک مسجد میں ٹھہرگیاجہاں ایک مسجد کاخادم بھی رہائش پذیرتھا، نوجوان کو باپ کے قاتل کاصرف نام اورعمرکاپتہ تھا جو ماں نے اسے بتایاتھا، باقی کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ مسجد میں شام کے بعد وہ کوٹھڑی میں خادم کے ساتھ سوگیا، اچانک آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ مسجد کا خادم انتہائی ڈراہواہے، معمولی سی آوازیاآہٹ پر اٹھ کردیکھنے لگتا، آرام سے لیٹنے نہیں پارہاتھا، مستقل اٹھ اٹھ کر باہرکی سن گن لیتارہا، دروازہ بند کرتاتو کنڈی کے ساتھ اضافی لکڑیوں کاٹیک بھی دیتاتھالیکن آنکھیں بندکرتے ہی پھر ہڑ بڑا کر اٹھتا، دروازہ کھولتا، یہاں وہاں جھانکتا اورپھر آکر لیٹ جاتا، دوبارہ اٹھنے کے لیے۔
نوجوان نے اس سے وجہ پوچھی کہ آخر اسے آرام کیوں نہیں ہے، سوکیوں نہیں جاتا، اتنابے قرار اورمتوحش کیوں ہے۔ خادم مسجد نے اسے بتایاکہ جوانی میں اس نے ایک قتل کیاتھا اوراب فرار ہے لیکن سناہے اس مقتول کابیٹا جوان ہوگیا ہے اورمیری تلاش میں نکلاہواہے، اس لیے میں ڈرتاہوں کہ کہیں وہ میرا پتہ لگا کر پہنچ نہ گیاہو۔
نوجوان سمجھ گیاکہ یہی اس کے باپ کاقاتل ہے، اس نے اپنے نیفے میں اڑسے ہوئے خنجر کادستہ پکڑااوراس شخص کو مارنے کاارادہ کیالیکن پھر رک کر کچھ سوچنے لگا کہ اگر میں اس کو مار دوں تو یہ آرام سے مرجائے گا، مرنا تو سب کو ہے لیکن کیوں نہ اسے اس "ڈر" کے عذاب میں رہنے دوں۔ چنانچہ وہ اسے قتل کیے اورکچھ بتائے بغیرواپس آگیا۔ ماں نے پوچھا، انتقام کاکیاہوا، لے لیا؟ بیٹے نے جواب دیا۔ ہاں ماں، ایسا انتقام لیاہے کہ مرتے دم تک اس میں مبتلارہے گا، مرتارہے گا روزانہ۔