ہیروڈوٹس کے بارے میں اکثرکہا، سنااورلکھا جاتا ہے کہ وہ بہت بڑامورخ بلکہ بابائے تاریخ تھالیکن کچھ لوگوں کااس کے بارے میں یہ بھی کہناہے کہ وہ بڑا "پھینکو"اور"چھوڑو" قسم کاآدمی بھی تھااورکبھی کبھی ایسی ایسی بھی چھوڑتاتھاکہ ساری دنیامیں اس کی مثال نہیں ملتی البتہ پاکستان کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتاکیوں کہ "چھوڑوں "اور"پھینکوؤں" کے بارے میں یہ ملک بھی اچھا خاصانام رکھتاہے، خاص طور پر جن لوگوں کا تعلق حکومتی امور سے ہوتا ہے وہ تو ایسی ایسی چھوڑتے ہیں کہ سن کر ہیروڈوٹس بلکہ سارے یونانی ہاتھ جوڑ کر استاد استاد کہنا شروع کردیں۔
ہاں تو ہیروڈوٹس بھی جب فارغ ہوتاتھا کہ لیڈرکی طرح تو پھر یہی کام کرتاتھا جو پاکستانی لیڈربلکہ سارے دانادانشوراور"نگار" کرتے ہیں چنانچہ ایک مقام پر ہیروڈوٹس نے لکھا ہے کہ ادھر مشرق میں دارپوش کے صوبوں میں ایک صوبہ ایسا بھی ہے جہاں ایک الگ قسم کے شیرپائے جاتے ہیں یہ شیرٹوان ون ہوتے ہیں، آگے سے شیراورپیچھے سے بچھویعنی ان کی دم بچھوکی طرح ڈنک دار، ڈنک کار اورڈنک مارہوتی ہے۔ اس کی اس بات پرکچھ محققین نے گرفت کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ واقعی چھوڑواورپھینکو بھی تھا، لیکن ہم ایسا کیسے مان سکتے ہیں آخر وہ بھی محقق ہم بھی محقق مطلب کہ …
ہم پیشہ وہم مشرب وہم رازہے میرا
غالب کو براکیوں کہواچھا مرے آگے
اس لیے اس کی طرف داری ہم پر لازم تھی سو ہم نے اپنا تحقیق کاٹٹواسٹارٹ کرکے ٹھان لی کہ ہیروڈوٹس پرسے یہ "پھینکو"اور"چھوڑو"کاالزام ہٹا کے رہیں گے جن صوبوں کااس نے ذکرکیاہے، اتفاق سے وہ ہمارے ہی اس علاقے میں تھے، سوہم نے اسی خطے میں شیرکامنہ اوردم تلاش کرناشروع کی اورکامیاب ہوئے، واقعی ایسے جانورہمیں مل گئے جوموقع ملے توشیر کی طرح پھاڑبھی ڈالتے ہیں اوراگر حالات سازگارنہ ہوں تو دم سے ڈنک بھی ماردیتے ہیں۔
اس جانورکو دیکھ کرایک پرانی کہاوت کابھی کباڑہ ہوگیا، وہ کہاوت یہ تھی کہ بادشاہوں کے آگے سے اور گھوڑے کے پیچھے سے نہیں گزرنا چاہیے، پھر آہستہ اس کہاوت میں ایڈیٹنگ ہوتی رہی تو اس میں بادشاہوں اورگھوڑوں کے علاوہ کچھ اورجانوربھی شامل ہوگئے جن میں کتااورگدھا بھی شامل ہوگیا کہ کتے کے آگے سے اورگدھے کے پیچھے سے نہیں گزرنا چاہیے لیکن پیچھے سے ڈنک والی بات بدستورنامعلوم تھی کہ لات مارنا الگ بات ہے لیکن پیچھے ڈنگ مارنا؟
اب یہ محض اتفاق کہیے یاخداکی ہم پر مہربانی کہیے کہ آگے پیچھے یایہ پھاڑنے اورڈنک مارنے کامسئلہ اچانک حل ہوگیا ہاں البتہ اس سلسلے میں ہم غیر ملکی حکومت کے بھی ممنون ہیں۔ ہوا یوں کہ ہمارے ہاں ایک مخلوق پیداہوگئی جس کے منہ ہی میں وہ ڈنک بھی تھا جوپیچھے ہوا کرتا تھا۔ ہم یہ بھول گئے تھے کہ ارتقائی عمل توجاری ہے اوراعضامیں "تبدیلی"توہوتی رہتی ہے۔ اس تبدیلی کے لفظ سے تبدیلیوں کاگویادبستان کھل گیا اوریہاں وہاں سے بہت ساری تبدیلیاں دم ہلانے لگی ہیں لیکن ہم اپنی توجہ اس دم پر مرکوزرکھیں گے جس میں نمدہ نہ ہوبلکہ ڈنک ہو۔
بہرحال ایسی ہی ایک چیزتھی، چیزاس لیے کہ اس کے بارے میں وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا تھا، شکل وصورت بالکل انسانوں کی تھی، سرخ کلغی مرغ کی تھی، منہ پھاڑکھانے کا سا تھا اور زبان سے بچھو سے ہزار گنا زہریلی ڈنک۔ اورپھر بدقسمتی سے اسے ایک چینل بھی مل گیاتھاجس کے ذریعے وہ ایک عالم کوچیرنے، پھاڑنے اورڈنک مارنے لگا یوں ہیروڈٹس کی بات جزوی طورپر درست ثابت ہوگئی، شیرکی بجائے لال کلغی کامرغ نکلاجس کی زبان میں ڈنک تھا، وہ ڈنک مارتا رہا چیرتاپھاڑتارہا، ایک دنیانالاں ہوگئی پھر فریادکناں ہوگئی اورپھر قدرت مہربان ہوگئی بمقام دیار غیر سے ایک خبر آئی اورپھر شڑاپ شڑاپ کی آوازیں اورپھر گھمبیر خاموشی۔
وہ آئے بزم میں اتناتوہم نے دیکھامیر
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
ویسے تو خدانے ہماری آنکھوں کو اس کی دید سے اورکانوں کو اس کی شنید سے بچارکھا ہے لیکن ایک مرتبہ کسی اورجگہ … مجبوری میں ہماری آنکھوں اورکانوں سے یہ گناہ عظیم سرزد ہواتو ہم نے وہ کوڑیاں دیکھ لیں جووہ دوردورسے لارہاتھا، اس دن شاید امریکا کی باری تھی بولا۔ ایک ڈالرکے نوٹ پر تم نے اہرام مصرکی تصویر دیکھی ہوگی۔
کیوں؟ آخر امریکی ڈالرپر اہرام مصرکی تصویر کیوں؟ مصرکاامریکا سے تعلق کیاہے، کہاں مصر اور کہاں امریکا؟ پھراپنی دانش کاسوئچ آن کرتے ہوئے …کچھ آگے کوجھکتے ہوئے اورآوازکوصیغہ رازمیں لاتے ہوئے …اس لیے کہ امریکا کاآئیڈیل فرعون ہے، وہ اس دنیا کافرعون بنناچاہتاہے بلکہ فرعون ہے، اسی لیے مصر کے فرعون کی نشانی اپنے نوٹ پر ثبت کی ہوئی ہے۔
ہم حیران رہ گئے، وہ تو ممالک کے نوٹوں پر دنیا کے اوراپنے ہاں کے عجائبات کی تصویریں عموماً چھاپی جاتی ہیں، ہمارے نوٹوں پر بھی باب خیبر، اسلامیہ کالج وغیرہ کی تصاویرہوتی ہیں شاید بھارت میں بھی تاج محل ولال قلعہ کی تصاویرہوں، لیکن دانشورنے تو اپنی جعلی دانشوری بگھارناتھی بگھارلی۔ ورنہ اگر امریکا اس اہرام مصرکی تصویرکو اپنی فرعونیت کی نشانی کے طورپر چھاپ رہاہے تو امریکا سے زیادہ احمق ساری دنیا میں کوئی اورنہیں کہ فرعون کی کسی اورنشانی کی بجائے اس کے مقبرے کی تصویرمنتخب کی یعنی آغازسے پہلے انجام۔ فرعون بننے سے پہلے فرعون کی قبر اورمقبرہ۔ گویاخودہی خود کو وارننگ کہ فرعون کاانجام یہی ہوتاہے۔
کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے اس ملک میں بھی کیاکیاعجوبے پائے جاتے ہیں، کیاکیادانش وریاں بگھاری جاتی ہیں، کیاکیابے پرکی ہانکیاں ہانکی جاتی ہیں اورمزے کی بات یہ کہ سنی بھی جاتی ہے۔ کیااس لیے کہ جیسادودھ ویسی ہی ملائی؟ جیسامنہ ویساتھپڑ۔