یہ جملہ ہمارے وژن اعظم کاگویاتکیہ کلام بن گیاہے۔ چاروں طرف مہنگائی کی ہاہا کارمچی ہوئی ہے، کرپشن اس نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے کہ دیکھوتوسرسے پگڑی گرنے لگتی ہے، ادارے اتنے بگڑے ہوئے ہیں کہ باقاعدہ بازارکی دکانیں بلکہ ریڑھیاں چھابڑیاں بن گئی ہیں، سرکاری ملازم صبح نکلتے ہی اپنے گھر کاکام کرنے لگتے ہیں ہرذمے دارادارہ یا فرد "بہرا"ہوچکا ہے۔ لاکھوں، کروڑوں، اربوں کے ہندسوں میں انسان صفرہوکررہ گیا ہے، نوکریاں باقاعدہ نیلام ہوکر بک رہی ہیں بلکہ یوں کہئے کہ افغانستان کی طرح ہرکوئی اپنی جگہ "وارلارڈ" بنا ہوا ہے اور وژن اعظم بدستوراپنے سنگت دینے والوں کے ساتھ… چوروں کو نہیں چھوڑوں گا… چھوڑ رہے ہیں۔
ذرا چینلوں، اخباروں، بیانوں اور ہواؤں سے "زمین" پر اترکر دیکھیے، کہ نئے پاکستان کے چمن میں کیاکیاگل کھل رہے ہیں اورکھلائے جارہے ہیں ریاست مدینہ میں کیاکیا "کفر" پنپ رہے ہیں۔
وہ ایک ملک کا قصہ توہم نے آپ کو سنایا ہو گا جہاں عوام بادشاہ اوراس کے ٹولے سے، ٹیکسوں سے نرخوں سے غربت سے اتنے تنگ آگئے کہ مظاہروں پر اترآئے، سارے ملک میں جلسے جلوس اوردھرنے پھوٹ پڑے اورایک بہت بڑا ہجوم یا دھرنا شاہی محل کے سامنے بھی ہونے لگا۔ آخربادشاہ کی طرف سے پیغام آیا کہ تم لوگ اپنا ایک نمایندہ منتخب کرکے شاہی محل بھیج دو جو بادشاہ کو تمہاری فریاد گوش گزار کرے، لوگوں نے ایک نمایندہ منتخب کرکے بھیج دیا۔
محل کی پہلی منزل پر شاہی محافظوں نے کہا کہ تم اپنے یہ "کان"نہیں لے جاسکتے اپنے کان یہاں چھوڑ دو اوریہ سرکاری کان لے کر جاؤ۔ اس نے کان بدلوا لیے۔ اچانک باہرسے آہ وبکا کے بجائے قہقہوں اور ڈھول تاشوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں، دوسری منزل پر آنکھیں بدلوائیں تو کھڑکی سے اس نے دیکھا کہ لوگ زربفت وکمخواب پہنے ناچ رہے ہیں، گارہے ہیں اور جو جنازے وہ ساتھ لے کر آئے تھے وہ ڈولیوں میں بدل گئے ہیں، تیسری منزل پر زبان بھی بدلوادی گئی تو بادشاہ تک پہنچ گیا۔ سامنے بیٹھے بادشاہ نے پوچھا کیا ہے؟ کیاتکلیف ہے، اس نے شاہی زبان کوحرکت دی، آواز نکلی کچھ بھی نہیں، سب خیروخیریت ہے ہرطرف خوشحالی ہی خوشحالی، عافیت ہی عافیت اورچین ہی چین ہے، بادشاہ زندہ باد، تاج وتخت کی خیر ہو گاڈ سیودی کنگ۔
کان، آنکھیں اور زبان تو "تبدیلی" والی چیزیں ہیں بلکہ ان کی کارکردگی ہی اصل تبدیلی ہے بلکہ اصل چیز ہی "اعضا" نہیں بلکہ اس کے کام ہیں، سنوائی، بینائی اور گویائی، وژن اعظم اورمعاونین خصوصی برائے… یہ بعض جملے اورباتیں بھی عجیب ہوتی ہیں بلکہ ادھوری ہوتی ہیں "چوروں کو نہیں چھوڑوں گا"ٹھیک ہے آپ کا فرمودہ سرآنکھوں پر، ہمیں یقین ہے آپ قول کے پکے ہیں، چوروں کوبالکل نہیں چھوڑیں گے لیکن پھرپہلے پکڑ تو لیجیے۔
یہ کیاکہ کنوئیں سے دوچارڈول نکال لیے جب کہ کنواں بھی بدستورہے اوراس میں مرا ہواکتا بھی پڑا ہواہے یایہ کہ پورے جنگل کے دوچارپیڑکاٹ کر کہا جائے کہ ہم نے جنگل کو کاٹ ڈالاہے۔ وہ بھی کہتے ہوئے کس نے دیکھا صرف آوازیں آرہی ہیں یاپتے گرتے دکھائی دے رہے ہیں البتہ جنگل میں درندے پہلے کیاکم تھے کہ نئے نئے لاکرچھوڑے جارہے ہیں۔
یہ کیاکہ اک جہاں کو کرووقف اضطراب
یہ کیاکہ ایک دل کو شکیبانہ کرسکو
اصل میں یہ معاملہ تقدم وتاخیرکایااول وآخر کاہے جیسے "نہیں چھوڑوں گا"سے پہلے پکڑوں گا۔ ایک وقت میں ایک حکومت نے جی ہاں اسی ملک کی حکومت نے اسلحہ جمع کرنے کا ایک ڈرامہ بھی کیاتھاکہ جس جس کے پاس اسلحہ ہے وہ لاکر تھانوں میں جمع کیاجائے (تاکہ دوبارہ بیچا جا سکے) ورنہ…اس ورنہ کے بعد جو ورنہ تھا وہ کبھی نہیں ہوا۔
ہوا صرف یہ کہ جن لوگوں کے پاس اسلحہ کے ڈھیرتھے انھوں نے کہیں سے کوئی کباڑی بندوق یاپستول لاکر جمع کر دیا۔ اورہتھیارختم ہوگئے۔ …ٹھیک اسی طرح جس طرح آج کل چورختم کردیے گئے ہیں۔ یا نہیں چھوڑے جارہے ہیں۔ ہمارے پاس ثبوت تو نہیں ہے لیکن ایک طریقہ ہے جو ریاست مدینہ میں چل سکتاہے کہ موجودہ دورکے کسی بھی وزیر، وزیرمملکت، معاون خصوصی یاعمومی اور منتخب عوامی نمایندوں یاافسروں سے قرآن پرہاتھ رکھوا کر پوچھاجائے کہ انھوں نے کسی ایک ایسے شخص کو ملازمت دلوائی ہے جو میرٹ پر ہو، اور"اپنا" یارشوت دیے بغیر ملازم ہواہو، اگر دس بھی نکل آئے تو جو ان کی سزا وہ ہماری۔