کسی نے کہا ہے اور یقیناً کسی بزرگ نے کہا ہوگا کیونکہ بزرگوں ہی نے کہا ہے کہ بزرگوں کی باتیں کتابوں کے برابر نہیں تو کتابوں سے کم بھی نہیں ہوتیں۔ یعنی کتابوں کی باتوں سے اگر اونچی نہیں ہیں لیکن نیچی بھی نہیں ہیں اور یہ ہم نے سوفیصد مان لیا ہے کیونکہ بزرگوں نے یہ کہا ہے کہ ہر برائی میں کوئی نہ کوئی بھلائی اور بھلائی میں کوئی نہ کوئی برائی ضرور ہوتی ہے۔
اب اس کورونا وائرس عرف کوئڈنائنٹین کو لے لیجیے، کتنی بڑی بیماری تھی یا ہے۔ اتنی زیادہ کہ ساری دنیا کے بڑے بڑے سورماؤں کے پسینے چھوٹ گئے، مسیحا بیمار پڑگئے، قاتل مقتول ہوئے، زورآور کمزور ہوگئے یہاں تک کہ لیڈروں میں "کچھ"انسان بن گئے۔ یعنی ایک جہاں کو اس نے وقف اضطراب کردیا لیکن پھر کچھ دلوں کو "شکیبا"بھی کردیا۔ ہم ان "دلوں " کی بات نہیں کر رہے ہیں جنھوں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے بلکہ کچھ تو آشنان بھی کرگئے جن کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا تھا اور اس"چھینکے"میں ان کے لیے بہت کچھ تھا
شفق دھنک مہتاب ہوائیں بجلی تارے نغمے پھول
اس دامن میں کیاکیا کچھ تھا جن کے ہاتھوں میں وہ دامن آیا بلکہ ہم اپنے جیسوں کی بات کررہے تھے جو تیمارداری اور تیمارداروں کے ہاتھوں کے مارے ہوئے تھے۔ اتنی تکلیف ہمیں کبھی کسی بیماری یا حادثے سے نہ ہوئی جتنی اس کے سائیڈ ایفکٹ یا آفٹر شاک یعنی تیمارداری سے ہوتی رہی ہے۔
تیمارداری یا عیادت کو پشتو میں "تپوس" کہتے ہیں لوگ تیار بیٹھے ہوتے ہیں جن پر ان کی دعاؤں سے کوئی آفت ٹوٹتی ہے تو کیل کانٹے سے لیس ہوکر بیچارے پر ہلہ بول دیتے ہیں۔ اتفاق کہیے یا ہماری طبیعت کا ٹیڑھا پن کہ ہم ابتدا سے تیمارداروں اور تیمارداری سے الرجک ہوگئے تھے۔
ہوا یوں کہ ہم نے موٹر سائیکل کا ہلکا سا ایکسیڈنٹ کیا۔ لوگوں کوہماری نادانی سے پتہ چلا تو "تپوس"کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہر ہر تیمار دار کو حادثے کی تفصیل سنانا پڑتی پھر سوالوں کا سیشن چلتا۔ کہاں ہوا کیوں ہوا کیسے ہوا غلطی کس کی تھی۔ اس کے بعد احتیاطوں اور چند تیربہدف نسخوں کا سلسلہ چلتا۔ تنگ آکر ہم نے اس کا ایک حل نکالا کہ حادثے کی پوری تفصیلات چھوٹی چھوٹی جزئیات کے ساتھ ٹیپ ریکارڈ میں ریکارڈ کروا لیں جیسے کوئی تیماردار آتا ہم بٹن آن کر دیتے لیکن سوالات اور نسخہ جات کا سلسلہ پھر بھی جاری رہتا۔ اس کے بعد ہم نے کافی غور وحوض کے بعد ایک زبردست اور تیربہدف حل نکال لیا۔
جب بھی کوئی ایسی بات ہوتی ہم ایک کمرے میں چھپ کرلیٹ جاتے۔ کچھ خواتین کو اگر ہمارے یوں لیٹنے سے تجسس ہوجاتا تھا تو گھر والوں کوہم نے سمجھا رکھاتھا۔ وہ کہتے کچھ نہیں دانت میں درد ہے کیونکہ کافی تحقیق کے بعد ہم نے پتہ چلایا تھا کہ دانت درد کی تیمارداری یا"تپوس"نہیں ہوتی۔ کچھ خواتین پھربھی کوئی"برا ارادہ"کرتیں تو اس کے لیے بھی ہم نے گھروالوں کو آموختہ ازبر کروایا تھا۔
ابھی ابھی گولی کھاکر نیند آئی ہے۔ چنانچہ وہ خطرناک خواتین صرف "نسخے"بتاکر دفع دور ہوجاتیں۔ پھر ہماری سمجھ میں مرشد کے وہ اشعار بھی آگئے جو ابھی تک نہیں آئے تھے۔
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
بلکہ ہم سوچتے ہیں کہ کیا اس زمانے میں یہ کوئڈ نائنٹین یا کوئی اوراس طرح کی چیز آئی تھی کیا؟ ۔ یا یہ مرشد کی روشن ضمیری تھی
بے درودیوارسا ایک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
یہ "بے درودیوار سا"گھر شاید اس لیے کہا ہے کہ کھلی ہوا میں وہ بیماری تحلیل ہوگی ویسے بھی اس زمانے میں طبی معلومات اور یہ قرنطینہ کا تصور شاید نہیں تھا لیکن اگلے شعر میں توبات صاف ہوجاتی ہے کہ
پڑیے گربیمار توکوئی نہ ہو"تیماردار"
اور اگر مرجایے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
صاف صاف کوئڈ نائنٹین جیسے "لاک ڈاؤن" کی بات ہے کیونکہ آپ کو خود یاد ہوگا کہ یہی ماحول تھا اور اب بھی کسی حد تک ہے۔ خیرہمیں کیا۔ ہمیں تو تیمارداری اور بیمارداری سے نجات مل گئی۔
تیرا شکریہ کوئڈنائنٹین۔ ورنہ یہ تیماردار اور بیمار دار تو ہماری جان لے لیتے بیماری سے نہ سہی " تیمارداری سے سہی۔ گویا بزرگوں کا وہ کہا سچ ہوا کہ برائی میں بھی بھلائی کی صورت نکل سکتی ہے یاکم ازکم کسی کے لیے تو نکل سکتی ہے اور یہاں تو صرف ہمارے لیے نہیں نکلی بلکہ ہماری حکومت کے بہادروں سورماؤں اور ید ماؤں کے لیے بھی بہت بڑی بڑی سہولتیں اور مراعات نکل آئیں۔
جو کورونا سے "خوب خوب" لڑے اور کشتوں کے پشتے لگادیے۔ لیکن ہمیں ان سے کیا۔ ہمیں تو اپنی سہولت سے غرض ہے جو اتنی بھرپور ملی کہ وہ مرشد کی تمنا ہمیں گھر بیٹھے بیٹھے مل گئی نہ کہیں "چل کر"کسی دور دراز کے مقام پر رہنا پڑا نہ ہی کوئی دوسرا نیا "بے درودیوار" سا گھر بنانا یا ڈھونڈنا پڑا، نہ کسی بیماردار یا تیماردار کو مارنا پڑا سب کچھ گھر بیٹھے بیٹھے مل گیا۔
اب ہم کو اپنی نکتہ چینیوں پر ندامت ہے جو ہم حکومت کے "بیانیوں " پرکرتے ہیں اور جن میں انصاف کے علاوہ بھی بہت کچھ دہلیز اور کچن تک پہنچانے کی خوش خبریاں ہوتی تھیں، وہ بالکل سچ کہتے تھے ہمیں سب کچھ دہلیز پر، کچن میں اور بستر پر پڑے پڑے مل گیاہے۔
سارے "تپوس"والے کچھ توخودبخود ڈرکے مارے غائب ہوگئے اور کچھ کوہم نے خود صرف ایک چھینک سے بھگادیا۔ ہاں تو ہم نے بتایا نہیں کہ کورونا کے دنوں میں ہمیں جب کوئی تپوس والا ملتا یا شبہ ہوتا کہ کہیں "تپوس"پر نہ اتر آئے توہم دور ہی سے چھینک نکالتے بلکہ اکثر احتیاط سے کھانسنے بھی لگتے اور اس میں اب اتنے طاق ہوگئے کہ وقفے وقفے سے ایک چھینک نکالتے رہتے کیا پتہ قرب وجوار میں کوئی تپوس والا ہو، ہمیں دکھائی نہ دے رہا ہو۔