یہ جناب "ہم دیکھیں گے"۔ گلوں میں رنگ بھرے۔ اور تاج و تخت گرانے والے جناب فیضؔ نے فرمایا ہے
اک گردن مخلوق جو ہرحال میں خم ہے
اک بازوئے قاتل ہے جو خونریز بہت ہے
جناب فیضؔ کی زندگی نے وفا نہیں کی اس لیے وہ صرف "گردن مخلوق" کا پتہ دے پائے لیکن "بازوئے قاتل" کے بارے میں کچھ بتا نہیں پائے۔ ظاہر ہے کہ بحیثیت محقق یہ کام ہم ہی نے پورا کرنا ہے کہ یہ "بازوئے قاتل" کہاں ہے کیوں ہے اور کس کا ہے؟ ویسے بھی ہم ان دنوں فارغ بیٹھے ہیں کہ ریاست مدینہ میں سب کچھ وافر مل رہا ہے، رعایا چین کی بانسریاں بجا رہی ہیں جن کو "معاون خصوصی" کہا جاتا ہے شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ بلکہ بوتل کا پانی پی رہے ہیں لوگ سونا اچھال اچھال کر کھیل رہے ہیں جس کے نتیجے میں سونا اتنا اچھل گیا ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے سروں کی پگڑیاں، ٹوپیاں اور دوپٹے برقعے گرانا پڑتے ہیں۔
روزگار وافر، گھر مفت، سب کچھ دہلیزپر یعنی ہاتھ بڑھانا بھی ضروری نہیں صرف خواہش کرنے پر سب کچھ حاضر۔ انصاف کا جن، وژن کے سینگ لگائے، حکم میرے آقا۔ ایسے میں ہمیں یونہی بیکار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا اچھا نہیں لگا، تو سوچا چلو تحقیق کا ٹٹو اسٹارٹ کر کے اس "بازوئے قاتل" کو ڈھونڈا جائے۔
آپ تو جانتے ہیں کہ تحقیق کا بنیادی اصول ہے۔"معلوم" سے نامعلوم کا پتہ لگانا۔ اور سارے تحقیقی ادارے اکیڈمیاں اسی اصول پرکاربند ہیں کہ "معلوم" تنخواہ سے نامعلوم کاموں کو ڈھونڈتے رہیے۔ اور یہ کام ویسا ہی ہوتا ہے جیسے ایک شوہر نے اپنی بیوی کی محبوب بلی ڈھونڈنے کے لیے اختیار کیا۔ اس نے اخبار میں اشتہار دیا کہ جو کوئی اس بلی کو ڈھونڈ کر لائے گا اسے دس لاکھ ڈالر انعام دیا جائے گا اس کے ایک دوست نے اس سے پوچھا کہ دس لاکھ ڈالر تو بہت بڑی رقم ہے اگر کوئی بلی لے کر آ گیا تو کہاں سے ادا کرو گے۔
اس نے ہنستے ہوئے کہا کیسے لائے گا بلی کو تو میں پہلے ہی مار کر زمین میں گاڑ چکا ہوں یہ تو محض بیوی کو خوش کر رہا ہوں۔ یہ سارے تحقیقی ادارے اکیڈمیاں بھی اس بلی کو ڈھونڈ رہی ہیں جو انھوں نے اپنے ہاتھ سے اپنی کرسیوں کے نیچے دفن کی ہوئی ہے یہ باقی تام جھام تو صرف کالانعاموں کو خوش کرنے کے لیے ہے۔
خیر یہ تو الگ سا ایک بہت بڑا موضوع ہے جو "کام نہ کرنا"ہو اس کے نہ کرنے کے لیے اتنے ادارے بنانے کی کیا ضرورت ہے صرف "کرنا"، کام نہ کرنے کا کام تو ایک دو آدمی کر سکتے ہیں اس پر کبھی تحقیق کا ٹٹو دوڑائیں گے فی الحال تو "بازوئے قاتل" کی تحقیق کرنا مقصود ہے اور اس کا قاعدہ کلیہ معلوم سے نامعلوم اور موجود سے ناموجود کا پتہ لگانا ہے، سو اس قاعدے کے مطابق ہمارے پاس "گردن مخلوق" موجود ہے لیکن یہ کام جتنا آسان لگتا تھا اتنا تھا نہیں کیونکہ جب ہم نے گردنوں پر نظر ڈالی تو ساری خم تھیں۔ اور کچھ دوسری چیزوں کے باعث خم تھیں، کہیں ہاروں، تمغوں اور طغروں کے لیے جھکی ہوئی گردنیں تھیں تو کہیں ٹوپی، پگڑی اور دستاروں کے لیے جھکی ہوئی گردنیں۔ ہمارے خیال میں یہ ساری گردنیں کاٹنے کے لائق تھیں۔
لیکن یہاں بازوئے قاتل دکھائی نہیں دیا، سارے ہی بازو "خمائل" تھے اور یہ گردنیں بہت موٹی اور زینہ دار تھیں جب کہ "بازوئے قاتل" کو پتلی گردنیں پسند ہوتی ہیں کہ لگتی ہے اس میں محنت کم، بہت ہی کم۔ جہاں تک موٹی سیڑھی دار گردنوں کی بات ہے وہ نہ تو کبھی کٹی ہیں اور نہ کٹیں گی، کہ مردار بوٹی پر کوئی مردار جانور بھی منہ نہیں مارتا بلکہ اس کے لیے مرشد نے جو نسخہ تجویز کیاہے وہ بہت ہی گراں بہا ہے
"گولی"بغیر مر نہ سکا لیڈر اے اسدؔ
بچپن میں وہ پیے ہوئے بلی کا دودھ تھا
وہ تو اچھا ہوا کہ ہمارے ٹٹوئے تحقیق کو ایک دانائے راز نے صیغہ راز میں بتایا کہ تمہیں جس "بازوئے قاتل" کی تلاش ہے اسے کہیں دبلی پتلی گردنوں کے آس پاس تلاش کرو کہ ان دبلی پتلی گردنوں کو اس غرض سے دبلی پتلی رکھا جاتا ہے کہ بازوئے قاتل کو زیادہ زور نہ لگانا پڑے۔ سو ہم دبلی پتلی گردنوں کی تلاش میں نکل پڑے اور وہ ہمیں آسانی سے مل بھی گئیں۔ اور پھر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی بچہ بغل میں تھا اور ہم ڈھنڈورہ شہر میں پیٹ رہے تھے۔ ان گردنوں کو تو ہم صدیوں سے جانتے پہچانتے تھے کہ سارے ہمارے ہی "ہم گردن" تھے۔
ہماری اپنی گردن ہی کے رشتے دار تھے سارے کے سارے انھی "کالانعاموں " کی گردنیں۔ جو ملٹی پرپز تھے اور گردنوں کی اتنی پتلی ہونے کا راز بھی ہمیں معلوم تھا۔ ایک کالانعام جوبیک وقت انڈے بھی دے اور دودھ بھی، جو بیک وقت اون بھی دے اور کھالیں بھی، اور جو ساتھ ہی "تیل" کے موبائل کنویں بھی ہوں تو کیا ان کی گردن پتلی نہیں ہو گی تو کیا ہو گی۔ بلکہ ان کو گردنیں کہنا ہی گردنوں کی توہین ہے۔ یہ تو کچھ فٹ بال تھے جو ایک پتلی سی تیلی پر ٹکے ہوئے تھے جیسی بعض مکھیوں کی کمر ہوتی ہے
ہے کیا جو کس کے باندھیے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمرکو میں
اب اس ندارد کمر کی طرح گردن ہو تو کس بازوئے قاتل کا جی نہیں چاہے گا کہ مشق ستم کر لے۔ ارے یہ کیا یہ بازوئے قاتل تو کچھ زنانہ سا لگتا ہے اور پھر ہمارا معاملہ ہم پر روشن ہو گیا۔ یہ بازوئے قاتل تو کرائے کا تھا اور موٹی گردنوں نے اسے پتلی گردنیں کاٹنے کی "سپاری" دی ہوئی تھی۔ نام اس کا ساری دنیا کو معلوم تھا کہ عالمی سطح کی ٹارگٹ کلر تھی۔
اور نام تھا مہنگائی بیگم۔ ظاہر ہے کہ ایک بار پتہ چل گیا تو پھر سارے کے سارے پتے چل گئے۔ ہمارے ملک کی فربہ گردنوں کو کسی نجومی نے بتایا تھا کہ اپنی گردنوں کو سلامت، فربہ، موٹی اور سیڑھی دار رکھنا ہو تو قربانی دو اور پھر انھوں نے زرکثیر صرف کر کے بلکہ عالمی ساہوکار آئی ایم ایف سے قرض لے کر اس "بازوئے قاتل" کو سپاری دی کہ پتلی گردنوں کی کٹائی ہی میں فربہ گردنوں کی سلامتی ہے۔ جیسے اکثر لوگ اپنی بلا ٹالنے کے لیے کالے بکرے یا سفید مرغے قربان کرتے اسی طرح گردنوں کی حفاظت کے لیے گردنوں کی قربانی ناگزیر ہے
اک گردن مخلوق جو ہر حال میں خم ہے
اک بازوئے قاتل ہے جو خونریز بہت ہے