علم غیب کے بارے میں تو سب جانتے ہیں کہ اکثربرسراقتدار جب کہ برسرکرسی وزیروں کو آتاہے جو اس کا اظہاراپنے بیانوں میں "گا۔ گے۔ گی"کی صورت میں ہوتا ہے جب کہ وزرائے ومشیرائے اطلاعات کے بیانوں میں "ہے، ہا ہی"کی شکل دکھایاجاسکتاہے۔
لیکن علم غیب اور افعال غائبانہ کو سمجھانے کے لیے ہمیں کچھ حکایات کچھ تمثیلات اور اقوال زریں کا سہارا لینا پڑے گا مثلاً ہم اکثر افعال غائبانہ کی صورت میں بہت سارے لوگوں کو تہ و تیغ کرتے ہیں بلکہ آپ سے کیا پردہ کچھ خواتین کو ہراسگی کا شکار بھی بناتے رہتے ہیں مثلاً خواتین یا کلین شیو لوگ اپنی غیرموجودمونچھوں کو تاؤ دیتے ہیں یا جو لوگ "بے دمے" ہونے کے باوجود دم ہلانے کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں اس قسم کے افعال کو "افعال غیب"کہاجائے یا نہ کہاجائے لیکن ہم نے تو نام دے دیاہے۔ اس سلسلے میں اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کی داڑھیاں مونچھیں اور دمیں ان کے پیٹ میں ہوتی ہیں بلکہ ہم نے تو یہاں تک سناہے کہ کچھ لوگ پوری پوری پارٹیوں تنظیموں مدرسوں اور مسجدوں کو بھی اپنے پیٹ ہی میں بناتے اور رکھتے ہیں۔
یہ بات ہمیں قہرخداوندی چشم گل چشم نے بتائی کہ علامہ بریانی ایسی بہت سی چیزیں بلکہ عمارتیں اپنے پیٹ ہی میں رکھتے اور تعمیرکرتے ہیں۔ پتہ نہیں وہ قصہ ہم نے آپ کو سنایاہے یا نہیں جب ایک دیہاتی نائی ایک خان کے ساتھ میت کا فاتحہ پڑھنے گیاتھا۔ خان کی حجامت وغیرہ بناتے ہوئے جب اسے پتہ چلا کہ خان پڑوس کے گاؤں میں ایک فاتحہ پڑھنے جارہاہے تو اس نے کہا کہ مجھے بھی ساتھ لے چلیے۔ تانگے میں بیٹھ گئے تو نائی نے خان سے پوچھا کہ فاتحہ میں کیا کرنا ہوتاہے۔
خان نے کہا کہ بس "دعا"کرلیتے ہیں اور میت کے بارے میں ایک دو تعریفی جملے کہہ دیے جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر خان ابھی لوگوں کے ساتھ علیک سلیک کررہاتھا کہ نائی نے فاتحہ پڑھنے کا اعلان کیا ہاتھ منہ پر پھیرنے کے بعد اب کچھ تعریفی جملے کہناتھے، بولا خدا بخشے مرحوم کی داڑھی کے بال بہت نرم وملائم تھے۔ خان نے ٹوک دیا کم بخت مرنے والی عورت ہے۔ نائی نے اپنی غلطی درست کرنے کی نادرست کوشش کرتے ہوئے کہا۔ مرحومہ خاتون تھیں لیکن اتنی بزرگ اور نیک تھیں کہ خدا نے اسے داڑھی عطاکی ہوئی تھی خان نے پھر کہنی ماری کہ خدامارے مرحومہ کی داڑھی نہیں تھی۔
نائی بولا مرحومہ اتنی نیک وپاک باز تھی کہ خدانے داڑھی اس کے چہرے پر نہیں پیٹ پر دی ہوئی تھی۔ جس طرح"علم غیب"پر آج کل ان وزرائے قوم مشیرائے ملت کی مکمل اجارہ داری ہے اسی طرح فعل غیب اور "افعال غیب"بھی صرف وزیران کرام اور مشیران عظام ہی کے نام پر رجسٹرڈ ہیں۔ پہلے مراحل میں جب"چاند"میری پھول میرا وطن کے نام کچھ اور ہواکرتے تھے "مملکت خداداد" "اسلامی جمہوریہ" سایہ خدائے ذوالجلال "سوہنی دھرتی اللہ رکھے"ہواکرتے تھے تو یہ"عالمان غیب"اور فاعلان غیب بھی معدوے چند ہوا کرتے تھے جومنصبی لحاظ سے وزیر باتدبیر ہوتے تھے۔ چنانچہ ایوب خان کے زمانے میں انھی عالمان غیب نے مژدہ سنایا کہ ملک آیندہ غلے میں خود کفیل ہوجائے گا لیکن اس میں اب اس عالم غیب وزیرکا کیا دوش کہ وہ اگلا سال پکڑکر نہیں دے رہاتھا اور ہمیشہ اگلا سال ہی رہتاہے۔
جب لوہار کے بیٹے نے اپنے باپ کو بتایا کہ ایک شخص یہ لوہا لایاتھا چھری بنانے کے لیے اور میں نے کجھور کی گھٹلی وہاں پھینکتے ہوئے کہا کہ جب اس کجھور کی گھٹلی کا پودا پھر درخت اور پھل داردرخت بن جائے گا تو چھری کے لیے آجانا۔ لوہار نے اپنا اور بیٹے کا سر پیٹتے ہوئے کہا کم بخت کھجور کی گھٹلی تو دو دن میں سرسبز پھر پودا پھر پیڑ اور پھر پھلدار درخت ہوجائے گی اسے "کل"کا وعدہ دیاہوتا جو کبھی نہیں آتی کیونکہ جب بھی آتی ہے تو آج ہوچکی ہوتی ہے۔
تو علم غیب میں اگلا سال اگلا دن اور کل نہایت ناقابل گرفت ہیں اس لیے عالمان غیب اس کا استعمال جی بھر کرکرتے ہیں لیکن موجودہ حکومت اور اس کے عالمان غیب کے ساتھ کا تعلق ریاست مدینہ سے ہے اس لیے علم غیب کے ساتھ افعال غیب بھی ان سے صادر ہوتے ہیں جن کی اطلاع اکثر محترمہ فردوس عاشق اعوان اور ہمارے شوکت علی یوسفزئی روزانہ بنفس نفیس دیتے رہتے ہیں۔ مثلاً "کرپشن"مکمل طور پر ختم کی جاچکی ہے کم ازکم سرکاری سطح پر مکمل طور سے مٹائی جاچکی ہے ہاں عوام یا اپوزیشن والے کرپشن کرتے ہیں لیکن ان کو بہت جلد آہنی ہاتھوں سے پکڑکرکیفرکردار تک پہنچادیاجائے گا۔ غربت بیخ وبن سے اکھاڑی جاچکی ہے بے ورزگاری کا قلع قمع کیاجاچکاہے مہنگائی کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاچکی ہے اور قرضوں کانام تک مٹایا جاچکا ہے۔
اس فعل غیب اور افعال غیب کانمونہ ہم ایک اور حکایت میں پیش کرنا چاہتے ہیں جو بڑی دیر سے دم ہلا رہی ہے وہی دم کو ہے ہی نہیں۔ کہتے ہیں ایک بادشاہ نے ایک جولاہے سے کہا کہ تم میرے لیے ایک ایسا لباس بنالاؤ جو آج تک نہ بنا ہو نہ آیندہ بننے کا امکان ہو اور اگر نہ بناسکے تو پھر ہم تمہارا اور تمہارے خاندان کا وہ حشر کریں گے جو آج تک کسی نے کسی کا نہیں کیاہوگا۔ مقررہ مدت ختم ہونے پر جولاہے نے بادشاہ کو خوشخبری سنائی کہ لباس تیار ہوچکاہے کل دربار میں پیش کیا جائے گا۔ کل پورا دربار منتظرتھا کہ اتنے میں جولاہا آتاہوا دکھائی دیا اور اس نے دونوں ہاتھوں کو ایسے اٹھارکھاتھا جیسے بہت ہی قیمتی اور محترم چیز اٹھائے ہوئے ہو۔
دربار پہنچ کر اس نے اعلان کیا کہ یہ لباس ہے لیکن اس میں ایک اضافی خوبی میں نے یہ ڈالی ہے کہ یہ صرف ان لوگوں کو دکھائی دیتی ہے جو حلالی ہو حرامی لوگوں کویہ بالکل دکھائی نہیں دیتی۔ اب کون تھا جو لباس نہ دیکھنے کی بات کرکے اپنا اور اپنے والدین کا بھانڈا پھوڑے سب نے یک زبان ہوکر لباس کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کیے، واہ جی کیا زبردست پگڑی ہے کیارنگ ہے کیا نقش ونگار ہیں بادشاہ بھی اپنی والدہ کے بارے میں ہی مشکوک ہوگیا لیکن اس کا اظہار بھرے دربار میں تو نہیں کر سکتا۔ چناچہ جولاہے نے بڑے احترام آرام اور اہتمام سے بادشاہ کو پہلا لباس اتار کروہ جادوئی لباس پہنادیا جسے دیکھ کر سارے وزیر اور درباری اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوگئے اور آج تک ہیں اسے کہتے ہیں "افعال غیب"یا افعال غائبانہ۔