اپنے ہاں تو خدا کے فضل سے حکومت کی عقل سے اور سیاسی اور دینی جماعتوں کے فعل سے "سب اچھا"ہے۔ سارے کے سارے نہایت ہی مخلص، بے غرض اور پاک وپاکیزہ لوگ ہیں اور صرف "ثواب"کے لیے لوگوں کو جنت اور ثواب دارین کی راہیں دکھائی جاتی ہیں لیکن پڑوسی ملک میں تو ایسا لگتا ہے جسے "دھرم"کا ایک بہت بڑا میلہ لگا ہوا ہے۔
دھارمک آئٹمز کی بازار میں اتنی بھرمار ہے کہ کسی گٹھڑی میں بھی ہاتھ ڈالو تو دو چار مذہبی دھارمک آئٹمز ہاتھ آجاتے ہیں، پانی تک میں بھی کوئی نہ کوئی دھارمک یا دیوتائی چیز ملائی گئی ہوگی۔ تمام دیوی دیوتاؤں کی بابرکت انگھوٹھیاں، کنگن اور نہ جانے کیا کیا بناکر بیچا جارہاہے۔
دیوتاؤں کے ناموں کو اور پوتر استھانوں کو یوں بیچا جارہاہے جسے ہمارے ہاں رمضان میں پکوڑے یا سموسے بیچے جاتے ہیں لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ نہ تو یہاں دینی مقدس نام بیچے جاتے ہیں نہ مقام اور نہ کلام البتہ ثواب کی خاطر، خلق خدا کی فلاح کی خاطر اور عالم اسلام کی اصلاح کی خاطر نام اور مقام استعمال کیے جاتے ہیں۔
اسکولوں سے لے کر جھولوں تک، دواوں سے لے کر دعاؤں تک اور پنکھوں سے لے کر واشنگ مشینوں تک اگر کچھ کیا جاتا ہے تو صرف اور صرف فی سبیل اللہ، ثواب دارین اور خلق خدا کی محبت کی خاطر کیاجاتا ہے۔ لیکن وہاں! وہ تو بنیے ہیں۔ سکہ دیکھے بغیر گرتے نہیں تو دھرم کو کیوں نہ بیچیں گے، سو بیچ رہے ہیں اور بڑے "وستار"سے بیچ رہے ہیں بلکہ اور کچھ بیچتے ہی نہیں صرف مذہب یعنی دھرم بیچتے ہیں۔
دھارمک مقدسات بیچتے ہیں، نام بیچتے ہیں، کام بیچتے ہیں بلکہ دھرم کا استعمال صرف اور صرف بیچنے کے لیے کرتے ہیں کہ ہے بیچنے کی چیز اسے بار بار بیچ۔ ایسا کوئی دیوی دیوتا نہیں جسے بیچا نہ جارہاہو، اس کے نام کے کنگن، انگھوٹیاں اور نشانیاں بیچی جارہی ہوں حتیٰ کہ گنگا کا پانی تک بیچا جارہاہے حالانکہ اپنے ہاں بھی زمزم کا پانی ہے لیکن مجال ہے جو کسی نے بیچا ہو، اگر کسی شربت اور مشروب میں زمزم کا پانی ملایا جاتا ہے تو اس پر صاف صاف لکھا جاتا ہے کہ۔ اس میں زمزم کا پانی شامل ہے جس کی قیمت نہیں لی جارہی ہے۔
لیکن وہ بنیے لوگ پکے سود خور ہیں، بیاج کے بغیر بات بھی نہیں کرتے۔ لیکن بفضل خدا ہمارے ہاں کے مسلمان سود کے نام سے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں بلکہ جب سے ملک کا نام ریاست مدینہ رکھا گیاہے تو "سود"تو ایک طرف "سود" کا(س) بھی نہیں کھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ تمام بینکوں میں بھی سودی نظام ختم کر دیا گیاہے اور سب کو مشرف اسلام کردیا گیا ہے، حکومت بھی بلوں وغیرہ یا بقایاجات پر سود نہیں لیتی، صرف ثواب لیتی ہے۔ لیکن وہاں توبہ توبہ…
ہورہاہے جہاں میں اندھیر
زلف کی پھر سررشتہ داری ہے
تازہ ترین بیسٹ سیلر چیز میرو یا کچھوا رنگ ہے کیونکہ "وشنومہاراج"جسے طرح طرح کے اوتار لینے کا بے حد شوق ہے، اس نے ایک مرتبہ کچھوے کی شکل میں اوتار لیا تھا چنانچہ کچھوے کی شبیہہ والی انگھوٹھی آج کل بیسٹ سیلر ہے، ہر ہر چینل پر ایک گھنٹے کے پروگرام میں ان تمام لوگوں کو سامنے لایا جاتا ہے جن کی میرو رنگ سے کایا کلپ ہوگئی۔
"میں بڑی چنتت تھی کہ میرا واوہ نہیں ہورہاتھا، رنگ کالا اور قد ٹھنگنا ہونے کی وجہ سے کوئی مجھ سے وواہ کرنے کو تیار نہیں تھا۔ پھر کسی نے مجھے "میرو رنگ"کے وشے میں بتایا جیسے ہی میں نے میرو رنگ خرید کر پہنی، میری تو کایا کلپ ہوگئی۔ رنگ نکھر کر گورا چٹا ہوگیا، قد بڑھتے بڑھتے چنار ہوگیا، اتنے رشتے آنے لگے کہ راستہ ہموار ہوگیا، بہت بڑے کرم چاریوں اور نیتاؤں کے رشتے آنے لگے جو اتنے سندر اور دھنوان تھے کہ میرا"ہردے"چاہنے لگا کہ آٹھ دس کے ساتھ پھیرے لوں۔ آج کل میں ایک بڑے ویاری کی پتنی نمبرون ہوں۔
میں بے روزگار، بھوکا بے کار تھا، غربت کا شکار تھا، سوائے بازار تھا اور اپنے پرائیوں کے بار تھا۔ لگتا تھا کہ ایک دین تنگ آکر آتم ہتھیا کرلوں گا۔ لیکن پھر مجھے میرو رنگ کے ابرے میں پتہ چلا بھگوان کی برکت اسی دن سے مجھ پر نوکریوں کی برسات ہوگئی حالانکہ میں ان پڑھ ہوں لیکن آج کل ایک بڑی کمپنی کا ڈائریکٹر ادھیکش یعنی ڈائر کٹر جنرل ہوں، بیس لاکھ رشوت مہینے کی لیتاہوں، چار بڑے بڑے بھون ہیں، گھر ہیں۔
وارے بھی ہیں نیارے بھی اور کت کتارے بھی۔ میرو رنگ تیار دھنے واد۔ میری ایک چھوٹی سی دکان تھی جو بڑی بڑی دکانوں کے درمیان تھی لیکن گاہک نہ آنے کی وجہ سے ویران تھی، دن بھر میں کوئی دو ٹکے کا سودا خریدنے ادھار چڑ رہا تھا، خرچہ بڑھ رہاتھا، دنیا سے لڑ رہاتھا، شرم سے گڑ رہاتھا، بیوی سے لڑرہاتھا، بھگوان کا لاکھ لاکھ دھنے واد کہ میں نے میرو رنگ کے بارے میں سنا۔ ادھر ادھر سے ادھار لے کر میرو رنگ خریدی۔ ایسا لگا جیسے مجھ پر دھن کی برسات ہوگئی، دکان گاہکوں کی بارات ہوگئی۔ کمائی کی بہتات ہوگئی۔
آج میں ایک بہت بڑی کمپنی کا اکیلا اونر ہوں۔ پورے دیش میری کمپنی کی شاکھائیں ہیں۔ ایکسپورٹ اور امپورٹ کا بزنس بھی شروع کرچکا ہوں اور ہوائی جہاز بنانے والی انڈسٹری کے لیے زمین بھی خرید چکا ہوں، یہ سب میرو رنگ کا چمتکار ہے۔ خلاصہ اس سارے کالم کا یہ ہے کہ پڑوسی ملک میں مذہب یعنی دھرم ایک انڈسٹری، ایک تجارت اور ایک جائیداد ہوگئی ہے اور وہ بڑی ڈھٹائیسے اپنے دھارمک مقدسات بیچ رہے ہیں لیکن اﷲ بچائے ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ مجال ہے جو کوئی مذہبی مقدسات بیچنے کا سوچے بھی۔ سب کے سب اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی فلاح کے لیے سرگرم، پیرگرم اور زبان گرم ہیں اور کسی مذہبی چیز یا طغرہ جات وتعوایزات کے نام بیچنے کا گناہ کرے۔ سب کچھ صرف اور صرف افادہ عوام کی خاطر ہورہاہے۔
ہیں کتنے اچھے لوگ کہ جنھیں اپنے غموں سے فرصت ہے
سب پوچھیں ہیں احوال جو کوئی درد کا مارا دیکھے ہے