عجیب الٹ پلٹ آدمی ہے یہ قہرخداوندی چشم گل عرف کورونا وائرس بھی۔ بلکہ اس کے "آدمی" ہونے میں شبہ ہوسکتاہے لیکن "الٹ پلٹ"ہونے میں ذرا برابر بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔
علامہ بریانی عرف برڈفلو کی دشمنی میں کم بخت نے ایک نہایت غلط اصطلاح گاؤں میں رائج کردی۔"اچھا آدمی"یہ خطاب اس نے علامہ پرچپکایا تھا لیکن اب اتناعام ہوگیاکہ "اچھا آدمی" تقریباً ایک طنزیہ لفظ بن گیا۔ لوگ کسی پر طنز کرنا چاہیں تو اسے "اچھا آدمی"کہہ دیتے ہیں۔
قصہ یوں ہوا تھا کہ ایک دن علامہ کسی مخبر آدمی کا ذکر کررہاتھا جس نے علامہ کو خطیر چندہ بھی دیاتھا(اے کے47)تعویز بھی خریدا تھا اور سب کچھ ہضم چورن کے دوڈبے بھی خریدے تھے، درمیان میں اچانک قہرخداوندی نے کہا۔ مطلب یہ کہ وہ بھی اچھا آدمی ہے آپ کی طرح۔ یہ اچھا آدمی اور آپ کی طرح کی اصطلاح چل نکلی، یہاں تک کہ مارنے پر تیار ہوجاتاہے۔
اچھا ہوگا تیرا باپ تیرا دادا۔ یہاں تک کہ باہر سے نکل کر یہ "چڑ" درون خانہ یعنی خواتین میں بھی چلی گئی۔ اچھی عورت ہوگی تیری خالہ تیری پھوپھی۔ علامہ کو دیکھ کر تو بچے بھی اچھا آدمی کہہ کر غائب ہوجاتے تھے، ظاہر ہے کہ اچھے آدمی کے مقابل بُرے آدمی کی اصطلاح بھی چلنا تھی اور پھر قہرخداوندی جو اچھے آدمی کے مقابل ہمیشہ بُرا آدمی کہتاہے۔
کیا بتاؤں بڑا اچھا آدمی ہے تمہاری طرح۔۔ اور وہ دوسرا۔ وہ تو ہے ہی میری طرح بُرا آدمی۔ اس اچھا آدمی اور برا آدمی کی مقبولیت میں دراصل زیادہ ہاتھ تو اس واقعے کا بھی ہے۔ جو ان دنوں وقوع پذیر ہوا، ہوا یوں کہ گاؤں والوں کا یہ دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا کہ گاؤں میں ایک اسپتال بنایا جائے، متعلقہ ایم پی اے نے اسپتال کی تعمیر کا مژدہ سناتے ہوئے کہا، زمین آپ لوگ دیں گے اور اسپتال کی تعمیر میرا ذمے۔ لیکن زمین کہاں تھی سات کنال وہ بھی گاؤں کے قریب کی قیمتی زمین۔ دراصل گاؤں میں زمین تھی ہی نہیں کیونکہ زیادہ تر لوگ دو چچازاد خانوں کے مزارعین تھے ساری اور خاص طور پر گاؤں کے اردگرد کی زمین ان ہی دو خانوں کی ملکیت تھی۔
ان میں ایک نہایت ہی بدنام رسوائے جہان اور بُرا آدمی تھا، بدمعاش تھا، بدقماش تھا بلکہ سرتراش، دست تراش اور ناک تراش بھی تھا۔ اس کے ڈیرے پر ہمیشہ موسیقی کی محفلیں برپا ہوتی تھیں جسے لوگ"گمراہی"کہتے تھے۔
کل رات پھر گمراہی تھی آج پھر گمراہی ہوگی اسے تو گمراہی کے علاوہ کوئی کام سوجھتا نہیں حالانکہ "گمراہی"میں کوئی فحش چیز نہیں ہوتی تھی، طوائفوں کے وہ سخت خلاف تھا صرف مردگلوکار بلواتا تھا اور اچھے کلام کا دلدادہ تھا۔ بلکہ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ خود بھی گاتاتھا، ساز بھی اس کے ڈیرے پرہوتے تھے خاص طور پر گھڑا اور رباب جب کہ اس کا دوسرا چچازاد نہایت متشرع نمازی اور پرہیزگار آدمی تھا، لمبی اور گھنی داڑھی بھی رکھی ہوئی تھی اور اوپر کے ہونٹ کو ہمیشہ کلین رکھتاتھا دوچار دفعہ حج بھی کرآیاتھا، پورے خاندان کو عمرہ بھی کرا چکا تھا اور خود تو چار پانچ عمرے کیے تھے۔
ہروقت یہاں تک کہ باتوں کے دوران بھی تسبیح پھیرتاتھا۔ ہمیشہ نیکی کی بات کرتا تھا۔ خاص طور پر "خدا سے خیر مانگو"تواس کا ایک تکیہ کلام تھا خدا خیرکرے گا۔ گاؤں کے لوگوں کا ایک وفد اس کے پاس گیا اس یقین کے ساتھ یہ ہم نے زمین مانگی نہیں اور اس نے دی نہیں۔ علیک سلیک کے بعد ان لوگوں نے مدعا عرض کیا کہ اگر اس بار بھی ہم نے زمین فراہم نہیں کی تو اسپتال ہمیشہ کے لیے چلا جائے گا۔ بیچ بیچ میں وہ اچھا آدمی تسبیح پھیرتے ہوئے بھی کہتا جاتاتھا۔
خدا سے خیرمانگو خدا خیرکرے گا۔ گاؤں والوں کی بات ختم ہوئی تو اچھے آدمی نے پہلے اپنا آموختہ دہرایا۔ خدا سے خیرمانگو خداخیر کرے گا۔ پھر ان کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ یہ زمین میرے باپ دادا کی وراثت ہے میں نے خریدی نہیں ہے اور جب میں نے خریدی نہیں ہے تو مجھے اس کے بیچنے اور کسی کودینے کا اختیار بھی نہیں، یہ گناہ کبیرہ ہوگا، اگر میں کسی کو دے کر اصل "وارثوں "کواس سے محروم کروں جیسی مجھے وراثت میں ملی ہے ویسی ہی میں اصل وارثوں کے حوالے کروں گا اور یہ خیانت ہوگی اگر میں کسی اور کو دے کر ان کی حق تلفی کروں۔ بیچارے گاؤں والے ششدر رہ گئے کیونکہ اچھا آدمی اپنی باتوں کے لیے دینی حوالے بھی دے رہا تھا۔
گاؤں والے مایوس ہوکر جانے لگے تواس نے پیچھے سے آواز دے کر ایک زرین مشورہ دیا وہ بالکل مفت۔ کہ چندہ اکٹھا کرو۔ خدا سے خیرمانگو خدا خیر کرے گا۔ بلکہ سو روپے دے کر چندے کا آغاز بھی کر دیا۔ گاؤں والے چندہ جمع کرنے لگے لیکن پرائے مکانوں میں رہنے والے پرائی زمین کے مزارعوں کے پاس تھا کیا۔ جب کہ سات کنال زمین کے لیے کم سے کم پندرہ لاکھ روپے کی ضرورت تھی۔ لیکن پھربھی کوشش کرتے رہے۔
ایک دن عصر کی نماز کے بعد وفد والے چندہ لینے نکلے تو گمراہ خان کا کارندہ ان کو بلانے آگیا۔ بولا خان نے بلایاہے۔ وفد والے سمجھ گئے کہ چندہ شاید دینا چاہتا ہے۔ لیکن وہاں گئے توبات ہی دوسری نکلی گمراہ آدمی نے ان کو انتقال کے کاغذات دیے جن میں سات کنال زمین برائے اسپتال حکومت کے نام منتقل کی گئی تھی۔ گاؤں میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ گمراہ آدمی اچھا آدمی بن گیا۔
چنانچہ ایک وفد اس کے پاس اس غرض کے لیے بھی گیا کہ اب وہ دین کے راستے پرآجائے اور بُرائیاں چھوڑ کرنماز بھی شروع کرے اس وفد کی سربراہی اس کا چچا زاد کررہاتھا جو اچھا آدمی تھا۔ لیکن گمراہ آدمی نے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا۔ کہ کم ازکم ایک"بُرا آدمی"توگاؤں میں چھوڑدو ورنہ گاؤں کو نظر لگ جائے گی۔