کیا کریں بھولنا توچاہتے ہیں لیکن بھولنے کی کوشش میں اور زیادہ یادآتے ہیں وہ جوہم سے بچھڑگئے وہ جنھیں ہم کھوچکے ہیں
جس قدر ہم نے مٹائے تری یادوں کے نقوش
دل بے تاب نے اتنا ہی تجھے یاد کیا
وہ مشہور معروف قبرستانی بلکہ قبر قبر قبرستان جو قبرستان نام کا اور رسوائے شعر توآپ نے سنا ہی یا پڑھا ہی ہوگا۔ جس میں شاعر نے ان غنچوں پر حسرت کا اظہارکیا ہے جوبن کھلے مرجھاگئے تھے۔ اگرچہ یہ شعر ہم نے ایسی قبروں پر بھی لکھا ہوا دیکھا جن میں لکھی ہوئی تاریخ پیدائش کے مطابق بن کھلے غنچے کی عمر تراسی سال سے زیادہ بنی تھی۔
خیروہ قبریں قبرستانوں کے کھلنے نہ کھلنے سے ہیں، مگراپنے باغستان کے وہ دو پھول ہم بھول نہیں پا رہے ہیں جودو دن بہارجاں فزا دکھلا کربھی نہ جانے کہاں عدم پتہ ہوگئے۔
رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے
آخر کبھی تو عقدۂ دل وا کرے کوئی
ہائے وہ بابا جی توجلوہ گرہوئے توہم تم نے یا میر نے کہا، سارے باغ کے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ حوروں سے لے کر موروں تک، اسکولوں سے لے کر خولوں تک، موبائل سے شمائل تک سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ڈیموں سے لے کرمیموں تک کوسنوارنے لگے اور ان کی یہ دکان دن رات ادویات کی طرح بن بادل برسات کی طرح، پورے پیک شدہ مصالحہ جات کی طرح چلنے لگی، ایک دھوم تھی جو مچ گئی ایک حسینہ تھی جو جچ گئی اورملک بھر میں رچ گئی
پتنگ باز سجنا سے، پتنگ باز بلما سے
لگابیچا تومچ گیا شورکہ دل ہوا بوکاٹا
ایسے لگاجیسے ایک شعرہے جوگرما رہاہے، ایک ساون ہے جوبرس رہاہے، ایک انقلاب ہے، ایک سیلاب ہے، ایک میلینم ہے جوظہور پذیر ہوگیاہے بلکہ ہم نے تو یوں محسوس کیاکہ یہ وہی سنجوباباہے جس کے لیے نرگس ہزاروں فلموں میں روتی رہی اور راجکمار اسے تسلیاں دیتا رہا اورآخر کار سنیل دت نے وہ دیدہ ور بھلا دیا۔
ہمیں امید یا توقع یاغلط فہمی نہیں بلکہ یقین ہوگیا کہ اب سارا باغ صادقوں امینوں سے بھرجائے گا۔ ہر چورڈاکو جائے گا ورنہ اپنے گھرجائے گایا مرجائے گا۔
شیر اوربکری ایک ہی منرل واٹرکی بوتل سے پانی پئیں گے۔ لوگ فردوس گم گشتہ میں جئیں گے، روز گوشت پکے گا، یہ وہ زردہ کھائیں گے، حلوہ کھائیں گے اورپھر سونااچھال اچھال کرجائیں گے، آئیں گے، کرشن کاجنازہ نکلے گا، سیاست کاخمیازہ نکلے گا اور ہر گھر سے بیربل اورملادوپیازہ نکلے گا۔ ڈیم اپنے ہوجائیں گے کہ ہم مینڈک بن جائیں گے۔
ٹوئنٹی فراگ ون ٹو اسکول
ڈاؤنی لی سائداے لٹلی پول
ڈیم فول ڈیم فول اورڈیم فول
لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا، کس نے کہا؟ کیسے یہ غضب ہوا، نہ جانے کب ہو؟ شاید دیوتا ہم سے ناراض ہوئے کہ ہماری آنکھ کھل گئی۔ خواب تھاجو کچھ کہ دیکھا جوسناافسانہ تھا، نہ گھوڑا، نہ کھیت، نہ نیولامرا نہ سانپ بلکہ مداری بھی نہ جانے کہاں غائب ہوگیا، نہ میلہ تھا، نہ ٹھیلہ تھا۔ صرف ایک قصے اورچرائی ہوئی چادر کا نوحہ۔
اس کو رخصت توکیاتھا مجھے معلوم نہ تھا
ساراگھرلے گیاگھرچھوڑکے جانے والا
اسی دن سے ہم تحقیق کا ٹٹو دوڑا رہے ہیں، کنوؤں میں بانس ڈال رہے ہیں اوراغل بغل دیکھ رہے ہیں۔
جتناڈھونڈ رہی ہیں انھیں ویرانوں میں
وحشتیں بڑھ گئیں حد سے تیرے دیوانوں میں
معلوم نہیں زمین کھا گئی یاآسمان نگل گیا
وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کوجن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
ایسے مناظر اکثر ہندی فلموں اورڈراموں میں دیکھے جاتے ہیں کہ ایک کردارجوپورے ڈرامے پر چھایاہوتاہے اچانک بغیر کسی وجہ اورسبب کے غائب ہوجاتاہے، کہانی اس کے ساتھ ایک طرف جاری ہوتی ہے کہ ایک دم جو دیکھتے ہیں توکہانی کہیں اورجانب سے شروع ہوجاتی ہے، کوئی اور اداکار کوئی اورکردار ادا کرنے لگتا ہے۔
المیہ صرف یہ نہیں کہ اس طرح توہوتا ہے اس طرح کے لوگوں میں، بڑے بڑے ملکوں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن غم ہمیں اس کا ہے جو ڈیموں کے لیے فولوں نے دیا تھا جن میں ان حضرت باباجی نے بھی اپنی حق حلال کی آدھی تنخواہ دی تھی جوایک عام گھرانے کے چار پانچ مہینوں کی آمدنی کے برابر تھی۔ لیکن اب نہ ڈیم ہے نہ کنٹینر ہے نہ کچھ اور، نہ سیلاب تھا نہ انقلاب بلکہ سراب ہی سراب تھا۔
لیکن یہ بھی ان غدار ماروں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے ایسے نہ جانے کتنے خزانے تھے جوستر سال میں عدم پتہ ہوگئے، وہ انگریزوں سے بچائے ہوئے سرمائے کاآج تک کوئی پتہ نہیں چلاہے، قرض اتارو ملک سنوارو بھی نہ جانے کہاں چلا گیااوراب یہ ڈیموں کافول اورفولوں کے ڈیم۔
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دل کی وہی ویرانی دل کی وہی تنہائی
ہوسکتاہے کہ ہمارے اس فراقیہ نوحے سے آپ کے خربوزے نے بھی رنگ پکڑناشروع کیاہواورآپ کو بھی کچھ اوربھولے بسرے اور یاد آنے لگے ہوں۔
خاص طور پر حضرت علامہ ڈاکٹر پروفیسر لائرانجینئر آف محترم طاہرالقادری صاحب مد ظلہ تعالیٰ جو کنٹینر میں بیٹھ کرفتح اسلام آباد کونکلے تھے اور پہنچ گئے کینیڈا۔
اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ٖڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں
لیکن آپ غلط ہیں وہ تو اپنا کام پورا کرکے گئے سیاست کے بجائے ریاست کونہ صرف بچاگئے ہیں بلکہ اسے عام ریاست سے ریاست مدینہ بھی بناگئے یعنی
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کرچلے
اوراب شایدکینیڈاکوبھی ریاست مدینہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں اللہ ان کی کوششوں میں برکت ڈالے قدموں میں حرکت ڈالے اورمنہ میں شربت ڈالے۔ جہاں بھی رہیں خوش رہیں کامیاب رہیں۔
بہرحال یہ بھی کوئی نئی بات نہیں اس طرح تو ہوتاہے اس طرح کے ڈراموں میں، کہ اچانک سوئچ آف ہوتاہے پردہ گرتاہے۔ یا
تھاخواب میں خیال کوتجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی تو زیاں تھا نہ سود تھا
جس طرح فرہاد تیشے بغیر مرنہ سکاتھاکیونکہ سرگشتہ خماررسوم وقیود تھا اسی طرح ہم بھی خوابوں کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اس لیے خواب دیکھتے رہیں گے اوران کی تعبیروں کے اورخواب پھر اور خواب دیکھتے رہیں گے۔ کہ ہم رہتے ہی خوابوں کے سوداگروں کے دیس میں ہیں۔