Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Makhfi Kyun Makhfi Hui? (2)

    Makhfi Kyun Makhfi Hui? (2)

    ایسے مورخین ومحققین تاریخ لکھتے نہیں بناتے ہیں جس میں حکمرانیہ اور اشرافیہ کو تقویت دینے کے لیے "تاریخ"سے نظیریں اور جواز نکالتے ہیں اور تاریخ میں اوپرجاکر "اصلاح"کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کو داراشکوہ، مراد، شاہ جہاں، زیب النساء مخفی اور اکبرسلطان میں "عیوب"تو ڈالنے ہی ڈالنے تھے اور ڈال رہے ہیں۔

    کیونکہ ان کو بینگن نہیں بلکہ شاہ کی نوکری کرنا ہوتی ہے۔ اورنگ زیب عالمگیرؒ کے بارے میں خوشحال خان خٹک کو اگر ہم نظرانداز کردیں کہ اس کی اورنگ زیب سے جنگ اور پرخاش تھی، اس لیے اس کے بارے میں بُرا بُرا بول گیاہے۔

    چہ پہ نام پختون غوسیگی پرے خوخیگی

    اورنگ زیب ھسے بادشاہ دے د اسلام

    ترجمہ، "جو کسی بھی پشتون کے خون بہانے پر خوش ہوتاہے، اورنگ زیب ایسا ہی بادشاہ ہے"۔ لیکن رحمان بابا تو قلندر تھے، درویش تھے، سیاست اور حکومتوں سے انھیں کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ لیکن انھوں نے بھی اورنگ زیب کے بارے میں کہا کہ

    اورنگ زیب ہم یو فقیر وہ

    چہ ٹوپئی ئے وہ پہ سر

    خو چہ وخت پرے باندے راغلو

    دور طور شو دیگر

    گورہ سہ چارے ئے وکڑے

    پہ اولاد د خپل پدر

    وار پہ وار ئے لہ تیغ تیرکڑو

    دخرم تمام ٹبر

    ترجمہ، "اورنگ زیب بھی ایک فقیرتھا جو فقیرانہ ٹوپی پہنا کرتاتھا لیکن جب وقت ہاتھ آیا تو اس کا سب کچھ بدل گیا۔ دیکھو! اس نے اپنے باپ کی اولادوں کے ساتھ کیا کیا، ایک ایک کرکے خرم کے سارے خاندان کو تہہ تیغ کیا۔

    حالانکہ اصولوی طور پر بڑا بیٹا داراشکوہ حکمرانی کا حق رکھتا تھا اور خاندانی روایت کے مطابق اسی کو بادشاہ ہوناتھا اور باپ شاہ جہاں نے اسے نامزد بھی کیا تھا۔ لیکن دوسرے بیٹے اورنگ زیب نے جو کیا وہ تاریخ میں درج ہے، لاکھ کوششوں سے بھی اسے چھپایا نہیں جا سکا۔ وہ خود بھی چھپا نہیں سکا تھا لیکن جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ توبہ تائب ہونے کے بجائے دوسری نمائشی سرگرمیوں سے اس ظلم کو چھپانے لگا۔

    یہی اس کی نفسیات اور لاشعوری احساس جرم تھا۔ لیکن صحیح طریقے پر توبہ تائب ہوکرکفارہ ادا کرنے کی بجائے اس کے درباریوں نے مظالم کو مزید مظالم سے دھونے کا راستہ اختیار کیا اور آخر تک اپنی جابرانہ اور متشدانہ رویہ برقرار رکھا۔ اب اس جبر تشدد کے سائے میں پلنے والی بیچاری زیب النساء مخفی کی زندگی کیسے گزری ہوگی، اسے بجا طور پرزندہ درگور یا زندہ شہیدہ کے نام سے یاد کیا جاسکتا۔ زیب النساء مخفی کا مزاج اور رجحان اپنے دادا شاہ جہاں کی جمالیات، داراشکوہ کے تصوف اور اکبر کے غیر معتصبانہ نظریات کی طرف تھا۔ وہ مشرقی اور خاص طور پر فارسی صوفیانہ شاعری کی دلدادہ تھی۔

    اس لیے باپ کو بہت قریب سے دیکھ چکی تھی اور اس کے "اکراہ"سے متنفر تھی لیکن ایک کمزور عورت ہونے کی وجہ سے وہ کچھ کرتونہیں سکتی تھی، صرف کڑھ سکتی تھی اور ٹھیک اس زمانے کے صوفیاء کی طرح جب مسلمانوں میں ملوکیت کا اجراء ہوا تو اس وقت کے اصل صاحبان طریقت بھی گوشہ نشین ہوگئے تھے، بقول حافظ

    شدآں کہ اہل نظردرکنارہ می رفتند

    ہزارگونہ سخن درد ہان ولب خاموش

    ترجمہ، پھر ہوا ہوں کہ اہل نظر گوشہ گیر ہوگئے، ہزاروں باتیں منہ میں لیے ہوئے اور خاموش لبوں کے ساتھ مخفی بھی شاہی محل، اپنے آپ میں، کتابوں اور شعر و شاعری میں گوشہ نشین ہوگئی لیکن اورنگ زیب کو اس کی یہ گوشہ نشینی بھی گوارا نہ ہوئی۔ اس لیے باغی بھائی کی طرف داری کو بہانہ بناکر اسے ایک سنسان اور سنگلاخ قبر میں اتارا گیا۔ جہاں وہ پل پل کڑھتی رہی، مرتی رہی۔

    آخرکار اسے 63سال کی عمر میں دفن کردیا گیا۔ ساتھ ہی اس وقت کے مورخین اور محققین نے اس کی کہانی کو بھی دفن کردیا بلکہ بعد میں بھی یہ تسلسل جاری رہا۔ کیونکہ اس کی شخصیت کا ابھرنااورنگ زیبی نظریات کے لیے ناپسندیدہ تھا۔ جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ شاعرہ نہیں تھی اور نہ اس نے شاعری کی تھی اور اس کا دیوان اور اشعار فرضی ہیں تو وہ اس کے تخلص"مخفی"کی کیا توضیح کریں گے جو بجائے خود زیب النساء مخفی کی شخصیت اور رجحان اور زندگی کی تشریح کررہا ہے۔

    چلیے مان لیتے ہیں کہ وہ شاعرہ نہ تھی۔ اگر نہ تھی تو اس نے شعروادب کی کتابوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا کیوں بنایا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ باپ کے نظریات میں ممنوعہ کتابیں بھی پڑھتی تھی۔ اچھا کھاتی تھی، اچھا پہنتی تھی، سارا دنیاوی عیش وآرام میسرتھا، اوپر سے شعروادب اور تصوف کی دلدادہ، جمالیات کی رسیا۔ ایسے ماحول کا لازمی اور فطری نتیجہ کسی نہ کسی شکل میں "اظہار"ہوتا ہے اور وہ اس نے جی بھر کے کیا تھا کہ یہی ایک راستہ اس کے لیے رہ گیا تھا تو وہ اسے کیوں نہ اختیار کرتی۔

    بہ بانگ چنگ می گوئیم آں حکایت ہا

    کہ ازنہفتن آن دیگ می زد جوش

    اس کے سینے میں اگر اظہار کی "دیگ"ابل رہی تھی تو بھاپ یقیناً نکلی ہوگی۔"دیگ"سے یاد آیا۔ اگر عادل خان اور اس کے درمیان محبت اور پھر عادل خان کا دیگ میں ابالا جانا افسانہ بھی ہے تو ایک شہزادی نازونعم میں پلنے والی شاعری کی رسیا، جمالیات کی خوگر، کیا پتھر کی تھی کہ اسے کسی سے محبت نہیں ہوئی ہوگی، یقیناً ہوئی ہوگی۔

    لیکن موسیقی کے آلات اور شعری خرافات کو زمین میں گاڑھنے والا حکمران اپنی بیٹی کے غیر شرعی عشق کو کیسے برداشت کرسکتا۔ اپنے دیگر منحرف عزیزوں کی طرح اسے بھی دفن کردیا گیا ہوگا۔ کیونکہ دفن کرنا اس کا پسندیدہ اور ثواب دارین مشغلہ تھا، صرف شاہ جہان، اکبر سلطان اور مخفی کو ہی نہیں بلکہ اس نے خوشحال خان کو رنتمبھور اور اس کے بیٹے اشرف خان ھجری کو بھی دکن میں دفن کیا تھا لیکن چونکہ وہ اہل سیف تھے اور اہل سیف کی طرف داری ان کو حاصل تھی، اس لیے بعد میں چھوڑنا پڑا۔ ان دونوں کی شاعری میں اس قیدوبند کی گونج بہت اونچی سنائی دیتی ہے۔

    محترمہ زاہدہ حنا نے ایک اور خاتون یاسمین حمید کا ذکرکیا ہے جنھوں نے زیب النساء مخفی سے یہ سوال کیا ہے کہ تاریخ تمہارے بارے میں خاموش کیوں ہے؟ جسے ہم"غلط سوال"بھی کہہ سکتے ہیں، سوال غلط نہیں ہے لیکن "مسول" سے کیا گیاہے۔

    یہ جواب تاریخ سے کرنا چاہیے کہ وہ زیب النساء مخفی کے بارے میں خاموش کیوں ہے لیکن تاریخ ایسے کتنے سوالوں کا جواب دے گی کہ ایسے اور بھی ہزاروں لاکھوں ہیں۔ کیا قلوپطرہ واقعی ایک عیاش عورت تھی؟ یا بھائی اور درباریوں کی سازشوں اور محرومیوں کی شکار ایک مجبور اور سوگوار ماں تھی۔ رابعہ بلخی واقعی بے راہ رو تھی؟ قرۃ العین طاہرہ واقعی بے دین تھی۔ یہ ایک لمبی داستان ہے جس پر میں نے الگ ایک کتاب بہت زمانہ پہلے لکھی اور چھپوائی تھی "دخترکائنات" کے نام سے۔