پچھلے کئی کالموں میں ہم نے ازواج یامنفی مثبت جوڑوں کے بارے میں بات کی ہے کہ پوری کائنات زوج کے ان دو پہیوں پر چل رہی ہے اور اگر ان دو پہیوں میں سے کوئی پہیہ چھوٹا یا بڑا ہو جائے تو گاڑی نہیں چلے گی یا غلط چلے گی۔
لیکن ان دو پہیوں کے درمیان ایک "درا" بھی ہوتا ہے جو ان دونوں کو ملاتا ہے۔ اس "در ے" کو مشہور یونانی عالم "فیثاغورث" نے "لیور" کا نام دیا ہے اور قرآن نے اسے "میزان " کے نام سے یاد کیا ہے لیکن ہمارے ہاں حسب دستور، حسب معمول، حسب عادت بلکہ حسب "پاکستانیت" اس لفظ کا بھی صرف "قشر" لے لیا گیا ہے اور "مغز" پھینک دیا گیا ہے جب کہ "قشر" صرف "مغز" کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے چنانچہ "میزان" کو اجناس اور باٹ ترازو سمجھ لیا گیا ہے جب کہ میزان میں اجناس کے علاوہ بھی بہت کچھ شامل ہے مثلاً ہم آٹے یا ترکاری میں جو نمک ڈالتے ہیں وہ تو آٹے اور ترکاری سے جسمانی یا ترازو کے باٹوں کے حساب سے بہت کم ہوتا ہے اگر ترازو اور باٹوں سے تول کر آٹے اور ترکاری کا ہم وزن نمک ڈالا جائے تو کیا وہ کھانا "میزان " پر ہو گا۔ باٹ اور ترازو تو انسانی ایجادات ہیں جو آج باٹوں اور ترازو سے بھی بڑھ کر الیکٹرانک شکل بھی اختیار کر چکے ہیں۔
"میزان" کا مطلب اجناس کے تول مول اور مقدار تک محدود نہیں بلکہ "کام" کے لحاظ سے میزان کاتعین کیا جاتا ہے جس طرح ہم آٹے ترکاری میں نمک یا چائے شربت میں شیرینی کی شکل میں دیکھتے ہیں یا تبادلہ سکوں اور اجناس کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے بلکہ اب بھی دیہات میں کہیں کہیں "تبادلے" کا یہ طریقہ رائج تھا کہ گلی کوچوں میں پھرنے والے "پھیری گر" ایک تول، دو تول اور تین تول کا "نظام تبادلہ " اپنائے ہوئے تھے۔ مثلاً گندم کے بدلے میں تین تول، مکئی کے بدلے میں دو تول اور جو کے بدلے میں ایک تول، سبزی یا پھل دیے جاتے تھے۔
اناج کو ایک پلڑے میں رکھ کر متعلقہ سبزی یا پھل کو دو دو یا تین بار تولا جاتا تھا۔ کچھ اور چیزیں بادام، اخروٹ، چلغوزے وغیرہ میں ان چیزوں کے ساتھ اجناس دو دو تین تین بار تولے جاتے تھے، ترازو اور باٹوں کے حساب سے تو یہ توازن اور میزان نہیں تھا لیکن "قیمت" کے حساب سے میزان قائم کیا جاتا تھا۔ اور نہ ہی میزان صرف ترازو باٹوں یا مادی وزن کے حساب سے ہوتا ہے۔ یہی وہ "لیور" اور میزان ہے جو دو مقابل کی چیزوں میں توازن لاتا ہے اور کائنات کے تمام ازواج میں بھی یہ نظام توازن موجود رہتا ہے اور رہنا چاہیے۔
منفی اور مثبت کے درمیان اتصال، یکجائی اور عمل کا سارا دار و مدار اسی میزان پر ہے جو منفی و مثبت۔ ایک پلڑے اور دوسرے پلڑے کے درمیان ہوتا ہے، چاہے یہ کتنا ہی کم اور غیر محسوس کیوں نہ ہو لیکن ہوتا ضرور ہے کہ اس کے بغیر ازواج اور منفی و مثبت کا "ملن" ممکن نہیں اور منفی و مثبت کے ملن کے بغیر کوئی "کام" ممکن نہیں۔"پیدائش" بھی ایک "کام" ہے۔ اگر ہزار "نر" موجود ہوں اور ناری نہ ہو یا نر ہی نر ہوں مثبت ہی مثبت ہوں تو وہ کتنے ہی مکمل طاقت ور کیوں نہ ہوں اور کتنا ہی زور نہ لگا لیں، پیدائش یاکام ممکن نہیں ہے، کسی بھی پیدائش یا کام کے لیے منفی و مثبت کا ملن ضروری ہے اور دونوں کے درمیان "ملن" کے لیے توازن کا یہ نقطہ یا میزان کی ایک لکیر ضروری ہے۔
مثال کے طور پر بگ بینگ ہوتا ہے جو ارتکاز و انتشار کے زوج سے ہوتا ہے لیکن ارتکاز کی آخری حد انتشار کی پہلی حد ہوتی ہے جہاں پہنچ کر "دھماکا" ہوتا ہے۔ یہ اولین یاآخرین لمحہ اتنا باریک ہے کہ طبیعات والے اس تک پہنچنے اورجاننے کے لیے"جتن" کر رہے ہیں کہ سوئٹرزلینڈ کی وہ مشین بھی ایک "جتن" ہے۔ اسے یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم ایک پتھر کو اوپر پھینکتے ہیں یاکسی بھی چیز کو، وہ چیز اوپر جاتی ہے اور طاقت یافورس ختم ہوتی ہے تو پھرنیچے گرنے لگتی ہے لیکن اوپر جانے اور نیچے آنے کے درمیان"ٹھہراؤ" کی وہ حالت بھی ہوتی ہے، جب پتھر، وہ چیز نہ اوپر جا رہی ہوتی ہے نہ نیچے آ رہی ہوتی ہے جو نہ "یہ" ہوتی ہے نہ "وہ" ہوتی ہے یا یہ بھی ہوتی ہے اور وہ بھی ہوتی ہے، یہی وہ "میزان" ہے جسے قائم رکھنے کے لیے کہا گیا ہے۔
ہر منفی اور مثبت کے درمیان میزان اور "میزان" کی بنیاد جسم یا حجم یا وزن نہیں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک مرد باہر پھرتا ہے، محنت کرتا ہے، تگ و دو کرتا ہے تا کہ اپنے اہل و عیال کو لا کر دے دے، بظاہر یہ بڑا کام ہے لیکن حقیقت میں اس کا یہ سارا کام "عورت" کے گھر اور بچوں کے پالن پوسن کے برابر ہوتا ہے۔
ازواج کے درمیان میزان کے جس نقطے یا لکیر کی ہم بات کر رہے ہیں وہی لکیر یا نقطہ ہی توازن اور میزان قائم رکھتا ہے اور اگر کسی بھی زوج کے درمیان یہ میزان یا توازن قائم نہ رہے تو پھر اس زوج سے پیدا ہونے والے سارے زوج اور کام بگڑ کر غیر متوازن ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہم حاکم و محکوم، حکمرانیہ و عوامیہ یا پندرہ فی صد اور پچاسی فی صد کے زوج میں "حقوق و فرائض" کے درمیان عدم توازن کا نتیجہ معاشرے اور نظام کے ہر ہر پہلو اور ازواج میں دیکھ رہے ہیں کہ ہر ہر زوج اپنا اپنا کام صحیح نہیں کر رہا ہے اور جب زوج اپنا "کام" صحیح نہ کر رہا ہو تو اس سے "سنوار" کی کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔
اس بگاڑ اور عدم توازن ہی نے عورت کو مرد کاکام کرنے پر مجبورکیا ہوا ہے، اس بگاڑ ہی نے فرد کو چور، مجرم اور منشیات کا عادی بنایا ہوا ہے اور اس کی سوچ کو اپنے تک محدود کر دیا ہے۔ اسی لیے، کہا گیا ہے کہ "ازواج" پر غور کرو اور میزان کو مت بگاڑو۔ معاشرے اور نظام کی عمارت کو کچی ٹوٹی پھوٹی اور ٹیڑھی "اینٹیں " مت دو۔ ورنہ۔۔
"تا ثریا می رود دیوار کج"