Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mere Paas Kunwein Hain

Mere Paas Kunwein Hain

جی تو چاہتاہے کہ ہم اپنا منہ سر اپنے ہاتھوں سے پیٹ پیٹ کراتنا سرخ کرلیں کہ "سرخروئے عالم"ہوجائیں کہ اتنی بڑی چیز اتنی بڑی حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل رہی اور ہم پاکستان کی اب تک برپاہونے والی معصوم حکومتوں، ان حکومتوں کے پاکیزہ ترین چٹوں بٹوں کو صادق وامین وزیروں مشیروں اور باتدبیروں کو موردالزام ٹھہراتے تھے، کبھی بڑے بڑے جمبوقسم کے قرضوں کولے کر کبھی حکومتوں کے پالے ہوئے سفید ہاتھیوں کو، کبھی برائے نام قسم کے سرکاری اخراجات کو، کبھی خاندانی خادموں کے لیے نوالے اور نوالوں کے لیے منہ پیداکرنے والے "باخسارہ" محکوموں کو اور کبھی سرکاریوں کی حق الخدمت کرپشن کوکوستے رہے، توبہ کتنے نادان تھے ہم انجان تھے ہم بلکہ احمقان وبیوقوفان تھے ہم، اب خیال آتا ہے اپنی اس قطعی ناجائز منفی تنقید پر، سراسر حرام نکتہ چینی پر اور ٹاپ کلاس احمقانہ باتوں پر۔ تومارے ندامت پشیمانی اور شرم کے پانی پانی ہوجاتے ہیں کئی بارتوجی چاہا کہ اس اپنے پانی میں خود ہی ڈوب جائیں۔

لیکن کیاکریں کہ اتنے بہادر بھی ہم نہیں۔ بلکہ بقول قہرخداوندی چشم گل چشم عرف سوائن فلو، ڈنگی فلو اور چھانگا مانگا فلو، کہ اگر بندوق، پستول، کلاشن کوف کم بختوں کے فائرکا دھماکہ نہ ہوتا تو ہم "گولی"سے بالکل نہ ڈرتے۔ ذرا دیکھیے سوچیے اور اگر آئینہ قریب ہوتو ہمارے چہرے پرتھوکیے کہ ہم باقی سب کچھ تو دیکھ سکتے تھے لیکن یہ نہیں دیکھ سکتے تھے کہ اگراتنے قرضے اتنے سود اتنے اخراجات ہیں تو ہمارے پاس تیل کے کنوئیں بھی تو ہیں، ایسے تیل کے کنوئیں جن سے تیل برآمد کرنے کے لیے کوئی مشینری، کوئی کھدائی اور کوئی ریفائنری ضروری نہیں، ہاتھ ڈالو اور گڑ نکالو والا معاملہ ہے۔

جن ممالک کوتیل بردار کہاجاتاہے ان کے ہاں تیل کے کنوئیں زیادہ سے زیادہ درجنوں یا سیکڑوں ہزاروں میں ہوں گے اور ساری دنیا کے سارے کنوؤں کوملا کردیکھاجائے تو لاکھ دو لاکھ دس لاکھ یا چلیے ایک کروڑ کرلیجیے جب کہ ہمارے ہاں ایک نہ دو نہ ہزار نہ لاکھ پورے بیس کروڑ تیل بردار کنوئیں ہیں اور اس پر بھی بات ختم نہیں ہوتی ہے، سنا ہے ہرمنٹ میں تین کنوئیں اور"پیدا" ہو رہے ہیں اور کنوئیں بھی وہ۔ جن کے بارے میں۔ رحمان بابا نے کہا ہے کہ

"دکوئی اوبہ چہ وباسے بسیار شی"یعنی کنوئیں کا پانی جتنا نکالو اتنا بڑھتاہے اسی لیے تو حکومتیں زیادہ سے زیادہ پانی نکال کردساور بھیجتی ہیں کہ پانی اور بڑھے اور بڑھے۔ اور بڑھتاچلا جائے۔ ان کنوؤں کاکام صرف تیل نکال کردینا نہیں ہے بلکہ حکومتیں جتنی "نیکیاں "کرتی ہیں وہ بھی ان کنوؤں میں ڈالتی رہتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سترسال میں حکومتوں نے جتنی نیکیاں کی ہیں اور ان کنوؤں میں ڈالی ہیں ان کا تناسب یا میزانیہ "ڈیڑھ لاکھ"نیکیاں فی کنواں نکلتا ہے۔

اب آپ ہی بتائیں کہ ہم اب تک محض منفی تنقید کرکے یہ شور مچائے ہوئے تھے کہ"تیرا کیابنے گا کالیا" اسے کہتے ہیں کوتاہ بینی، ظاہربینی اور غلط بینی۔ کہ ہم صرف ان اخراجات فضولیات اور تعیشات کو تو دیکھا کرتے تھے جو حکومتیں، حکومتوں کے وزیر مشیر، امیرکبیر اور سفیرباتدبیر کر رہے ہیں اور ان پرنہایت ہی غلط منفی اور بدنیت تنقید کررہے تھے۔ اور یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ ان کے قبضے میں تیل بردار کنوئیں بھی ہیں۔ دراصل ہم بھی چھوٹے ہیں ہماری سوچ بھی چھوٹی ہے ہمارا منہ بھی چھوٹا اور بات بھی چھوٹی۔ اس لیے اول فول فضول اور نامعقول باتیں کرتے تھے گویا

اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہل دہرکا

سمجھا ہوں دل پذیرمتاع ہنرکومیں

وہی بات ایک مرتبہ پھریاد دلانا چاہوں کہ۔ دوبہت بڑے سنیاسی ہمارے ہاں پدھارے نہ جانے کہاں سے۔ یقیناً امریکا ہی سے آئے ہوں گے کیونکہ ہمارا سب کچھ امریکا ہی سے آتاہے۔ ان سنیاسیوں میں سے ایک جو ہمارے جیسا ناپختہ کوتاہ بیں اور ظاہر پرست تھا۔ اس نے ہرطرف بڑے بڑے "غز"کے درختوں کو دیکھا تو بولا۔ یہ بستی اب تک تباہ کیوں نہیں ہوئی اتنے بڑے بڑے "غزوں "کے سائے ہیں۔ اسے تواب تک سوبارملیامیٹ ہوجانا چاہیے تھا۔ بلکہ ایک اور روایت کے مطابق ان سنیاسیوں میں سے ایک نے گندے پانی کا تالاب دیکھ کریہ کہاتھا۔ کہ یہ گندہ اور ام الامراض پانی پی کریہ لوگ ابھی تک زندہ کیسے ہیں ناممکن سمجھو امپاسیبل لاممکن۔ لیکن اس ہمارے جیسے نادان انجان اور ناپختہ سنیاسی کی بات کو دوسرے فائق اور دوربین سنیاسی نے کاٹتے ہوئے کہا۔

ذرانیچے بھی دیکھ ان تباہ کار غزوں کے نیچے یہ "ہرمل" کے بوٹے بھی تو ہیں، دوسری روایت میں ہوشیارسنیاسی نے نادان سنیاسی سے کہاتھا کہ اس گندے تالاب کے کنارے ان"ہرڑ"کے پیڑوں کوبھی دیکھو جس سے "ہرڑ"اس گندے پانی میں گرکر اسے آب شفا بناتے ہیں۔ بہرحال ہرمل کو پودے کہیے۔

ان کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں گیاتھا اس لیے اب بچھتا رہے ہیں کہ ہم نے بہت غلط کیاتھا۔ جو اتنے بھاری بھرکم اخراجات اتنے وسیع وعریض تعیشات اور اتنے زیادہ قرضہ جات دیکھ کرگھبراگئے تھے۔ کہ تیرا کیا بنے گا کالیا۔ اور یہ بالکل نہیں دیکھاتھاکہ "کالیا"کی ملکیت میں کالے سونے، پیلے سونے، سرخ سونے اور سفیدسونے کے اتنے ذخائر یاتیل کے کنوئیں بھی تو ہیں۔ جن کاپانی یاتیل نکالنے پر اور بڑھتاچلا جاتا ہے۔ لیکن اب ہماری آنکھیں کھل گئی ہیں، سمجھ دانی میں آگیاہے کہ ہم غلط تھے۔ فکر کی ایسی کوئی بات نہیں۔

کالیا جتنا چاہے خرچ کرے اڑائے اور پھینکے۔ کنوئیں ہمارے پاس ہیں بلکہ اگر ادھر ادھر اڑوس پڑوس والے لاف زنی کریں کہ ہمارے پاس بنگلہ ہے کارہے دولت ہے بینک بلینس ہے، یہ ہے وہ ہے تو "کالیے" کاصرف اتنا کہنا ہی کافی ہوگا۔ ، کہ میرے پاس کنوئیں ہیں۔