یہ سوشل میڈیا بھی ہے نا۔ جہاں کجھلی ہوتی ہے وہاں بعد میں کجھاتا ہے پہلے وہاں کھجاتا ہے جہاں کھجلی نہیں ہوتی۔ یعنی ضروری کام بعد میں اور غیر ضروری کام پہلے کرتا ہے۔
اب اگر کچھ لوگوں بلکہ شوبز کی زبان میں "پرستاروں " نے "مس مردان" کی عزت افرائی کے لیے اس کے سر پر پگڑی یا دستار باندھی تو اس میں بُرا کیا ہے، اگر یہ دستار کسی اور کے سر سے اتار کر پہنائی جاتی، کہیں سے چوری کر کے پہنائی جاتی تو کچھ بات پھر بھی ہوتی لیکن اگر شائقین بلکہ پرستاروں نے پلے سے رقم خرچ کر دستار خریدی اور مس مردان کے سر پر رکھ دی تو کون سا انرتھ ہو گیا ہے۔ مانا کہ ایک زمانے میں خوشحال خٹک جیسے اگلے وقتوں کے لوگ کہاکرتے تھے۔ کہ
چہ دستار تڑی ہزار دی
د دستار سڑی پہ شمار دی
یعنی جو دستار باندھتے ہیں وہ ہزاروں میں ہیں لیکن دستار کے قابل سر صرف چند ہی ہوتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ایک تو وہ بزرگ کچھ زیادہ ہی گزرگ ہوتے تھے۔ بات بات میں میخ نکالنا، ہر چیز میں کیڑے ڈالنا اور ناک بھوں چڑھانا اس کی عادت ہوتی تھی کیونکہ کرنے کو ان کے پاس کوئی کام تو ہوتا نہیں اس لیے باتوں اور اقوال زریں کے طوطے مینے لڑایا کرتے تھے غالبؔ نے بھی جو خود بھی اچھے خاصے بزرگ اور اب گزرگ ہیں، ان کی شکایت کی ہے۔
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں
دوسری بات یہ کہ اس زمانے میں پگڑی واقعی ایک عزت افزائی کی علامت ہوتی تھی لیکن آج کل تو پگڑی پہنانا۔ چونا لگانا اور ماموں بنانا کچھ اور معنی رکھتا ہے۔ جیسے بعض مقامات پر "بہن جی" کسی گالی سے کم نہیں۔ ودیا بالن نامی اداکارہ کو ابتدا میں لوگ "بہن جی" کہہ کر چھیڑتے تھے اور وہ اتنی چھڑ گئی کہ ڈرٹی پیکچر میں انتہائی ڈرٹی بن گئی کہ "بہن جی۔ مارے" شرم کے کہیں بھاگ گئی۔ اور پھر سب سے بڑی بات یہ کہ ان زمانوں میں "مس مردانیں " یا مس پشاوریں وغیرہ بھی نہیں ہوتی تھیں جو ہزار بار "مس" ہونے پر بھی ہمیشہ "مس" ہی رہتی ہیں۔ زیادہ وا ویلا لوگوں نے اس پر مچایا ہے کہ "مس مردان"۔ ٹو ان ون یعنی تیسری جنس سے تعلق رکھتی ہے یا رکھتا ہے۔ تو اس اعتراض کا جواب تو خود اعتراض ہی میں موجود ہے کہ جب وہ یہ بھی ہے اور وہ بھی ہے تو پھر "کہاں " یہ یہ اور کہاں وہ وہ۔ جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی۔ جتنا حق اسے دوپٹے پر ہے اتنا ہی حق دستار پر بھی ہے اگر کسی کو اس میں شک ہے تو آؤ بات کر کے دیکھتے ہیں۔
چار آدمیوں میں یہ مسئلہ اٹھاتے ہیں۔ ویسے بہتر تو یہ ہوتا کہ دستار اسے بیک وقت دوپٹہ بھی پہناتے اور دستار بھی۔ پہلے سر پر دوپٹہ رکھتے پھر اس کے اوپر دستار رکھتے۔ یا دستار کے اوپر دوپٹہ تو اور اچھا ہوتا۔ یا پھر باری باری دونوں کام سرانجام دیے جاتے لیکن یہ تو معمولی سی انتظامی یا ٹیکنکل غلطی ہے اگر پھر بھی کوئی اسے درست کرنا چاہے تو ایک اور تقریب برپا کر کے اسے دوپٹہ بھی اوڑھا دے حساب برابر۔ ہم نے ابتدا ہی میں کہا ہے کہ یہ "خلق خدا" جس کی موجودہ شکل سوشل میڈیا کی ہے جو ایک ایسا بے مہار اونٹ ہے کہ جس کی نہ کوئی "کل" سیدھی ہے اور نہ ہی پتہ چلتا ہے کہ کس کروٹ بیٹھے گا، لیٹے گا یا کچھ بھی کر کے بھاگ اٹھے گا یا دیوانہ ہو کر "شترکینہ" نکالے گا۔
چنانچہ اسی میڈیا یا آوازہ خلق میں ایک زمانے سے یہ واویلا مچایا جا رہا تھا کہ پشتون ایک ایسی قوم ہے جو "فن" کی تو پرستار ہے لیکن فنکاروں سے "بیزار" ہے۔ فن کو پسند کرتی ہے لیکن ستاروں کی قدر نہیں کرتی۔ اب اگر "مس مردان" اور اس کے پرستاروں نے اس روایت کو توڑ دیا ہے اور فن کے ساتھ ساتھ فنکار کی بھی قدرافزائی کر رہے ہیں تو یہ اور اچھی بات ہے، اس میں بُرا ماننے اور سیخ پا ہونے والی بات ہی کیا ہے۔ بلکہ ہم تو کہیں گے کہ مس مردان یا مسٹر مردان جو کچھ بھی ہے اس کی اس سے زیادہ قدر افزائی ہونی چاہیے کہ ان حالات میں کہ اس قبیلے کی مسوں اور مسٹروں کو بے تحاشا مارا جا رہا ہے، تشدد توہین اور تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس نے جان پر کھیل کر خود کو منوا لیا ہے۔ آخر اس دنیا نے ایسے بچارے اور بچاریوں کو دیا کیا ہے۔ یا ان بچاروں اور بچاریوں نے دنیا سے لیا کیا ہے۔
توہین تضحیک اور کس مپرسی کے سوا۔ اب جہاں اس دنیا میں اور پھر مملکت خداداد پاکستان اور پھر خطہ خاص الخاص یعنی کے پی کے عرف صوبہ "خیرپہ خیر" میں نہ جانے کتنے نکمے نکھٹو نااہل نامعقول بلکہ معاشرے کے دشمن کچھ بھی نہ کر کے "کھا اور کما" رہے ہیں تو وہاں یہ بچارے یا بچاریاں اپنے نان ونفقہ کی کوئی سبیل کرتے ہیں تو کیا بُرا کرتے ہیں بلکہ اچھا ہی اچھا کرتے ہیں۔ کسی کو لوٹتے نہیں، رلاتے نہیں بلکہ خوشی دیتے ہیں۔ جھوٹی ہی سہی۔ اور ان جغادری بڑے بڑوں اور سفید ہاتھیوں نے سب کچھ کھا کر بھی دنیا کو صرف جھوٹی تسلیاں اور دھرنے سے دھرنے تک کی جھوٹی خوشیاں دی ہیں۔ جھوٹے سبزباغ، جھوٹے کالے باغ، جھوٹے پیراڈائزلاسٹ۔ ان سترسالوں میں ان بڑی بڑی پارٹیوں اور کلاہ دار دستار تخت و تاج رکھنے والوں نے کسی کوکیا دیا ہے یا دینے کا ارادہ ہے۔
ایسے میں اگریہ بچارے بچاری راندہ درگاہ ستم کا نشانہ رسوائے زمانہ اور بے بضاعت مخلوق کسی کو دم بھر کے لیے خوشی دیتی ہے تو بڑا کام کرتی ہے۔ کہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہے بھی نہیں۔ اپنی کمزوری کو طاقت بنا کر اپنے عیب کو خوبی میں بدل کر، اپنی محرومیوں کو مسرتوں میں ڈھال کر کچھ نان و نفقہ کماتے ہیں یا کماتی ہیں تو اس میں کسی کے باپ کا کیا جاتا ہے حالانکہ اصولی طور پر ان کو معاشرے سے انتقام لینا چاہیے کہ ان کی پیدائش میں ان کی ساخت میں، ان کے اس عیب میں مردوں کے اس معاشرے کا ہاتھ ہے۔
یہ لوگ یونہی پیدا نہیں ہوتے نہ ہی خدا اتنا بے رحم ہے لیکن اس نے ازواج کا نظام بنایا ہوا ہے، اس میں کسی بھی زوج کی بے اعتدالیوں، بد اعمالیوں اور بے راہرویوں سے ایسا ہو جاتا ہے۔ ہر قسم کے ڈس ایبل بچے اوپر کے اجداد میں کسی غلطی ہی کا نتیجہ ہوتے ہیں جس کی تصدیق آج جینٹک سائنس اور ڈی این اے نظام نے بھی کر دی ہے کہ کوئی بھی ڈس ایبلٹی بے وجہ نہیں ہوتی۔