بات تو تھوڑی نہیں بلکہ بہت زیادہ حیران کن ہے کہ ہم جیسوں کے پاس بھی کچھ لوگ آجاتے ہیں جن کے ہاتھ نہ "مکا" ہوتے ہیں اورنہ "مٹھی "جس سے کسی کوکچھ ملنے کی امید ہوخالی خولی اورکھلی انگلیوں والے ہاتھ ہیں جو صرف کسی کے ساتھ ملائے جاسکتے ہیں لیکن وہ کورونا وائرس کا سرکھا چکا ہے۔
آسان زبان میں سکہ رائج الوقت صرف ڈریالالچ ہے، باقی سب مایا ہے نہ دھوپ ہے نہ سایہ ہے اگر مزیدتفصیل درکار ہوتو بہادر شاہ ظفر کی وہ غزل پڑھیے۔ کہ نہ کسی کی آنکھ کا نورہوں، نہ کسی کے دل کاقرارہوں، جوکسی کے کام نہ آسکے، میں وہ مشت غبارہوں اورخاتمہ اس پر ہے کہ ؎
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی دو پھول چڑھائے کیوں
کوئی ایک شمع جلائے کیوں میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
لیکن پھر بھی کچھ لوگ ایسے باقی ہیں کم سہی نہ ہونے کے برابر سہی لیکن ہیں ضرور، جو کسی بھی "لین" یا "دین" کے بغیر ایک دوسرے سے ملتے ملاتے ہیں، خداکافضل ہے کہ ایسے لوگوں کی ہمارے پاس نہیں جو دوردراز سے لمبے لمبے فاصلے طے کرکے، وقت صرف کرکے اس جھاڑ اجاڑ بیابان میں ہم سے ملنے آتے رہتے ہیں۔
لیکن آج ہم دیر تیمرگرہ سے آئے ہوئے دو نوجوان حفیظ اورعطاء اللہ کا ذکر اس لیے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ ایک ایسا سوال بھی لائے تھے جس کاجواب سب کو معلوم ہے لیکن دیتا کوئی نہیں ہے، سب سے زیادہ حیرت ہمیں اس پر ہوئی کہ ہماری باتیں جو ہم نے کالموں یا کتابوں میں لکھی ہیں اتنی ہمیں یاد نہ تھیں جتنی ان کو ازبر تھیں اوران کاسوال بھی کوئی نیا نہیں تھا یہ ایک ایسا سوال ہے جسے پیرو مرشد نے بھی یہ کہہ کے اٹھایا تھا۔
سبزہ وگل کہاں سے آتے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
بات کو پردے سے نکال کر منظر عام پر لاتے ہیں کہ یہ جو ایک ملک ہے جس کانام پاکستان بلکہ تھا اب تو ریاست مدینہ ہے۔ یہ ہے کیا چیز؟ کہ پورے سترسال سے اس کاگینگ ریپ ہورہاہے، طرح طرح کے گینگ آتے ہیں اس کا ریپ کرتے ہیں اس پر کوئی گینگ آکر اسے آرام کرنے کے لیے کہتا ہے اوروہ شروع ہوجاتاہے۔
عرصہ ہواایک مغربی ناول پڑھاتھا، اس میں ایک "شہر" ہے جس پر قبضے کے لیے دو فوجیں لڑ رہی ہیں، کبھی ایک فریق غالب آتاہے اورکبھی دوسرا، اورجس فریق کاقبضہ ہوجاتاہے اس کاپہلانشانہ بازارحسن بنتا ہے، اس آئے دن کی قبضہ گیری سے تنگ آکر ایک سینئرطوائف نے کہا، کیا "شہر"صرف "ہم" ہیں۔
جتنے گینگ ریپ اس ملک کے ہوئے وہ اگر کہیں پر دس ہزار دس سودس قارونوں کے دس ہزار دس سو دس خزانے بھی ہوتے تو ان میں "ککھ" بھی باقی نہ رہا ہوتا لیکن یہ کمال کاملک ہے کہ ابھی ایک گینگ کا ریپ چل رہا ہوتا ہے کہ کسی دوسرے گینگ کو بھی بلاوادیتارہتاہے کہ آؤ یہ ہمارا ریپ اچھی طرح نہیں کر رہے ہیں تم بھی آؤ شابش ہے اس باکمال لوگ لاجواب سروس دھرتی پر کہ نہ گینگ ختم ہو رہے ہیں اورنہ اس میں لٹنے کا شوق۔ وہ جو منیرنیازی نے کہا تھا بالکل سچ کہاتھا کہ ؎
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
بلکہ شاید منیرنیازی کو اچھی طرح معلوم تھا اس لیے اس نے بہت پہلے ایک اوربات پنجابی میں کہی تھی جو تقریباً ضرب المثل بن چکی ہے کہ ؎
کج شہردے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
خیریہ تو ایک عمرکارونا ہے جو رونے والے روتے رہیں گے لیکن سوال پھروہی ہے کہ اس میں یہ اتنا "سبزہ و گل" آتاکہاں سے ہے کہ ہمالیہ جتنا قرضہ ہونے کے باوجود لوٹنے والے لوٹتے رہتے ہیں اوراس کے خزانے کم نہیں ہورہے ہیں، کہیں کسی بزرگ نے اس میں "انجیرکاپھول " تو نہیں ڈالاہواہے۔"انجیرکا پھول" کے بارے میں ہمارے پشتون خوا میں مشہورہے کہ کسی خزانے، غلہ خانے یاکسی اورچیزمیں انجیر کاپھول ڈالاجائے تو اس میں پھر کبھی کمی نہیں ہوتی، یہی عقیدہ کچھ لوگوں کا "گیدڑسنگی" کے بارے میں ہے کسی کا ناگ منی کے بارے میں اورکسی کا سفید سانپ کی کھینچلی کے بارے میں اور ہمارا خیال ہے کہ اس ملک کے خزانوں میں کسی نے یہ سب چیزیں اکٹھی ڈالی ہوئی ہیں۔
غم دیا ہے تو رہے اس کا تسلسل قائم
مری غربت میں کسی شے کی تو بہتات رہے
گینگوں اوربھائی لوگوں کی تو یہاں اتنی بہتات ہے کہ اگر منصوبہ بندی کی جائے تو ہم دساور کو بھی بہت سارا مال بھیج سکتے ہیں۔
رہایہ سوال کہ "سبزہ وگل" اتنا زیادہ کہاں سے آتاہے تو ہم نے پہلے ہی یہ کہا کہ جواب اس سوال کا سب کو معلوم ہے لیکن دیتاکوئی نہیں، بس تھوڑا سا آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے پھر وہ انجیرکاپھول، گیدڑ سنگی، ناگ منی اورسفیدسانپ کی کھینچلی سب کے سامنے ہوگی جسے بعض لوگ"تیل کے موبائل" کنوئیں بھی کہتے ہیں اوروہ…لائیواسٹاک بھی…جو بیک وقت انڈے بھی دیتے ہیں اوردودھ بھی…جن کا اون بھی روزانہ اتارا جارہاہے اورکھال بھی۔
پھربھی کہتے ہیں "سبزہ وگل" کہاں سے آتا ہے۔
چشمہ آب نہ ہوچشمہ خورشید سے کم
شعلہ رو تو کبھی منہ دیکھے اگر پانی میں
اب ایسے لوگوں کو بھی گینگ آآ کر بلکہ مڑ مڑ کر نہیں لائیں گے جن کی یادداشت خود ان کاسرکھا گئی ہو، حافظہ ندارد ہو…اور"دماغ"وہ تو کمپنی نے ڈالا ہی نہیں ہے کہ صدیوں کے عدم استعمال سے وہ ایک زنگار ہی رہ گیا ہو۔
کیوں نہ ڈوبے رہیں یہ دیدہ ترپانی میں
ہے بنا مثل حباب اپنا تو گھر پانی میں
کہا جاتاہے کہ مومن کو ایک ہی سوراخ سے دوسری بارنہیں ڈسا جاسکتا اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ… آگے
گالی ہے اس لیے خود ہی خود کو دے لیجیے۔
اتنا جھوٹ اگر ہاتھی کے کان میں بولا گیا ہوتا تو بیچارا شرم کے مارے سکڑ کو چوہا بن چکا ہوتا، ہرروز بلکہ روزمیں تین بار انھیں وہی ایک جھوٹ بولاجاتاہے جس میں گا۔ گے۔ گی کے علاوہ اور کچھ نیا نہیں گایاجاتا ہے لیکن پھربھی یہ یقین کرتے رہتے ہیں اب آپ ہی انصاف بلکہ تحریک انصاف سے کہیے گاکہ ایسے ایسوں کو بھی لوگ نہیں لوٹیں گے تو کس کو لوٹیں گے۔
اب تو لگ پتہ گیا ہوگا کہ "سبزہ وگل" کہاں سے آتے ہیں اور"سبزہ وگل" جاتے کہاں ہیں یہ تو اس سے بھی پہلے لوگوں کو معلوم تھا کہ "لے جانے " والوں کی صرف چمڑی بدل گئی ہے کام نہیں بدلاہے۔
اشک میرے فقط دامن صحرا نہیں تر
کوہ بھی سب ہیں کھڑے تابہ کمرپانی میں