Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Sawab Ke Kaam

    Sawab Ke Kaam

    اس طرح توہوتا ہے اس طرح کے ملکوں میں، اس طرح کی سیاست اوراس طرح کی جمہوریت میں کہ تعلیم کا وزیر الف لٹھا ہو، صحت کا وزیرکوئی دائم المریض ہو، قانون کا وزیرکوئی مستند قانون شکن ہو، اور تعمیرات کا وزیر عمارتیں گرانے کا کاروبار کرتاہو، لیکن اس کے علاوہ بھی ہمارے ہاں بڑے عجوبہ عجائب قسم کے وزیرگزرے ہیں اورسیاست میں اس نیک کام کی ابتدا بھی سیاسی کمالات وایجادات کے بانی مبانی اور سیاسی فارمولوں کے ایڈیسن جناب خان عبدالقیوم خان نے کی ہے۔

    وہ بڑے کمالی قسم موجدآدمی تھے۔ چنانچہ اس نے نہ صرف 36کے مقابل سولہ ممبران کی حکومت بنائی تھی بلکہ اس میں کمال کے وزیر بھی بھرتی کیے تھے، جن میں سے ایک اس کا لے پالک بھی تھا۔

    بھٹوصاحب سے جوفقرہ ارشادکیاتھا، اس پربعد میں بھارت والوں نے " لگے رہومنابھائی "فلم بھی بنائی۔ یہ واقعہ شاید ہم سنابھی چکے ہوں گے، لیکن قندرمکرکے طورپردہرانے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ بھٹو صاحب اس وقت کے صوبہ سرحد تشریف لائے تو استقبال کے لیے صوبائی وزیر قطاربنائے کھڑے تھے۔

    وہ ایک ایک سے ہاتھ ملاتے اور ہروزیر اپنا تعارف کراتا۔ چنانچہ اس وزیر نے اپنا نام بتانے کے بعد کہا، ٹیکسائز ایگریشن۔ بھٹومسکراکر اس کے کندھے پرتھپکی دی اوربولا۔ لگے رہوخان صاحب۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ فقرہ بھارت کیسے پہنچا۔ لیکن فلم اور یہ فقرہ اب ریکارڈ ہوچکاہے۔ لیکن جس خاص الخاص قسم کے سابق بلکہ بھولے بسرے وزیر کا ہم تذکرہ کررہے ہیں، وہ جب وزیربنااورلوگ اسے ملنے کے لیے آئے تھے تو وہ مہمانوں سے کچھ نہ کچھ اترواتاضرورتھا۔ کسی سے ٹوپی، کسی سے واسکٹ، کسی سے کوٹ، کسی سے چادر یا اگرکوئی پین یاچشمہ وغیرہ اس کے پاس ہوتا۔

    پھر وہ مہمان جب اپنے " کام" کی بات بتاتااور وزیرصاحب اس کے جواب میں " ہوجائے گا" کہتا، جس کااصل مفہوم"کبھی نہیں ہوگا"ہوتا تھا۔ پھر وزیر صاحب اس کے علاقے کی کسی چیزکے بارے میں کہتا ہے کہ تمہارے ہاں کی یہ چیزتوبڑی مشہور ہے، جاکر اتنی مقدارمیں بھجوادینا۔ پھر پوچھتا، پشاورمیں کہاں ٹھہرے ہو۔ وہ ہوٹل کانام بتاتاتووزیرکہتاارے اس ہوٹل کی تو فلاں ڈش مشہورہے، جاکر مجھے بھی بھجوادینا۔ چنانچہ جب لوگ سمجھ گئے تواس سے ملنے والے اکثروہ سب کچھ اتارکرجاتے جواتروانے کاہوتا۔ ایک دن سخت سردی میں ایک دوردراز کا ایک مہمان تن کے ضروری لباس میں ملنے گیا توسردی سے کانپ رہاتھا۔

    وزیرنے ڈانٹا، یہ کیا، اس کڑاکے کی سردی میں اس طرح ننگے سر بیمارہوجاؤگے، ایساکرو واپس جاکر پہلے ایک گرم کمبل اورٹوپی خریدنا۔ اورہاں ایک ٹوپی مجھے بھی بھجوادینا۔ اس کے ایک خاص ملازم نے جوہمارے گاؤں کا تھا بعد میں ہمیں بتایاکہ اس نے اپنے بنگلے میں ایک کمرہ ان چیزوں کے لیے مخصوص کررکھا تھا۔ جو وہ لوگوں سے چھینتا تھا۔ تیس، چالیس ٹوپیاں، بیس، پچیس کوٹ، پندرہ، بیس چادریں اوراتنے ہی جوتے۔ سب فالتوہوتے تھے لیکن پھر بھی لوگوں سے چھینتاضرور۔ لیکن ہمارے علامہ بریانی اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ وہ صرف چھیننے اوراتروانے کاکام نہیں کرتے بلکہ جوکسی کے پاس نہیں ہوتاوہ بھی چھینتے ہیں۔ مثلاً

    بھائی کہاں جارہے ہو؟

    پشاورجارہاہوں۔

    اچھا اچھا، وہاں کی چپل مشہورہیں، ایک جوڑا ساتھ لے آنا، پہنوں گاتودعائیں دوں گا۔

    کہاں جارہے ہوں۔

    ڈی آئی خان۔

    اچھا اچھاوہاں کاحلوہ مشہورہے، دوچارکلو ساتھ لانا، کھاؤں گاتودعامیں یادکروں گا۔

    علامہ نے گویا اس وزیر کے برعکس لینے کوبھی احسان بنادیاہے۔ وہ کسی سے پانی مانگتاہے توساتھ میں ثواب کاپیکیج دے کرپانی دینے والے کوممنون بھی کرتاہے۔ اس پر چشم گل چشم عرف کووئڈنائیٹن نے اڑائی ہے کہ اگرعلامہ کسی جگہ کوئی گٹھڑیا بوری لیے بٹھاہو اورکسی کی مدد کا منتظرہو اوروہ شخص اسے مل جائے تویہ نہیں کہتاکہ مجھے ذرایہ بوجھ اُٹھوادو۔ بلکہ اسے زیربار احسان کرتے ہوئے کہے گا، بہت سے لوگ اس راستے سے گزرے، کچھ نے توبڑی منت بھی کی کہ علامہ ہم یہ بوجھ اُٹھوائے دیتے ہیں لیکن میں نے انکارکیا۔ کیونکہ میں جانتاتھاکہ تم اس راستے سے آنے والے ہو اورمیں یہ ثواب کاموقع صرف تمہیں دیناچاہتاتھا۔ چاہے مجھے دیر ہی کیوں نہ ہوجائے۔

    وہ شخص بیچارا بوجھ اُٹھواکراپنے کندھے پررکھ لیتاہے کہ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں، میں ہی اٹھا لوں گا تاکہ ثواب زیادہ ہوجائے۔ لیکن بات یہی ختم نہیں ہوئی۔ وہ شخص جب وہ بوجھ علامہ کے گھر اتاردیتاہے توعلامہ ایک اوراحسان اس پرکرتاہے کہ اس بوجھ میں کوئی ایسانقصان ڈھونڈے گاجو اس شخص نے پہنچایاہوتا ہے۔ پھر آخری ٹچ یہ کہ کوئی بات نہیں، مجھے تھوڑاسانقصان ہواتوکیاہوا۔ ثواب توتم نے کمالیا۔

    چشم گل چشم ہی کابیان ہے کہ ایک مرتبہ علامہ دریاکے کنارے بیٹھے تھے کہ کوئی آکراسے اپنی پشت پر لادکردریاپارکرائے اورپھر ایک ایساآدمی مل گیا۔ حسب معمول اورحسب عادت اس سے بھی علامہ نے کہا کہ لوگ تو بہت تھے لیکن میں یہ ثواب تجھے دینے کی غرض سے بٹھاہواتھا۔

    اس شخص نے علامہ کو پیٹھ پر لاد کردریا پارپہنچایاتوعلامہ نے کہا، تمہاری پیٹھ، کاندھے کی ہڈیاں کچھ زیادہ سخت ہیں، راستے بھر مجھے چبھ رہی تھیں لیکن میں نے محض اس لیے برداشت کیا کہ تمہیں ثواب مل جائے۔ کچھ کھا لیاکرو۔ تاکہ جسم پرکچھ بوٹی بھی چڑھ جائے۔ لیکن علامہ ایسی تمام باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہتاہے کہ قہرخداوندی میرے بارے میں ایسی باتیں اس لیے پھیلاتاہے کہ میں اس سے کوئی کام کراؤں۔