ہم نے جب پہلے پہل یہ شعر سنے تھے کہ
دیوانوں کی مانند مرے شہر کے سب لوگ
دستار کے قابل کو ئی سر ڈھونڈ رہے ہیں
وہ لوگ جو سورج کو بچانے نہیں نکلے
اب راکھ کی بستی میں شرر ڈھونڈ رہے ہیں
اب شام ہے تو شہر میں گاؤں کے پرندے
رہنے کے لیے کوئی شجر ڈھونڈ رہے ہیں
تو اسی وقت سمجھ لیا کہ یہ شخص اونچا اڑنے والا ہے اور وہ اڑ گیا اڑ رہا ہے اور اس اڑان کا پتہ اس کے مجموعہ کلام سے بخوبی لگ جاتا ہے۔
"شہر میں گاؤں کے پرندے"اسحاق وردگ کی شاعری کا نیا مجموعہ ہے اور صاف پتہ چل رہاہے کہ گاؤں کا یہ پرندہ پشاور شہر اور پختون خوا سے اڑ کر کہاں کہاں پہنچ گیا۔ پشاور پختون خوا پھر پاکستان اور اب بھارت سے بھی اس کی پذیرائی کی آوازیں آرہی ہیں بھارت کے ممتاز ادیب غنی غیور رقم طراز ہیں۔
اسحاق وردگ کی شاعری میں پشاور کے حالات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ اکیسویں صدی کی نئی حسیات وجودی فکرمابعدالطبعیات افکار، تصوف، فرد کی تنہائی و رائیگانی شناخت کا مسئلہ اور انسانی اقدار کی شکستگی کے مضامین بھی ملتے ہیں۔ "
چاک پر بے بسی بناتا ہوں
یعنی میں زندگی بناتا ہوں
ڈاکٹر طارق ہاشمی لکھتے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں اس سرزمین کو جس جہادی ڈسکورس کے ذریعے آگ اور خون وخاک میں دھکیل دیا گیا ہے اس نے خارجی سطح پر ہی استبداد کے سامان نہیں کیے بلکہ داخلی سطح پر بھی توڑ پھوڑ کے اسباب بہم پہنچائے ہیں، تباہی وبربادی کے آثار جہاں در ودیوار پر نظر آتے ہیں وہاں دل و دماغ پر بھی اس کے نشانات واضح ہیں یہاں کا فرد جو ایک خاص تفاخر کے ساتھ زندگی بسر کرنا اپنی ثقافتی قدر خیال کرتا تھا اب اضمحلال اور یاسیت کے داخلی کرب میں گرفتار ہے۔ اسحاق وردگ کے ہاں اس تاراجی کی داستان کے کئی پہلو شعری پیراہن میں ظاہر ہوئے ہیں ان اشعار میں غصہ، احتجاج اور طنز بھی ہے جب کہ دکھ، پژمردگی اور کرب بھی نظر آتا ہے
ہوئی تھی آگہی جب شہر میں گم
کسی کوکوئی رنج اس کا نہیں تھا
مرے لیے تو یہ بیکار ہونے والا ہے
یہ دل کہ عشق سے بیزار ہونے والا ہے
ہم آج کل شاعری کی اتنی بہتات کا شکار ہیں کہ کسی اور کے ہاتھ میں بھی شاعری کی کتاب دیکھ کر ڈر جاتے ہیں کہ کہیں یہ پڑھنے کے لیے نہ کہہ دے وہی گھسے پٹے موضوعات، جانے پہچانے نام اور سفید ریش محاورے وغیرہ۔ فارسی علما اور اساتذہ نے شاعری کے لیے جو کڑی شرائط رکھی ہیں اس میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ شاعری کا ارادہ کرنے والے کو پہلے کم ازکم دس ہزار اشعار کا مطالعہ کرنا اور کم ازکم ایک ہزار اشعار یاد کرنا ضروری ہے تب وہ شاعری کو ہاتھ لگائے لیکن یہاں جس کا جو جی چاہے بول پڑتا ہے اور اس کا نام شاعری رکھ لیتا ہے۔
وہ کسی قدیم اساتذہ کا ایک لطیفہ بھی ہے کہ ایک امیر کو شاعری کا شوق تھا چنانچہ اس نے اپنے لیے ایک معروف شاعر کو استاد رکھا، یہ بھی یاد رہے کہ اگلے زمانوں میں اساتذہ کے بغیر شاعری کرنے کا سلسلہ ہی نہیں تھا، اس شاگرد نے استاد کو ایک غزل اصلاح کے لیے دی، کئی دن گزر گئے تو بے صبر شاگرد نے پوچھ لیا۔ استاد نے بتایا کہ ابھی موڈ نہیں بنا ہے، کچھ دن بعد پھر پوچھا ساتھ ہی تعلی کی کہ یہ کیا استاد، اتنے دن گزر گئے ہم تو بیت الخلا میں بیٹھے بیٹھے ایک غزل بنا لیتے ہیں۔
استاد نے کہا اس لیے تو پھر اس سے ایسی ہی "بو"بھی آتی ہے۔ ایک دوسرے استاد کو ایک شاعر نے اپنا مجموعہ کلام دیا کہ اس پر کچھ لکھیں پھر اس کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا کہ میں حج پر گیا تھا تو اپنا "دیوان" "حجراسود"سے بھی مس کرکے آیا تھا۔ استاد نے کہا قریب ہی زمزم بھی تھا اگر اس سے دھو بھی ڈالتے تو اور اچھا ہوتا۔ لیکن اسحاق وردگ کی اس کتاب نے ہمیں خود ہی اپنا آپ پڑھنے کے لیے مجبور کیا اور جب پڑھا تو خوشی ہوئی ایک عرصے کے بعد کوئی نئی چیز پڑھنے کو ملی۔ معروف شاعر اور کالم نگار ظفراقبال، اسحاق وردگ کے بارے میں لکھتے ہیں۔
ہمیں غزل کے نئے امکانات کے بارے میں اپنا ایمان تازہ رکھنا چاہیے کہ یہ امکانات کہیں بھی ظاہر ہوسکتے ہیں، جدید اردو غزل کا یہ کمال ہے کہ اپنی تازگی برقرار رکھنے کے لیے اس صنف کے بڑے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ پشاور سے بھی اسحاق وردگ کے روپ میں ایک نئے شاعر کو چن لیا ہے۔
اس کی شاعری پڑھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے وہ نئی حسیات کا ہم مزاج شاعر ہے اس کے وجدان میں نئی حسیات کو گرفت میں لانے کا ہنر موجود ہے معاصر شاعری کے کڑے سے کڑے انتخاب میں بھی اس کی شاعری جگہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس لیے جدید طرز احساس اور تازہ کاری کی وجہ سے اسحاق وردگ کی غزلیں میرے کالموں میں بطور انتخاب شامل ہوتی رہتی ہیں۔