ہم نے سنا ہے اور ظاہر ہے کہ جب سنا ہے تو پھر ٹھیک ہی ہو گا کیونکہ آج تک ہم نے اس ملک میں جو کچھ بھی سنا ہے سچ ہی سنا ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں سنا ہے۔ ویسے تو اس میں ستر سال کا سارا کہا سنا آ جاتا ہے لیکن جب سے سنانے کا کام محترمہ فردوس عاشق اعوان اور ہمارے صوبے (کے پی کے) میں شوکت علی یوسف زئی نے شروع کیا ہے تب سے تو سچ ہی سچ سنائی دینے لگا ہے اور بہت زیادہ سچ بہت زیادہ سنائی دینے لگا ہے تو اب کے سنا ہے کہ سبزیوں اور پھلوں کی نگرانی کے لیے "اسپیشل اسکواڈ" تشکیل دیا گیا ہے۔ کمیٹی نہ کمیشن نہ ٹریبونل بلکہ "اسکواڈ" اور وہ بھی اسپیشل گویا چپڑیاں بھی اور دو دو بھی ع:
سحرم دولت بیدار بہ بالیں آمد
گفت برخیر کہ آں خسرو شیریں آمد
صبح بیداری نے مجھے جگایا کہ اٹھ کہ تمہارا وہ "خسرو شیریں " آ رہا ہے بلکہ مزید اکساتے ہوئے کہا کہ:
قدمے درکش و سرخوش بہ تماشا بخرام
تا بہ بینی کہ نگارت بہ چہ آئیں آمد
یعنی قدح (کسی بھی مشروب کی ہو) کھینچ اور دیکھ کہ وہ نگار کس آئیں یعنی طرز خرام پر آ رہا ہے۔ مزید تفصیل میں کہا گیا ہے کہ "اسکواڈ" سرکاری نرخوں کا تعین اور اس پر عمل درآمد کرائے گا۔ اس اسپیشل اسکواڈ میں کون کون شامل ہے، یہ چھوڑیے کہ میرؔ کی یہ عادت ہے کہ اسی عطار کے لونڈے ہی سے دوا لیتے ہیں جس نے اس کو بیمار بنایا ہوا ہے۔
بازار میں پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ چونکہ ہمارا بھی جنم جنم کا ناطہ ہے، اس لیے جانتے ہیں کہ کیا ہو گا۔ لیکن اس بات کو ہم براہ راست اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ ہم پختون ہوتے ہوئے بہادر بالکل نہیں ہیں، اس لیے تو نام میں "خان" کی جگہ "جان" استعمال کرتے ہیں تا کہ سند رہے اور بوقت فرار کام آئے۔ خان اور جان میں بظاہر ایک نقطے کی اونچ نیچ کا فرق ہے لیکن اس اونچ نیچ ہی میں تو ساری اونچائی اور نیچائی ہے۔
یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اوپر والا نقطہ بہرحال اوپر ہوتا ہے، کسی بھی وقت نیچے والے نقطے پر کود کر اس کا کچھ کچومر نکال سکتا ہے۔ اس لیے وہی وطیرہ اختیار کریں گے جو ہم نے اپنی "جان" بچانے کے لیے اختیار کیا ہوا ہے۔ یعنی کہانی کی سیٹی میں کچھ کہنا۔ یہ ایوب خانی دور کی بات ہے۔
ہمارے" بانگ حرم"کے دفتر کے نیچے ایک ریڑھی والا پھل بیچا کرتا تھا، کبھی کچھ کبھی کچھ۔ جس دن وہ کیلے لگاتا یا مالٹے جو درجنوں کے حساب سے بیچے جاتے ہیں توصبح اپنا ٹھپہ جمانے اور حساب کتاب کرنے پر آواز لگاتا تھا، کیلے تازہ چار روپے درجن۔ کبھی کبھی سرُ میں آ کر بولتا آئیے آئیے "شہد کے بچے" لیجیے چار روپے درجن۔ تھوڑی دیر بعد اس دکاندار کا بیٹا دکان سے نکل آتا جس کی دکان کے آگے وہ ریڑھی لگاتا ہے، کافی موٹا تازہ لیکن کچھ کھسکا ہوا۔ وہ نوجوان کیلے اٹھا اٹھا کر کھانے لگتا، ڈیڑھ دو درجن کو ٹھکانے لگاتا تو ایک کچا اٹھا کر اندر باپ کے لیے بھی لے جاتا۔ یہ کہتے ہوئے کہ بابا بہت میٹھے ہیں۔
ریڑھی والا حساب لگانے کے بعد آواز لگاتا۔ کیلے ہری چھال کیلے "چھ روپے درجن" بیچ میں کچھ دکانداری ہو جاتی تو اس علاقے کے دو سپاہی بہ دوران گشت پہنچ جاتے اور ریڑھی کے ادھر ادھر کھڑے ہو کر کیلے کھانے لگتے۔ وہ بھی تقریباً ایک درجن کھا لیتے تو ان کے جانے کے بعد نرخ آٹھ روپے درجن ہو جاتے، ابھی بچارا دو چار درجن بھی نہ بیچ چکا ہوتا کہ کمیٹی والے ایک پتلے ڈنڈے سے ریڑھیوں کو بچاتے اور پیچھے ہٹنے کا حکم دیتے جس پر عمل ضروری نہیں ہوتا تھا، وہ دو درجن کیلے تھیلے میں ڈلواتا اور چلا جاتا۔ کیلے والا دس روپے درجن کی آواز لگانے لگتا، تھوڑی سی دکانداری ہو چکی ہوتی کہ ٹریفک والا سیٹیاں بچاتا ہوا آتا اور غصے سے اسے غلط جگہ کھڑے ہونے پر ڈانٹتا لیکن ریڑھی والا پیچھے ہٹنے کے بجائے دو درجن کیلے تھیلی میں ڈالتا تو ٹریفک والا اسے اشارے سے ریڑھی کے نیچے والے خانے میں رکھنے کو کہتا۔ اور سیٹی بجاتا ہوا چلا جاتا اور ادھر کیلے بارہ روپے درجن کی آواز سنائی دینے لگتی۔
کبھی مقامی تھانے والے یا کمیٹی کے کچھ بڑے یا کسی مجسٹریٹ کے دفتر والے بھی آجاتے۔ یوں بعد دوپہر کیلے سولہ روپے درجن تک پہنچ جاتے۔ اب یہ جو ٹماٹر وغیرہ کی کہانیاں بن رہی ہیں آپ یقین کریں ہم خود کاشتکار ہیں، آلو پانچ روپے فی بوری بیچ چکے ہیں اور پیاز بھی۔ لگتا ہے کہانیوں کو بھی پتہ چل گیا اس لیے ایک کے بعد ایک دُم ہلاتی ہوئی آ رہی ہیں۔ اب یہ ایک اور کہانی ہے جو بہت ہی پرانی ہے، اتنی زیادہ پرانی کہ ہر کسی کو زبانی یاد ہو گی لیکن کیا کیا جائے اب آئی ہے اور بچاری نے دُم بھی بہت ہلائی ہے تو چلو نپٹا ہی دیتے ہیں۔ یہ اس شخص کی کہانی ہے جو ہو بہو پاکستانی تھا یعنی نادانی میں لاثانی تھا جسے "خالص دودھ" پینے کا شوق ہو گیا تھا۔ بازاری دودھ کے بجائے اس نے خالص دودھ کے لیے ایک بھینس خریدی اور اس کی نگرانی دوہانی پر ایک نوکر کو مامور کیا۔ نوکر کچھ دن تو نادانی میں خالص دودھ پہنچانے لگا لیکن پھر اسے خیال آیا کہ مالک کوئی کٹٹرا بچھڑا تو نہیں ہے کہ خالص دودھ پیے گا، اسے پانی ڈال کر تھوڑا زود ہضم بنانا چاہیے۔
مالک کو شک ہو گیا تو اس نے ایک اور نوکر اس کی نگرانی پر لگا دیا۔ تو دودھ کی جگہ جو چیز آئی مالک نے اسے سامنے رکھ کر کہا تو تم پانی ہو لیکن نہ جانے کس طرح تجھے سفید کیا گیا ہے۔ یہ کہانی آگے بھی بڑھ سکتی ہے لیکن ہم اسے یہیں روک دیتے ہیں کہ ابھی تو بھینس کو صرف ستر سال ہوئے ہیں آگے اور بھی تو نگران اور مقامات آہ فغان آئیں گے۔ اور بات بھی صرف نظریہ پاکستان، پھر سایہ خدائے ذوالجلال سے گزر کر صرف ریاست مدینہ تک پہنچی ہے، آگے پتہ نہیں کہاں تک پہنچے۔ ویسے ہم تھوڑا پیچھے جا کر اس اسکواڈ بلکہ اسپیشل اسکواڈ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو موقع حالات شواہد اور دلائل کی روشنی میں کچھ موزوں نہیں لگتا۔ اگر صاحب کی جمع صاحبان، عزیز کی جمع عزیزان، وزیر کی جمع وزیران اور افسر کی جگہ افسران ہے تو عمیر کی جگہ عمران بھی غلط نہیں ہے، اس لیے کہنا چاہیے کہ فلاں فلاں عمران پر مشتمل قیمتوں کی نگرانی کے لیے ایک اسپیشل عمران بنایا گیا ہے۔