یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ہم کسی کتاب کو پڑھ کر بری طرح "مبتلائے رشک" ہورہے ہیں اورجی میں آتا ہے کہ کاش اس کتاب کے مصنف اوراس سفرنامہ کے مسافر ہم ہوتے۔ کتاب کانام ہے، سقراط کادیس۔ ہم اپنے اندر سقراط کی یک گونہ مماثلت پاتے ہیں کیوں کہ ان ہی کی طرح ہم بھی ساری عمر بھاڑجھونک کر یہ جان پاتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے اوران ہی کی طرح زہربھی پی رہے ہیں لیکن شاید یہ زہرملاوٹی ہے۔
اس لیے کام نہیں کررہاہے، مماثلت صرف اس حد تک ہے، باقی جوکچھ سقراط کااپنا تھا وہ اس کااپنا ہی ہے اوراپناہی رہے گابلکہ اس سفرنامے نے ہمیں اوربھی کئی پہلوؤں سے جلابھنا دیا ہے کیوں کہ یونان تو یونان تھا اوریونان رہے گا، اس سرزمین پر ان قدموں کے نشان پڑے ہیں، اس ملک کی خاک میں ہیرے موتی پڑے ہیں، گردوغبار میں وہ سانسیں ہیں جن سے "علم وفہم" کی سانسیں چل رہی ہیں۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر کایہ سفرنامہ یونان خاصے کی چیزہے، اس میں سقراط ہی نہیں بلکہ یونان کے اورمنتخب روزگار لوگوں کاتذکرہ ہے اورانھوں نے ان مقامات اورراستوں کو بچشم خود دیکھا ہے جہاں کبھی دنیا کے منتخب روزگار شخصیات پھرا کرتے تھے، الف لیلوی کہانیاں مجسم ہو کر سامنے گزرتی تھیں، اونچے اونچے ستونوں اورگنبدوں کے نیچے دانش بسیراکرتی تھیں۔
جناب عامر نے نا صرف مقامات ہی کی سیراپنے پڑھنے والوں کو کرائی ہے بلکہ یہاں سے اٹھنے والے نظریات اورعقائد پرروشنی ڈالی ہے، افلاطون کی اکادمی کی غلام گردشوں کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں کی سیر بھی کرائی ہے، ارسطوکے ساتھ انھوں نے میکاویلی اور چانکیہ کاموازنہ بھی کیاہے، ڈاکٹرزاہد منیرعامر نے اپنی اس کتاب میں مغرب کے اس نظریے کابھی احاطہ کیا ہے کہ ہرکامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے، ویسے تو یہ بات سچ ہے لیکن اگر اسے رسوائی کی بات بناکر پیش کیاجائے تو یہ ظلم ہے ورنہ ایک سادہ سی حقیقت سب کو معلوم ہے کہ ہرمرد کے پیچھے کوئی اورعورت ہونہ ہو، اس کی ماں تو یقیناً ہوتی ہے بلکہ ہرانسان کی معمار ہی عورت یا ماں ہوتی ہے۔
سقراط کافلسفہ کسی عورت سے متاثرہو یانہ ہولیکن یونان ہی کی ایک کہانی میں عورت کالہوصاف نظر آتا ہے بلکہ دو عورتوں کا کہیے۔ ایک عورت تو زیوس کے معبدکی "اولمپیا" تھی جسے مقدونیاکے تقریباً وحشی اور بربرفاتح فلپ نے زبردستی اپنی خواب گاہ میں ڈال لیا تھااوراس نے جواباً اس بھیڑیے کی آنکھوں پر پنچہ مارا تھا۔
نہ دیدی کہ چوں گر یہ عاجزشود
برآرد بہ چنگال چشم پلنگ
ترجمہ۔ دیکھتے نہیں کہ جب بلی مجبورہوجاتی ہے تو پنجہ مارکر بھیڑیے کی آنکھ نکال لیتی ہے۔
اولمپیا نے فلپ کے دل کی آنکھ نکالی تھی، پھر اس ہاں بیٹا پیدا ہوا، پھر اس نے بچے کو شہزادے کے بجائے دیوتا زادے کے طورپر پالا، جسے آج دنیا الیگزینڈردی گریٹ کے نام سے جانتی ہے، پھر یہ بھی اس جذبے کو لیے ہوئے چلاجو یونانی میں "زرکسیز" کا تھا۔ زرکسیز نے یونان پر حملہ کیا تھا، اس حملے سے "میراتھان" کا قصہ بھی وابستہ ہے، زرکسیزنے یونان کو فتح نہیں تھا لیکن تباہ بہت کیاتھا اورسکندر نے یونانیوں کے اس انتقامی جذبے میں اپنی دیوتائیت کاتڑکا لگا کرمزید تیزکردیا تھا۔ وہ مشرق میں تباہی پھیلاتے ہوئے جب مصر پہنچا تو تخت کے قدیم ساجھے دار مذہبی پروہتوں نے اسے فوراً "فا۔ را" یعنی فرعون کے بیٹے کابھی خطاب دے دیا۔
زیوس اوررا دونوں سورج دیوتا ہیں اور سکندر ان دونوں سورجوں کامقدس ہالہ اپنے گرد پھیلائے اصل سورج کی سرزمین مشرق پر چڑھ دوڑا، تو یونانی یہ سمجھ کر لڑتے تھے کہ دیوتا ہمار ے ساتھ ہے۔ لیکن جب وہ ہندوستان کی طرف آیا لیکن وہ دریائے جہلم سے آگے نہیں بڑھ سکا، راجہ پورس کے ساتھ اس کی جنگ آخری ثابت ہوئی اور وہ یہاں سے بیمار ہوکر وطن واپس جاتے ہوئے بابل کے قریب فوت ہوگیا۔ یہاں سے پھرایک اورعورت کی کہانی شروع ہوتی ہے، روشانہ رکسونا یا رخسانہ، اس عورت کے گرد بھی مغربی قلم خوب خوب گھومتا رہاہے حالاں کہ وہ ایک عام سی عورت تھی اورسکندرکے مرنے کے بعد یونان چلی گئی اوراپنی ساس اولمپیاکی معیت میں اپنے بیٹے "اورسوگ" کو لیے زندہ رہی۔
سارا سچ یہی ہے باقی سارے فسانے ہیں
خیر صرف ایک بات سے اتنی باتیں نکل آئیں
یہ صرف رسمی ساسفرنامہ نہیں جس میں ہوٹلوں کی ویٹرسوں، ایئرہوسٹس اورطرح طرح دار حسیناؤں کی فرضی کہانیاں نہیں ہیں بلکہ سفرنامے کی صورت میں ایک دانش نامہ ہے اگر کسی کو یونان اوردانش کے بارے میں جانناہوتو یہ سفرنامہ پڑھے۔ قلم فاوئڈیشن کی شایع کردہ یہ کتاب ایک خاصے کی چیزہے۔
گاہے گاہے بازخواں ایں قصہ پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گرداغ ہائے سینہ را