فرانسیسی صدر کے بیان اور پھر اس پر مسلمانوں کے ردعمل کا معاملہ تواپنی جگہ۔ لیکن اس سلسلے میں ایک لفظ یا اصطلاح "ہولوکاسٹ" کا بھی ذکر آیا ہے۔"ہولوکاسٹ" کیا ہے اور کیا نہیں ہے، اس سے یقیناً زیادہ تر لوگ واقف نہیں ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا اور یورپ کے ممالک کی حکومتوں نے یہ پابندی لگائی تھی کہ "ہولوکاسٹ" کے خلاف کچھ کہنا یا لکھنا جرم ہے۔
ہولوکاسٹ کا سیدھا سادا مطلب "نسل کشی" بنتاہے اور جنگ عظیم دوئم میں ہٹلر اور اس پارٹی پر الزام ہے کہ اس نے یہودیوں کی بڑے پیمانے پرنسل کشی کی ہے۔ جنگ عظیم دوئم میں جرمنی کی افواج کو شکست ہوگئی۔ ہٹلر ختم ہو چکا تھا، اس کی طرف سے بولنے اور صفائی پیش کرنے والا کوئی نہیں تھا چنانچہ "مرے کو مارے شامدار" اور "مرے پر سو درے" کے مصداق ایسا کوئی الزام نہیں تھا جو اس پر لگایا نہ گیا ہو، کیمپوں اور عقوبت گاہوں کے بارے میں وہ وہ باتیں پھیلائی گئیں جو کسی بھی لحاظ سے "ممکن" نہیں تھیں۔
اندازہ اس ایک حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ چھ لاکھ یہودیوں کے قتل کا الزام تھا حالانکہ اس وقت شاید پورے یورپ میں بھی یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ نہیں ہوگی، اب ذرا سوچیں ہٹلر کے حکم پر اس کی جماعت کے کارکنوں اور فوجیوں نے چھ لاکھ یہودی صرف جرمنی میں کیسے مارے؟ یوں یہودیوں کے لیے دنیا بھر میں رحم اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے۔ جرمنی اب تک اسرائیل کو "تاوان جنگ" کے طور پر ایک بڑی رقم دے رہا ہے۔ اسرائیل کی بے پناہ اور تیز رفتار ترقی میں سب سے زیادہ ہاتھ اس "تاوان جنگ" کی رقم کا ہے۔
یہ سب اس لیے ہوا کہ یورپ اور امریکا نے پابندی لگائی تھی کہ ہولوکاسٹ کی مخالفت یا اس کے بارے میں کچھ کہنا "خلاف قانون" ہے۔ کوئی یہ نہیں کہے گا کہ ہولوکاسٹ کے افسانے جھوٹ ہیں اور یہ پابندی ابھی تک قائم ہے۔ ہولوکاسٹ کے خلاف بولنے پر کئی افراد کو سزائیں بھی ہوئیں۔ یہ قصہ "اعلان بالفور" سے شروع ہواہے۔ جب امریکا نے یورپ والوں سے جنگ میں مدد دینے کو اس شرط سے مشروط کیاکہ امریکا جنگ میں مدد دے گا لیکن اتحادی فتح کے بعد " ریاست اسرائیل" کے قیام میں مدد دیں گے۔
حیرانی دیکھیں کہ "امریکا" جو اسرائیلیوں کو انسانی حقوق دلا رہاہے خود اصلی امریکی ریڈ انڈین لوگوں کا ہولوکاسٹ کر چکا ہے اور کر رہا ہے۔ ایسے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں انگریز وہاں کے اصلی باشندوں کا قلع قمع کر چکے ہیں اور یہاں ان کو اسرائیل کے لیے انسانیت کا درد اٹھ رہا۔ اس کی وجہ صرف اور صرف امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات ہے۔ یہ پہلا "ہولوکاسٹ" نہیں ہے بلکہ صدیوں پہلے بھی ایک "ہولوکاسٹ" ہوا تھا۔ یہ آج سے لگ بھگ ڈھائی ہزار سال پہلے عراق و بابل میں ہوا تھا جس کا ولن بخت نصر تھا اور فال آف برلن کی طرح فال آف بابل ہوا تھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بخت نصر کی پڑوسی ریاست کی شرانگیزیوں سے تنگ آ گیا اور پھروہ اس کا قلع قمع کرنے پر مجبور ہو گیا۔ بخت نصر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے یروشلم کوتباہ کیا، اسی کے ٹھکانے ملیا میٹ کیے اور یہودیوں کو اسیر کر کے بابل لے گیا جہاں ان کو ایک محلے میں رکھا۔ جسے بابل والے "محلہ کبیر" اور یہودی "تل ابیب" کہتے تھے۔ آج کے امریکا کی طرح اس زمانے میں ان کو ہخامشی حکمران کورش (سائرس) کی حمایت اور سرپرستی مل گئی۔
انھوں نے کورش کی بہت مدد کی اور بخت نصر کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے بنویند کے دور میں سائرس کی فوجوں نے بابل کو فتخ کر لیا۔ کیا یہ بھی بہت بڑا واقعہ ہے جس پر اس زمانے کے مورخین نے ایک طرح سے "فال آف بابل" جیسا نوحہ پڑھا تھا چنانچہ بابل کی فتح کے بعد ہخامشی حکومت نے یہودیوں کی ہرطرح سے مدد کی۔ جنگ عظیم اول کے بعد امریکا میں انھوں نے جڑیں اتارلی تھیں۔
بہرحال آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے بھی اس قوم نے ہخامشی حکمرانوں کی تابعداری کر کے مراعات حاصل کیں اور آج بھی اسرائیل اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ وہ امریکا اور یورپ کی تابعداری کر رہا ہے جب کہ فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ عربوں کے علاقوں پر قبضہ کر کے اسرائیلی ریاست کو توسیع دی جا رہی ہے۔
اب تو حالت یہ ہے کہ اسرائیل اور یہودی کمیونٹی نے ساری دنیا بشمول یورپ اور یہاں تک کہ امریکا کو بھی مالیاتی نظام کی پیچیدگیوں کے ذریعے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ وہ دنیا کی معیشت کا ستر فیصد اپنے قبضے میں لے چکے ہیں اوران کی اقتصادی اور مالیاتی طاقت میں دن بدن مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس قوم کی سوچ اور طرز عمل کیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اسرائیل جو اپنے آپ کو دنیا کی ایک بڑی طاقت کے طور پر منوا رہا ہے۔ حالانکہ یہ ملک جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے میں ملکہ رکھتا ہے۔
آخری الفاظ یوں ہیں کہ مسلم ممالک کو دوسروں کا رونا رونے کے بجائے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر غور کرنا چاہیے۔ دوسروں کی ترقی دیکھ کر غصے میں آنا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔