ہم اس محترمہ کے ازحد شکر گزار وممنون ہیں جس کی وجہ سے ہم بور کی اس بوری سے نکل آئے جو کچھ دنوں سے ہمیں لاحق تھی، اگر وہ محترمہ اس محترم کو تھپڑ نہ مارتی تو ہم ابھی تک یا تو پجامہ ادھیڑ کرسی رہے ہوتے یا سی کر ادھیڑ رہے ہوتے، یہ منظر تھپڑ مارنے کا دراصل ایک فلم میں تھا لیکن ہمارے کام کاج سنور گیا۔
دراصل ان دنوں ہمارے پاس کوئی تحقیقی پروجیکٹ نہیں تھا کیونکہ سب کچھ اچھا ہوچکا تھا۔ تبدیلی آئے مدت گزرچکی ہے، نیا پاکستان کی جگہ ریاست مدینہ مل چکی تھی گویا آگ لینے گئے تھے اور پیغمبری مل گئی، مطلب کہ راوی، چناب ستلج، بیاس کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ بلکہ دریائے کابل بھی چین ہی چین لکھ رہاتھا۔
بڑی کھجلی ہورہی تھی کہ کوئی پروجیکٹ ملے۔ اوپر سے بزرگوں کا نادر شاہی حکم کہ بیکار مباش۔ کہ تھپڑ کا یہ واقعہ ہوا۔ اور ابھی تھپڑ کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ ہمیں تحقیقی پروجیکٹ مل گیا تھپڑ۔ ویسے تو اعضائے ضرر میں مکالات(مکہ کی جمع) بھی شامل ہیں لیکن جو بات تھپڑ میں ہے وہ کسی اور چیز میں کہاں کیونکہ تھپڑ کی تاریخ بہت پرانی ہے بلکہ جغرافیہ بھی کیونکہ جو مقام تھپڑ کے لیے مخصوص ہے اس کا حدود اربعہ اچھا خاصا مشہور ہے کیونکہ تھپڑ کامقام نزول نہ بنگال ہوتا ہے نہ پرتگال بلکہ "گال"ہوتاہے جس سے انگریزی لفظ "گالا" بھی بن سکتا ہے۔
تھپڑ صرف تھپڑ نہیں ہوتا بلکہ ایک "تیربہدف"اکسیر بھی ہوتا ہے آپ نے فلموں اور ڈراموں میں اور شاید اپنے گھروں میں دیکھا ہوگا کہ کوئی خاتون اچانک باولی ہوجاتی ہے اور رپٹ بولنے لگتی ہے چیختی چلاتی ہے اور بریک فری ہوجاتی ہے تب اچانک حاذق طبیب اسے ایک زور کا تھپڑ رسید کرتا ہے تو اچانک جیسے جادو سے سب کچھ شانت ہوجاتا ہے اتنی خاموشی طاری ہوجاتی ہے کہ سوئی گرنے کی آواز بھی اڑوس پڑوس میں سنائی دے۔
پڑوسی ملک والوں کے ہاں بھی تھپڑ خاصی اہمیت رکھتا ہے اور انھوں نے حسب معمول حسب عادت اور حسب ضرورت کہیں اورسے چوری کرکے گاندھی جی کے ساتھ یہ جملہ نتھی کیاہواہے کہ کوئی ایک گال پرتھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کردو۔ حالانکہ یہ قول حضرت یسوع مسیح کا ہے۔ پشتو میں تھپڑ کے لیے کہاگیا ہے کہ جیسا منہ ویسا تھپڑ اور بہت ضروری ہے کیونکہ ہرمنہ پر ہر وزن یا رفتار کا تھپڑ مارنا اچھی بات نہیں ہے بڑے منہ والے کو تھپڑ بھی بڑا اور وزن دار مارنا چاہیے نازک لوگوں اور خاص طور پر خواتین کو حسب نزاکت ولطافت تھپڑ مارنا چاہیے۔
لیکن یہ قید صرف مردوں کے لیے ہے خواتین کے لیے کوئی پابندی نہیں خاص طور پر بیویوں کے لیے شوہرکو۔ تھپڑمارنے میں۔ لیکن شوہروں کے لیے بھی محتاط رہنا ضروری ہے خاص طور پر اگر وہ کچھ ہتھ چھٹ اور تشدد پسند بھائی بھی ہوں۔ یہ ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ قہرخداوندی چشم گل چشم عرف کوئڈنائنٹین ایک مرتبہ بے احتیاطی کا نتیجہ بھگت چکا ہے۔ حالانکہ وہ اس سلسلے میں پھر ہمیشہ کے لیے محتاط بلکہ توبہ تائب ہوگیاہے۔ لیکن ابتدائی دنوں میں جب گونگی بہری نعمت عظمی سے اس کی شادی ہوگئی تو ایک غصے میں بھول گیا تھا کہ نعمت عظمی کے چار عدد بھائی "شامت عظمیٰ" بھی تھے۔
جب ہم موقع واردات پر پہنچے تو قہرخداوندی زمین پر اس حال میں لیٹا ہوا تھا جیسے کسی مرکھنے سانڈ نے نہایت فرصت سے اسے دوچار درجن ٹکریں ماری ہوں یا اس کے اوپر سڑک کوٹنے والا رولر گزرا ہو۔ لیکن اس کے باوجود"نعمت عظمے"جھاڑو اٹھا کر اس پر جھپٹنے کی کوشش کررہی تھی کہ محلے کی خواتین اسے روکے ہوئے تھیں۔"اپنی"زبان میں وہ جو کچھ اظہارخیال چلا چلا کر کررہی تھی اس کا آزاد ترجمہ کچھ خواتین یہ کررہی تھیں۔ کہ چھوڑو مجھے۔ اس نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔ گویا اس کی وہ حالت جو اس کے بھائیوں کی تھی چنداں اہمیت نہیں رکھتی تھی لیکن "تھپڑ" کا حساب وہ اب خود چکانا چاہتی تھی۔
ہم نے جب تحقیق کا ٹٹو "تھپڑ"کے پیچھے دوڑایا تو بہت سارے تاریخی تھپڑ ملے جن کا نزول بہت دلچسپ اور اہمیت کا حامل تھا۔ لیکن جو تھپڑ ہمارے جمال بھائی نے ایک"خان"کو مارا تھا وہ تمام گزشتہ اور آیندہ تھپڑوں میں خاص الخاص تھا۔ جمال بھائی کی ایک خوبی تو یہ تھی کہ اول درجے کا نکما تھا دوسری خوبی یہ کہ "بڑبولا"بھی ٹاپ کلاس تھا اور تمام خوبیوں کی سردار خوبی یہ تھی کہ جھوٹ بالکل سچ کی طرح بولتاتھا حالانکہ وہ کوئی لیڈر نہیں تھا بلکہ عام گیدڑ تھا۔
اس کے بھائی اکثر اسے کہیں نہ کہیں کام پر لگانے کی کوشش کرتے لیکن وہ ان کی ہر کوشش بڑی کامیابی سے ناکام بنادیتا تھا۔ ایسی ہی ایک کوشش اس کے ایک بھائی نے اسے چارسدہ کے کسی خان کے پاس ملازم کروایا تو دوسرے دن کبوتر کی طرح واپس آگیا۔ بھائی نے وجہ پوچھی۔ تو بولا۔ تم تو میری طبیعت جانتے ہو کہ مجھے بری بات پسند نہیں۔ اس خان نے کوئی بات کی تو میں نے اسے ایک ایسا تھپڑ مارا کہ تھپڑ زناٹا دوسرے کان سے شوں کرکے نکل گیا۔ اب یہ پتہ تو تھپڑ مارنے والوں یا تھپڑ کھانے والوں کو ہوگا کہ تھپڑکا زناٹا دوسرے کان سے کیسے نکلتا ہے۔ تھپڑ ضرر رسانی "درجہ اول"میں نہیں آتااور اس میں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ پیار کا شائبہ بھی پایا جاتا ہے۔