ہم نہ صوفی ہیں نہ سالک لیکن آج کل تصوف اور راہ سلوک کی اسی کیفیت سے گزررہے ہیں جس کا ذکربہت سارے صوفیاء اور سالکین اور شعراء نے کیاہے۔ سب سے بہترین شعر تو اس پرخوشحال خان خٹک کاہے کہ
پہ ہرمخ کے نندارہ دھغہ مخ کڑم
چہ لہ ڈیرے پیدایئی نہ ناپدید شو
یعنی میں ہر چہرے میں اسی ایک چہرے کا نظارہ کرتاہوں جو بہت زیادہ"پیدائی"سے ناپید ہوگیا ہے۔ اردو کا ایک شعر ہے کہ
ہرسو دکھائی دیتاہے وہ جلوہ گرمجھے
لایاہے کس مقام پہ میری نظر مجھے
آپ یقین کریں کہ ہم جب کوئی بھی اخباراٹھاتے ہیں، وہی ایک چہرہ دکھائی دیتاہے جو بہت زیادہ پھیلاؤ کی وجہ سے ہماری بیناائی کا ایک حصہ بن کررہ گیاہے، یعنی جدھر دیکھتے ہیں ادھر تو ہی تو ہے۔ میرصاحب نے بھی کہاہے۔
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظرجدھردیکھا
جان سے ہوگئے بدن خالی
جس طرف تو نے آنکھ بھردیکھا
پہلے ہم اخباروں میں کوئی اور چہرہ بھی دیکھ لیتے تھے۔ وہ"انہماک"والی خاتون، خریداری کرنے والی خاتون، کسی تقریب میں شامل خاتون، کسی دھرنے میں ناچنے والی خاتون یا کوئی کیریئر والی خاتون، یا قتل ہونے والی ماڈل یا فنکارہ۔ یا ہراسگی کی شکار خاتون وغیرہ۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اب ان سارے چہروں کی جگہ یہی ایک چہرہ دکھائی دیتاہے جو ہماری آنکھوں میں منجمد اور اسٹل ہوگیاہے۔
فلم یا کسی بھی متحرک تصاویر والے سلسلے میں یہ سائنسی اصول کارفرماہوتاہے کہ انسانی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہ سولہ سیکنڈتک قائم رہتاہے اگر فلم گزربھی جائے چنانچہ ساری تصاویر گزرنے کے باوجود متحرک نظرآتی ہیں۔ کہ سولہ سولہ سیکنڈ کے فریم میں تسلسل سے چل رہی ہوتی ہیں۔ لیکن ہماری بینائی میں شاید کچھ گڑبڑکی وجہ سے ہمیں وہی ایک تصویر چوبیس گھنٹے آنکھوں کے سامنے دکھائی دیتی ہے۔
اس لیے ہرسو ہر اخبار ہرتصویر میں "وہ"جلوہ گردکھائی دیتی ہے اور یا پھر اس تصویر ہی میں کچھ ایسی خصوصیت ہے کہ آنکھوں سے ہٹتی ہی نہیں۔ اور تو کوئی خاص پرابلم اس سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ ہمیں اپنے اندر کچھ تصوف وسلوک کی کیفیات محسوس ہونے لگی ہیں لیکن اتنی سی پرابلم ضرورہے کہ اب ہم نہ کچھ پڑھ سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں سوائے اس چہرے کے۔ ادھرمجبوری یہ ہے کہ آخر ہم کوئی یونانی اسطورہ کے "تارکسس"تونہیں کہ پانی میں اپنا عکس دیکھتے دیکھتے ہی جان دے دیں اور بھی کام ہیں دنیا میں اس چہرے کے سوا۔ چنانچہ اس کاحل ہم نے یہ نکالا کہ آنکھیں تو اس تصویر سے فارغ ہوہی نہیں رہی ہیں، اس لیے باقی کام"کانوں "کے حوالے کیے دیتے ہیں، اس لیے ریڈیوسنناشروع کردیا۔
تصویرعرش پرہو اور سرہوپائے ساقی پر
لیکن یہ کیا؟ ریڈیو کی آواز میں بھی وہی تصویر؟ گویا کانوں نے بھی آنکھوں کاکام شروع کردیا۔ آپ شاید نہ مانیں کہ کانوں سے تصویرکیسے دیکھی جاسکتی ہے؟ اور یہ اس لیے کہ آپ ہم نہیں اور ہم آپ نہیں۔ راہ سلوک میں تو ایسا بھی ہوتاہے کہ آنکھیں ناک توکیاسارا جسم ایک "آنکھ" بن جاتاہے یا سارے جسم میں آنکھیں ہی آنکھیں پھوٹ آتی ہیں۔ ایک پشتو ٹپے میں کسی ایسے ہی راہ سلوک کے مسافر نے کہاہے کہ
ستا پہ دیدن بہ زہ موڑ نہ شم
کہ تمامی وجود مے سترگے سترگے شینہ
یعنی تمہاری دید سے میں "سیر"نہیں ہوں گا، اگرمیرا سارا وجود آنکھیں ہی آنکھیں ہوئے جائے تب بھی۔ یہی ڈرتھاکہ ہماری اس وارفتگی بلکہ دیوانگی پر آپ اس "چہرے" کے بارے میں ضرورپوچھیں گے جس کے ہم"عاشق"ہیں جو ہمارے لیے جنت نگاہ اور فردوس گوش ہے۔ کیاہم پاگل ہیں، دیوانے ہیں، کسی صحافی یا اینکر نے ہمیں کاٹاہے جو ہم آپ کو اس چہرے کا پتہ بتائیں اور خود اپنے ہی پیر پرکلہاڑی مارکر اپنے رقیبوں میں اضافہ کریں جو پہلے بھی کچھ کم نہیں کہ
ہراک نگہ "اس پر"ہراک کو سخن اس سے
پیداہے ہراخبار میں افسانے سے افسانہ
آخرکیوں اپنے آپ کو ابن انشا بنائیں
اس شہر میں کس سے ملیں، ہم سے تو چھوٹی محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہرشخص دیوانہ ترا
ویسے ہم آپ کو مکمل طور پرمایوس بھی نہیں کرناچاہتے، اس لیے کچھ اشارے کچھ کنائے اور کچھ نشانیاں بتائے دیتے ہیں۔ سب سے پہلی نشانی تویہ۔۔
میرے "اس چہرے کی"یہی ہے نشانی
اکھیاں بلور کی شیشے کی جوانی
اور اس سے بڑی نشانی اس کی کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت ہے۔ ہرکہیں ہے پر کہیں بھی نہیں بلکہ جہاں نہیں ہے وہاں بھی ہے بلکہ سب سے زیادہ وہیں ہے جہاں نہیں ہے اور جہاں ہوناچاہیے وہاں توہے ہی لیکن جہاں نہیں ہونا چاہیے وہاں بھی ہے۔ راہ سلوک کے بارے میں ایک اور نہایت اہم بات توہم نے آپ کو بتائی نہیں ہے کہ طلب کی اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ"شکم پروری" ہے۔ چنانچہ اگرکسی وجہ سے ان کے پیٹ بھرجاتے ہیں، جیسے آج ہم نے بھی مفت کامال سمجھ کر بہت بھاری ناشتا ٹھونسا ہے تو ایسی حالت میں کسی نہ کسی طرح "استفراغ" یعنی الٹیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ آج ہمارا شکم بھی بہت زیادہ بھراہواہے، اس لیے آپ اجازت دیں کہ ہم اس چہرے کو دھیان میں لاکر راہ سلوک کے لیے خود کو ہلکا کر لیں۔ کہاں ہے؟ ہاں، یہ ہے، اخبار میں مل گیا وہ چہرہ۔ اوغ۔ اوغ