یہ سارا غلط فہمیوں، خوش فہمیوں اور کج فہمیوں کا سلسلہ ہی ملک فرس یا فارس والوں کا پھیلایا ہواہے، فارسی بزرگان، گزرگان اور گو، وینٹ، گان نے ایسی ایسی باتیں کی ہیں جو خوش نماتوبہت ہیں لیکن سراسر غلط ہیں۔ مثلاً اب اس بات"نزلہ برعضوضعیف"کو لے لیجیے اور یہ بھی کہ "عورت صنف نازک"ہے سراسرغلط ہے۔
دوسری بات یعنی "عورت صنف نازک"کی تردید تو خود خواتین کرچکی ہیں اور کررہی ہیں لیکن اس "بیچاری ناک"کا کوئی والی وارث نہیں ہے اس لیے اس کی تردید اور طرف داری کے لیے ہم نے اپنی کمرباندھ لی ہے۔
"نزلہ برعضوضعیف"کا اشارہ ناک ہی کی طرف ہے جو بظاہر واقعاتی لحاظ سے یا دیکھنے سننے میں تو خوش نما لگتا ہے لیکن معنوی اور حقیقی لحاظ سے بالکل غلط ہے۔ ناک سے زیادہ مضبوط، قوی اور ہمہ جہت "عضو"اور کوئی ہے نہیں کہ یہ بیک وقت دوکام تو خاص طور پرکرتی ہے لیکن اور بھی بہت زیادہ کام کرتی رہتی ہے۔
سوچیے، غوریے، فکریے کہ دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے کام ہیں، کارنامے ہیں بلکہ کاموں کے چاچے مامے ہیں، وہ سب ناک کے نامے ہیں جیسے خطرناک، دہشتناک، تشویشناک، غضب ناک، قہرناک، المناک، غم ناک۔ یعنی کاموں اور کارناموں کا پورا خاندان بلکہ قوم قبیلہ "ناک"کا منت بار ہے اور اس کے بغیر نامکمل ہے، ادھورا ہے بلکہ "بے ناک"ہے اور جب کسی کی ناک ہی نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں رہتا ہے۔
خود کبھی کٹ جاتی ہے، کھوجاتی ہے، مرجاتی ہے
جب کوئی قوم کبھی اپنی ناک کھوجاتی ہے
انسان ہو، حیوان ہو، لیڈر ہو، چور ہو، سینہ زور ہو، صنف کرخت ہو یا نازک۔ ناک کے بغیر شرمناک ہوجاتاہے۔ بلکہ لفظ "نازک"میں تو(ز)کا تعلق ہی "زن" ہے اور (ز) کے بغیرصنف نازک؟
خیر ناک مردانہ یا زنانہ ناک کا جو معاملہ ہے، وہ جانے اور وہ جانیں ع
ان کا جوکام ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
اور ظاہر ہے کہ یہ محبت ناک اور صرف ناک کی ہوتی ہے۔ لیکن وہ جو دوخاص الخاص کام یہ عالم میں انتخاب ناک کرتی ہے، وہ بھی اتنے بڑے ہیں کہ ناک اگر اورکچھ بھی نہ کرے اور نتھنے پہ نتھنا رکھ کر بیٹھ جائے، تب بھی زندگی کا مرکز رہے گی، سب جانتے ہیں کہ "نزلہ" کوئی بری چیز نہیں یا اس کا خارج ہونا برا نہیں ہے بلکہ نزلہ اگر رک جائے تو نقصان ہوتا ہے کیونکہ انسان کے جسم کی جو اندرونی غلاظتیں ہوتی ہیں یا چلیے "فضلات" کہیے تو وہ گرمیوں میں پسینے اور سردیوں میں نزلے کی صورت میں خارج ہوتی ہیں۔
گویا گرمیوں میں جو کام پورا جسم کرتا ہے، وہ کام سردیوں میں ناک کرتی ہے۔ اب کہیے یہ ضعیفوں کاکام ہے؟ یہ تو پورے پہلوانوں کاکام ہے۔ پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ جس کی ناک بہتی ہے، اس سے ساری بلائیں دور ہوجاتی ہیں۔ لیکن یہ پہلوان ناک صرف یہ کام تو نہیں کرتی بلکہ سارے جسم کو آکسیجن سپلائی کرنے کاکام بھی کرتی ہے اور کاربن کو باہر نکالنے کاکام بھی۔ جیسے ایک شخص جو کرایہ دار کو مکان کی خوبیاں بتا رہا تھا، اس نے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اوپر جاتی ہے اوریہی سیڑھیاں نیچے بھی آتی ہیں۔ اورناک بھی ایساکرتی ہے، بیک وقت اکسیجن اندر اورکاربن باہر کرتی ہے، وہ بھی مسلسل، کوئی بریک لیے بغیر یعنی ان کمنگ بھی اورآؤٹ گوئنگ بھی۔
اس پرکیا فارسی بزرگان گزرگان غلط نہیں تھے جواتنی زبردست، طاقتور، قوی بلکہ پہلوان عضو کوعضو ضعیف کہہ گئے ہیں، اس بات پر تو سائیں کبیر ہروقت روتا رہتاہے کہ یہ نام رکھنے والے بالکل اُلٹے نام رکھتے ہیں۔
بھگت کبیر نے تویہ دلائل اورشواہد پیش کیے تھے کہ
رنگی کونارنگی کہیں ہے دودھ کوکھویا
چلتی کا نام گاڑی رکھیں دیکھ کبیر رویا
اورہم نے ان سے بھی دوبڑے ثبوت پیش کر دیے۔ دو سے ہمارا مطلب تو نتھنے ہیں ورنہ وہ دوسری والی بات ان بزرگان گزرگان نے کہی تھی کہ عورت صنف نازک ہے، اس کی تردید توخواتین خود مع ثبوت کے کر چکی ہیں۔ لیکن ناک چونکہ سب کچھ ہونے کے باوجود بے زبان ہے، اس لیے ترجمان کاکام ہم نے سنبھال لیا ہے۔ اب مزید دلائل سنیے، اگر جسم کاکوئی اور عضو کٹ جائے، ضایع ہوجائے مثلاً ایک کان نہ رہے، ایک آنکھ چلی جائے، اس طرح یہ تو پیر انگلیاں یہاں تک کہ گردے پھیپڑے بھی نہ رہے تو تکلیف تو ہوتی ہے۔
لیکن انسان کی شکل بگڑتی توہے لیکن تھوڑی کم لیکن ناک کٹ جائے تو پورا منہ بلکہ پورا خود ہی بگڑ جاتا ہے ناقابل دیدناقابل برداشت ہوجاتاہے۔ کیونکہ دوسرے پارٹس کی طرح ناک کے نتھنے ایک دوسرے سے الگ بھی ہوتے ہیں اورجڑواں بھی۔ اس لیے تو پرانے زمانے کے انصاف دار دوسروں کا اگر کوئی عضو کاٹتے تو ناک کاٹتے تھے تاکہ نہ ر ہے ناک اورنہ خطرناک۔ تاریخ یاجغرافیے میں ایسی مثال ریکارڈنہیں ہوئی کہ سرکے بعد کوئی دوسراعضو اتناکاٹاگیاہو۔ بلکہ کاٹ ہی نہیں سکتے تھے، اس لیے آنکھوں میں سلاخ پھر دیتے تھے، کانوں میں سیسہ انڈیل دیتے تھے۔ اور یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ انسان ہمیشہ سر کٹنے کی اتنی فکر نہیں کرتا جتنا ناک کی کرتاہے بلکہ بے شمار واقعات ریکارڈ پر ہیں کہ لوگوں نے ناک کوسرپر ترجیح دے کر سر کٹوا دیا لیکن ناک کٹنے نہیں دی۔ مرشد نے بھی کہاہے کہ:۔
ہواجب غم سے یوں بے حس توغم کیاسرکے کٹنے کا
نہ ہوتا اگر جدا تن سے توزاند پردھراہوتا
یعنی اگر سرکٹ گیاتوکوئی بات نہیں لیکن اگر ناک کٹ جائے تو سرشرم سے زاندپردھراہوتایعنی نہ ہونے کے برابر ہوتا۔
سنا ہے آج کل پلاسٹک کی ناکیں بھی دستیاب ہیں۔ اس لیے لوگوں کوناک کٹنے کی اتنی فکر نہیں رہی بلکہ ہیں ایک غیر مصدقہ وغیرہ ثقہ ذریعے یعنی ہمارے معاون خصوصی چشم گل چشم نے صیغہ راز بتایاہے کہ بہت سارے لوگوں کی ناکیں کٹ چکی ہیں لیکن وہ پھر بھی پلاسٹک کی ناکیں بطور معاون خصوصی لگائے پھرتے ہیں۔ جوصرف خود کودھوکا دیتے ہیں ورنہ باقی سب جانتے ہیں کیونکہ پبلک سب جانتی ہے۔