انسان اور انسانی فطرت بھی بڑی عجیب ہے۔ کہیں تو عمارت کی تعمیر میں ایک پتھر بھی ٹیڑھا رکھا جائے تو عمارت کے حسن سے صرف نظر کرنا ذوق سلیم کی تربیت کو خام قرار دیتا ہے اور کہیں پوری عمارت کی بدنمائی اور کجی کو فن کار کے ہنر کی دلیل سمجھ کر اسے شہکار قرار دینے کے لیے ہر حربہ استعمال ہوتا ہے۔ اسے کہتے ہیں اپنے شہتیر سنبھالنا اور دوسروں کے تنکے اچھالنا۔ یہی خرابی ہے جو تخریبی، منفی اور غیر استدلالی رویوں کو جنم دیتی ہے۔
یہ صورت پورے معاشرتی رویوں کو مصنوعی اور کھوکھلا پن عطا کیے جا رہی ہے۔ پتھر کی عمارا ت کے ساتھ خواب، امید اور زندگی سب ہی کو مسمار کر دیا جاتا ہے۔ پیسے، محنت، افرادی قوت سب ملیا میٹ ہو جاتے ہیں اور فضا میں جلے خوابوں کی آلودگی کا نوحہ رہ جاتا ہے۔ یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ بس لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ اور بنا کر مٹانا سیاست کا چلن ہے۔
بچپن کی کہانی یادآگئی جب ایک بچہ تیل لینے جاتا ہے اور گلاس بھرنے کے بعد اسے الٹا کر پیندا بھروا لیتا ہے اور پھر گلاس بھی خالی اور پیندا بھی خالی۔ یہی صورت ہر دور میں اصلاحات کے نام پر نظرآتی ہے۔ ٹیکسوں کے نفاذ اور مدد کی اپیل مظلوم عوام کی زندگیاں پیندے تک لے آئی ہیں۔ اب تو مظلومیت کا یہی نعرہ بن گیا ہے۔
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
اور اس درد کے اثرات کن صورتوں میں سامنے آتے ہیں وہ ایک مضحکہ خیز عمل ہے۔ سر سید نے کہا تھا فطرت کا اصول ہے کہ پانی پنسال کی طرف سفر کرتا ہے۔ یعنی جیسے حکمران ویسی رعایا سو حکومتی مشینری کی عکاسی کی صورت مداری، جادوگر، دانشور اور دانائی سے محروم عوام زندگی تو جیتے ہیں، پر مٹھی نہیں کھولتے۔ ایک ہفتہ چکن پیس ٹشو میں لپیٹ کر اس میں کیڑے پیدا ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر ویڈیو بنا کر آپ لوڈ کر دیتے ہیں کہ اس ریسٹورنٹ سے کھانا مت کھائیں اس میں کیڑے نکلتے ہیں۔ چپس کا ڈھیر لگا کر پٹرول ڈالیں گے اور ویڈیو بنائیں گے کہ یہ چپس نہیں کھائیں، یہ پلاسٹک ہے، یہ دیکھیں آگ لگ گئی۔
سٹیٹس ڈالنے کی جلدی میں روٹیاں جلا کر اپنے الھڑ پن کا ثبوت دیا جائے گا۔ درد۔ جدائی۔۔ فاصلے۔۔ یا کوئی اور لفظ لکھ کر پوری قوم کے زندہ ہونے کو چیک کیا جائے گا کہ کس کس کا سانس چل رہا ہے۔ دوسروں کے گھروں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں چور بن کر چھپ کر ویڈیو بناتے ہیں اور سوشل میڈیا پر خلقت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کو خیرات دے کر، ان کو کھانا کھلا کر ان کی تصویریں بنا کر ان کی عزت نفس کو بھنبھوڑتے اور اپنے نفس کی تسکین کرتے ہیں۔
ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہمارے نامہ اعمال پر کیا، کب اور کیسے لکھا جارہا ہے۔ لیکن ہم دوسروں کے نامہ اعمال کی تصویریں کھینچ کر ان کو فوراً سے پیشتر جنت یا دوزخ میں داخلے کا ٹکٹ تھما دیتے ہیں۔ حسد کی عینک اور ہٹ دھرمی کے لبادے پہن کر ہم خود کو ولی قرار دے چکے ہیں۔ سارا دن اپنے ہی جیسے لوگوں کی مجبوریوں کو جہنمی اور ان کی لاچاریوں کے فاسق ہونے پر مہر لگا کر ان کی تصویریں سوشل میڈیا پر لگا کر سب کو متوجہ کرتے ہیں اور اپنی تحقیق کی داد چاہتے ہیں اور اپنی ولایت کے ثبوت میں سبزیوں اور پھلوں پر اللہ کا نام اور قرانی آیات تلاش کرتے ہیں۔
ولایت کے اس سفر میں ہم نے پایا تو کچھ نہیں۔ البتہ تحمل، برداشت، رواداری، مروت اور ہمدردی کھوتے چلے جا رہے ہیں۔ "میں" سے "ہم" کے سفر میں انفرادی مفاد اجتماعی یک جہتی پر غالب آ گیا ہے۔ نیل کے ساحل تابہ خاک اندلس بلوچ و سندھی، پٹھان اور پنجابی کی دہائی دینے میں مگن ہیں۔ منہ دیکھے کا احترام یا دل رکھنے کی باتیں خواب ہوئیں۔ اب بلاک کیآپشن اوپن ہے۔ سوشل میڈیا برقع میں لپٹی طوائف کا کردار ادا کر رہی ہے۔ راستے بند کرنے پر تو کچھ بھنبھناہٹ سنائی دے جاتی ہے۔ انسانی دلائل بند ہونے اور دشنام بازی پہ بے حسی کی چادر اوڑھے پوری قوم مصروف عمل ہے۔۔ وہی عمل، جس سے زندگیاں جنت بھی بنتی ہیں اور جہنم بھی۔
عوام تو عوام یہاں تو وزیروں، مشیروں کی کھیپ میں کوئی ایسا نہیں جس سے ہم پوچھ سکیں: کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں یہی خرابی ہے جو ہمارے شعور کو پنپنے نہیں دیتی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ علم کا حصول مشکل نہیں رہا۔ عقل و دانش کے ذرات فضا میں تیر رہے ہیں۔ سو ہر کس و ناکس باب علم کے زینے چڑھے بنا ہی خلعت سے سرفراز ہو چکا ہے۔ اب ہم ایک ہی مقام پر طواف خود پرستی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ مسائل تصوف ہوں یا امور شریعت، معیشت ہو یا تعلیم ہم ہر فن مولا ہجوم کی صورت اپنے فن کی داد پانے کو دوسروں کو کچلنے میں عار نہیں سمجھتے اور جب ہم آگے نکل آتے ہیں تو مجروح کی تصویر کھینچ کر بندر کی بلا طویلے کے سر باندھ دیتے ہیں۔
ہماری نیکیاں دریا میں نہیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر گڑھی ہیں۔ ان کے ساتھ دوسروں کے گناہ بھی پیوست ہیں، تا کہ ہماری نیکیوں کا پلڑا بھاری نظر آئے۔ یہی نہیں ہماری دانائیوں کے شہرے گئے زمانے کے مسائل کا تجزیہ کرنے میں بھی طاق ہیں۔ کس قوم کو کیا کرنا چاہیے تھا۔ بادشاہ کہاں نادانی کر گیا۔۔ درویش کی عیاری وغیرہ وغیرہ۔۔ ہم جو اپنی زندگیوں کو سمجھنے سے عاری۔۔ یہاں تک اپنے دنیا میں آنے کا مقصد ہی نہیں سمجھے۔ دوسروں پر زندگیاں تنگ کرنے میں طاق ہیں۔۔
ہم ایسے ناقد ہیں جو تنقید کے فن سے نابلد ہے۔ ہم سقراط بننا چاہتے ہیں لیکن زہر نہیں پی سکتے نہ ہی اپنی کاہلی قربان کر سکتے ہیں۔ ہم تو کسی کاوش، کسی جدوجہد کے بنا ہی اپنے شوق فوٹو شاپ کے ذریعے پورے کرتے ہیں۔ لباس، نقوش، رنگ یہاں تک کہ آوازیں بھی بدل دیتے ہیں۔ آوازوں کے اس آہنگ کے تبادلے کو مزاح سمجھا جاتا ہے۔ تبدیلی کے نام پر بھی یہی فوٹو شاپ کا عمل کافی سمجھ بیٹھے ہیں۔ نہیں بدلناآتا تو خود کو نہیں بدلنا آتا۔
ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے
سوال یہ نہیں کہ ہم کس رستے پر جا رہے ہیں۔ اب صرف اس کی تصویر دکھانے کا وقت ہے۔ شاید کسی تصویر یا منظر کا رنگ گہرا ہو کہ وہ ذہن و دل پر ان مٹ نقوش چھوڑ سکے اور حقیقی تبدیلی بھی رونما ہو سکے ورنہ تو ہم شہزادی کے جسم سے سوئیاں نکالنے کی بجائے صرف دروازے بند کرنے اور کھولنے میں مگن ہیں کہ دیو اندر نہیں آ سکتا۔ ہم چارہ گری سے زیادہ مداری بننے پر فخر کرتے ہیں۔
منظر بدل جاتے ہیں لیکن منظروں کے درمیان زندہ لوگ کفن پہن لیتے ہیں۔ یہ کفن ان کی آرزوؤں کی عدم تکمیل کا ہے۔ یہ وقت سوچنے سے زیادہ عمل کرنے کا ہے۔ منفی رویوں کے تدارک کے لیے اپنے اپنے حصے کی شمع جلانی چاہیے۔ پھر چاہے کوئی پھونکتا رہے خاک اڑ کر سینے جلائے گی۔ کاش ان کاغذی دستاویزات میں ہمیں اپنی اصل صورت نظرآ سکے اور برق خرمن کا ہیولی مجسم ہو جائے ورنہ تو معاملہ بندی یہیں تک ہے۔
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی